تحریر : عرفان حسین تاریخ اشاعت     07-01-2017

پاکستانی فٹ بال ٹیم کی حالت ِ زار

فٹ بال کے شائقین سے فوری سوال: پاکستان کی فٹ بال ٹیم کا کیپٹن کون ہے ؟ہارگئے ؟ پریشان نہ ہوں، اس وقت ہماری فٹ بال کی قومی ٹیم ہے ہی نہیں تو کیپٹن کا کیا ذکر؟اس کی وجہ 2015 ء سے چلا آنے والا ایک قانونی تنازع ہے جس نے پاکستان فٹ بال فیڈریشن کو مفلوج کررکھا ہے ۔ لیکن اگر پاکستانی فٹ بال کے حوالے سے کسی چیز کو ثبات حاصل ہے تو وہ یہ کہ اس کے انچارج2003 ء سے اپنے عہدے پر موجود ہیں ۔ اُن کا انتخاب اُس وقت ہوا تھا جب ملک میں فوجی حکومت تھی۔ تاہم اس حوالے سے ایک سیاست دان ہی اکیلے نہیں جنہوںنے پی پی پی کے جہاز سے چھلانگ لگا کر جنرل مشرف کی کابینہ میں شمولیت اختیار کی تھی، بہت سے دیگر افراد نے بھی جنرل مشرف کے کھلے دسترخوان پر بیٹھ کر نعمتوں سے لطف اٹھایا تھا۔ 
فٹ بال کی عالمی تنظیم ، فیفا سونے کے انڈے دینے والی مرغی ہے ۔ یہ انڈے''فیفا گول پروجیکٹس‘‘ کے تحت فٹ بال کے انفراسٹرکچر کو ترقی دینے کے لیے رکن ممالک کوفنڈز کی صورت فراہم کیے جاتے ہیں۔ چنانچہ پاکستان بھی ''فٹ بال کی ترقی ‘‘ کے لیے اپنا حصہ وصول کرتا ہے ۔ تاہم کئی ملین ڈالر وصول کرنے کے باوجود پاکستان فیفا رینکنگ میں 209 رکن ممالک میں 194 ویں نمبر پر ہے ۔ ایسی ناقص کارکردگی دکھانے پر زیادہ تر بزنس تنظیموں کے سی ای اوز کو فارغ کردیا جاتا لیکن مذکورہ سیاست دان کو مزید طاقت اور اختیارات ملتے گئے ۔ پاکستانی سیاست میں طویل عرصہ گزارنے کا تجربہ اور تجربے سے حاصل ہونے والی مہارت رکھتے ہوئے وہ فیفا اور ''اے ایف سی ‘‘ کی کئی کمیٹیوں تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ 
اگرچہ میں انٹر نیشنل فٹ بال کا بہت بڑا شوقین نہیں لیکن میں اپنی دلچسپی برقرار رکھنے کے لیے فٹ بال ورلڈ کپ کے دوران ہلکی پھلکی شرط لگاتار ہتا ہوں۔ اس کا مقصد ''لہو گرم رکھنے کا اک بہانہ ‘‘ ہوتا ہے ۔ فی الحال جنوبی ایشیا کی کسی ٹیم نے دنیا کے اس مقبول ترین ٹورنا منٹ میںحصہ لینے کے لیے کوالی فائی نہیں کیا ہے ۔ آپ نے بھی سوچا ہوگا کہ 1.5 بلین مجموعی آبادی رکھنے والے بر ِ صغیر نے شاید ہی کبھی فٹ بال کے عالمی کپ میں کھیلنے کا اعزاز حاصل کیا ہو۔ اس کے لیے میرے پاس ایک تھیوری ہے کہ ہماری فٹ بال میں مایوس کن کارکردگی کی وجہ ہماری ''دبلی پتلی دیسی ٹانگیں ‘‘ ہیں۔ آپ کو اہم میچز کھیلنے کے لیے سپر فٹ ہونا ہوتا ہے ، لیکن ہماری آب وہوا ہم سے اپنی توانائی محفوظ رکھنے کا تقاضا کرتی ہے ۔ چنانچہ کرکٹ ہمیں راس آتی ہے ، کیونکہ ایک فیلڈر کے پاس کبھی کبھار ہی گیند آتی ہے۔ اُس وقت تک وہ آرام سے اپنی جگہ کھڑ ا رہتا ہے ۔ اس کے بعد لنچ، چائے کا وقفہ اور پانی کے وقفے ہوتے رہتے ہیں۔ دوسری طرف فٹ بال میں ایک فاروڈ 90منٹوں میں چھ کلو گرام پسینہ بہا دیتا ہے ۔ 
تاہم افریقی اور عرب کھلاڑیوں کی فٹ بال کے میدانوں میں کارکردگی کو دیکھتے ہوئے میری دلیل کمزور پڑجاتی ہے ۔ اگر وہ ایسا کرسکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں؟ایک وجہ شاید سکولوں اور کالجوں کی سطح پرمیدانوں اور کوچز کی کمی ہو۔ حتیٰ کے فٹ بال کلب بھی ایسے میدانوں پر کھیلنے پر مجبور ہیں جو عالمی سطح پر استعمال کیے جانے والے ہموار میدانوں کی نسبت بہت خستہ حالت میں ہوتے ہیں۔ چنانچہ مذکورہ صاحب سے گزارش ہے کہ وہ آگے آئیں اور ہمیں بتائیں کہ فیفا سے ملنے والے کئی ملین ڈالرز کس مصرف میں لائے گئے اور ان سے ''فیفا گول‘‘ کے تحت انفراسٹرکچر کی تعمیر کے لیے کیا کیاگیا ؟یہ درست ہے کہ اس رقم سے لاہور میں ''پی ایف ایف ہائوس ‘‘ تعمیر کیا گیا اور اس کی زیادہ تر جگہ کمرشل اداروں کو کرائے پر دے دی گئی ۔ چونکہ ریاست ِ پاکستان فٹ بال سے سوتیلی ماں کا سا سلوک کرتی ہے، اس لیے مجھے یقین ہے کہ فیفا کی طرف سے دی گئی رقم تنخواہوں اورسٹاف کی دیگر ضروریات کی مدمیں خرچ ہوجاتی ہوگی۔ تاہم رقم کا ایک بڑا حصہ فیفا اور اے ایف سی کی دنیابھرمیں ہونے والی میٹنگز میں شرکت کرنے کے لیے مسٹر حیات کے لاتعداد غیر ملکی دوروں کی نذر ہوجاتا ہوگا۔ 
فیفا الیکشنز میں ووٹ خریدنے کے الزامات بھی بہت سنگین ہیں۔ گزشتہ سال دنیا بھر کے میڈیا میں سپ بلیٹر (Sepp Blatter)اسکینڈل کی باز گشت سنائی دی۔ مسٹر بلیٹر پر الزام تھا کہ اُنھوںنے ترقی پذیر ممالک کی فٹ بال تنظیموں کو فنڈز کی مد میں بھاری رقوم دیں۔ اس کا مقصد ان ممالک کے ووٹ حاصل کرنا تھا۔ بہت سے دیگر پر بھی مشکوک سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا الزام لگا۔ خاص طور پر قطر کے بن حمام (Bin Hammam)نے اپنے ملک کے لیے 2022 ء کے فٹ بال کے عالمی کپ کی میزبانی حاصل کرنے کے لیے بھرپور مہم چلائی ۔ 2014 ء میں ''سنڈے ٹائمز ‘‘ نے ایک طویل رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ اس ضمن میں ''ترقیاتی فنڈز ‘‘ کی مد میں بھاری رقوم فراہم کی گئیں۔ ذرا اندازہ لگائیں کہ پاکستان نے کس کوووٹ دیا ہوگا؟ ''حسن ِ انتظام ‘‘ یہ ہے کہ فیفا کی طرف سے فراہم کردہ فنڈز کوحکومت آڈٹ نہیں کرتی ۔ 
برازیل میں منعقد ہونے والے حالیہ عالمی کپ کے پی ایف ایف کو فراہم کردہ ٹکٹوںکی غیر قانونی فروخت کے الزامات بھی موجود ہیں۔ ان میں سے سب سے سنگین شا ید وہ بیان بازی ہے جس کی وجہ سے پی ایف ایف میں دراڑ نمودار ہوئی اور اس نے قومی سطح پر فٹ بال کی تمام سرگرمیوں کو مفلوج کردیا۔ تنظیم کے اندر الزامات کی بوچھاڑ کی اگست 2015 ء میں فیفا کے وفد نے تحقیقات کیں۔ تاہم ایک پیشہ ور کوچ Zavisa Milosavlijevic کو برطرف کردیا گیا کیونکہ اُن کی سفارشات اس ''دانائی‘‘ کو راس نہ آئیں جس کی وجہ سے پاکستان فٹ بال کھیلنے والے ممالک کی فہرست میں آخری درجوں پر ہے ۔ نومبر2014 ء میں '' ایک انٹرویو دیتے ہوئے اُنھوںنے مسٹر حیات کو ''انتہائی خود پسند ‘‘ قرار دیا تھا۔ 
پی ایف ایف میں اختیار کی رسہ کشی کی وجہ یہی ہے کہ سب کی نظریں اُن فنڈز پر ہیں جو ڈالروں کی صورت ملتے ہیں اور ان کا کوئی احتساب نہیں ہوتا ۔ اس طرح صدر کو دیگر سہولیات بھی میسر آتی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سپورٹس تنظیموں کے ہیڈ اپنے عہدوں سے چمٹے رہنا چاہتے ہیں لیکن یہ صاحب اس عہدے پر چودہ برس سے براجمان ہیں۔ کیا اُن کی کارکردگی ان سے تقاضا نہیں کرتی کہ اُنہیں اب گھر چلے جانا چاہیے ؟اس وقت لاہور ہائی کورٹ نے پی ایف ایف کے معاملات کی دیکھ بھال کے لیے ایک ریٹائرڈ جج کو تعینات کیا ہے اور فیفا نے فنڈز کی فراہمی معطل کردی ہے ۔ کیا تنظیم کے سربراہ کا فیصلہ کرتے ہوئے کھلاڑیوں کو میدانوں میں بھیجا جانا ممکن ہوپائے گا؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved