تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     07-01-2017

ہمارے پیشے

ڈاکٹر
ڈاکٹر دو طرح کے ہوتے ہیں، ینگ یا بوڑھے۔ بوڑھے کسی کام کے نہیں ہوتے اور ینگ ہمیشہ ہڑتال پر رہتے ہیں۔ ہمارے اوکاڑہ میں ایک ہوموپیتھ ڈاکٹر ذاکر حسین ہوا کرتے تھے، جنہیں ملنے کے لیے اکثر شیخ خورشید (بولا) آیا کرتے۔ ایک روز خورشید بولا مطب میں بیٹھے تھے کہ ایک عورت آئی اور پوچھا کہ ڈاکٹر صاحب کہاں ہیں۔ خورشید نے بتایا کہ کراچی گئے ہوئے ہیں۔ عورت نے پوچھاکیوں؟ تو خورشید نے بتایا کہ وہاں ایک مریض مرتا نہیں تھا، اسے مارنے گئے ہیں۔ پیپلز پارٹی میں ایک ایم بی بی ایس ڈاکٹر بھی ہیں؛ حالانکہ سارے کے سارے ہی ایم بی بی ایس ہیں۔ ایک پی ایچ ڈی ڈاکٹر بھی ہوتا ہے جو زیادہ تر اپنا مقالہ کسی کی نقل کرکے تیار کرتا ہے اور پکڑا جاتا ہے۔ ایک صاحب کا گلا اتنا خراب ہوا کہ آواز تقریباً بند ہوگئی۔ وہ ڈاکٹر سے ملنے ہسپتال گیا تو اسے بتایا گیا کہ ڈاکٹر صاحب شاید گھر گئے ہیں جو ہسپتال کی بغل میں ہی واقع ہے۔ اس شخص نے ڈاکٹر کے دروازے پر جا کر گھنٹی دی تو اندرسے ایک نسوانی آواز آئی، کون ہے؟ تو ان صاحب نے بمشکل آواز نکال کرکہا، ڈاکٹر صاحب ہیں؟ تو اندر سے جواب آیا۔ نہیں ہیں، آ جائو!
وکیل
یہ عدالت میں مقدمے لڑتا اور بیوی سے بحث میں ہار جاتا ہے۔ منقول ہے کہ ایک آدمی سے قتل ہوگیا تو وکیل کو بھاری فیس دیتے ہوئے بولا کہ آپ مجھے پھانسی سے بچالیں، عمر قید کی خیر ہے۔ ہر پیشی پر وہ وکیل کو عمر قید یاد دلاتا۔ آخراسے عمر قید ہوگئی۔ عدالت سے باہر نکل رہے تھے کہ مجرم نے وکیل صاحب کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے وعدہ پورا کرکے عمرقید کروائی تو وکیل صاحب بولے کہ میں نے بڑی مشکل سے عمر قید کروائی ہے، جج صاحب تو تمہیں بری کر رہے تھے۔ پولیس گردی کے ساتھ ساتھ وکیل گردی بھی ہونے لگی ہے۔ کبھی یہ شعر تھا ؎
فیس تو لے لی ہے پوری
منشیانہ چل رہا ہے
ایک اور شعر اور ملاحظہ ہو ؎
میں شعر بھی لکھوں گا، وکالت بھی کروں گا
لازم نہیں یہ بات کہ محنت بھی کروں گا
حکیم
دو نیم حکیم مل کر ایک حکیم بنتا ہے۔ لقمان کی طرح ان کے پاس بھی ہر مرض کی دوا ہوتی ہے۔ سب سے بڑے حکیم الامت کہلاتے ہیں۔ ڈاکٹروں کا تو کلینک ہوتا ہے جبکہ حکیم سڑک پر بیٹھ کر بھی کام چلا لیتا ہے۔ ایک شخص کو رات بھر نیند نہیں آتی تھی، وہ حکیم کے پاس گیا، اس کے ساتھ اس کی باتونی بیوی بھی تھی۔ حکیم نے اسے ایک پڑیا دی اور کہا کہ اسے سونے سے پہلے استعمال کرنا ہے۔ بیوی نے پوچھا، حکیم صاحب! یہ پڑیا کس چیز کے ساتھ استعمال کرنی ہے تو حکیم بولا، یہ پڑیا انہوں نے نہیں، آپ نے استعمال کرنی ہے تاکہ آپ کے میاں آرام سے سو سکیں! حکیم لوگ پڑیوں کے علاوہ معجونیں بھی اپنے مریض کو استعمال کرواتے ہیں تاکہ مریض کا مرتے وقت منہ میٹھا رہے۔ علامہ اقبال کے ہر تیسرے شعر میں حکیم کا ذکر ہے مثلا ع
لاکھ حکیم سر بجیب ، ایک کلیم سر بکف 
نیز ع
دوا نہ ہو تو حکیمی ہے کار بے بنیاد
ٹھیکیدار
یہ مکان، سڑکیں اور موٹرویز بناتا ہے۔ جتنا بڑا منصوبہ ہو، اس میں سے اسی مقدار میں خدمت برآمد ہوتی ہے۔ تمام ٹھیکوں میں رکن اسمبلی کا حصہ ہوتا ہے جو اسے گھر بیٹھے ہی مل جاتا ہے۔ سیاست کے بعد ٹھیکیداری سب سے بڑا پیشہ ہے۔ سرکاری ٹھیکوں میں اوپر سے لے کر نیچے تک ہر ایک کا حصہ ہوتا ہے جو اکثر اوقات مسلسل بھی ہوتا ہے۔ یعنی اگر سڑک کا ٹھیکہ ہو تو وہ آگے سے بنتی ہے اور پیچھے سے ادھڑتی جاتی ہے اور اس طرح اس کا ٹھیکہ بارہ مہینے جاری رہتا ہے۔ جن ٹھیکیداروں کو پیشگی ادائیگی کی جاتی ہے وہ کام بیچ میں چھوڑ کر رفو چکر ہو جاتے ہیں۔ افیون کی دکان کو بھی ٹھیکہ ہی کہتے ہیں جس کی وجہ نامعلوم ہے۔ ایک ٹھیکہ وہ ہوتا ہے جو حکومت نے عوام کی فلاح و بہبود کا لے رکھا ہوتا ہے جو کبھی پورا نہیں ہوتا جبکہ سب سے بڑے ٹھیکیدار خود حکمران ہی ہوتے ہیں۔ کپڑوں پر ٹھپوں سے نقش و نگار بنانے کو ٹھیکنا کہتے ہیں جو زیادہ تر سندھی اجرک میں رُو براہ کیا جاتا ہے۔ ٹھیکنے والے کو ٹھیکدار نہیں کہا جاتا، حالانکہ کہنا چاہیے۔
دکاندار
ہمارے ہاں حکومت کم ہوتی ہے اور دکانداری زیادہ۔ کبھی شعر کہا تھا؎ 
ہوا جو نفع تو پوچھا نہ جاکے اس سے ظفرؔ
کہ اس دکان میں حصہ کوئی ہمارا بھی تھا
منقول ہے کہ دو دکانیں جو ساتھ ساتھ تھیں، ایک نے دوسرے سے شکایت کی کہ تمہارا ملازم لڑکا میری بوری سے آٹا نکال کراپنی بوری میں ڈالتا ہے۔ دوسرے نے کہا وہ تو بے چارہ پاگل ہے۔ ایک بار پھر اس نے لڑکے کو آٹا چراتے ہوئے دیکھ لیا تو اس نے ساتھ والے دکاندار سے پھر شکایت کی جس پر دکاندار بولا، تمہیں بتایا ہے کہ یہ پاگل ہے تو دکاندار نے کہا کہ اگر یہ واقعی پاگل ہے تو کبھی تمہاری بوری سے آٹا نکال کر میری بوری میں بھی ڈالے۔ ایک اور شعر سنیے ؎
سودا سلف کہیں نظر آتا نہیں، ظفرؔ
کیسے دکاندار ہو، کیسی دکان ہے
الطاف بھائی ہڑتال کی کال دیتے تو پورے کراچی کی دکانیں بند ہو جایا کرتی تھیں، مگر اب نہیں ہوتیں۔ کیسا زمانہ آ گیا ہے، جو دکان اونچی ہو، اس کا پکوان ضرور پھیکا ہوتا ہے۔ ہم اس محاورے سے اتفاق نہیں کرتے کیونکہ دکان کوئی ہوٹل نہیں ہوتا۔ چلتی دکان والا محاورہ بھی غلط کیونکہ دکان چلتی نہیں، اپنی جگہ پر کھڑی رہتی ہے۔
آج کامقطع
اس طرح بادلوں کی چھتیں چھائی تھیں‘ ظفر
چاروں طرف ہوا کا سمندر سیاہ تھا

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved