یادَش بخیر! بزعمِ خویش و بہ خواہشِ حلقۂ احباب جنابِ عمران خان ہمارے وطنِ عزیز کے سب سے مقبول عوامی رہنما ہیں، وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ۔ کسی کی مقبولیت کا گراف کتنا بلند ہے یاکتنا پست، جمہوری دنیا میں اس کا معیار قومی انتخابات ہوتے ہیں، لیکن ہم انہیں بھی معیار تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں،اس لیے ہر ایک کے لیے مَن پسند دعووں کا میدان ہمیشہ کھلا رہتا ہے۔
ہفتہ کے روز جنابِ عمران خان کا یہ بیان قومی اخبارات کے صفحہ اول کی زینت بنا: ''پاناما لیکس پر اپوزیشن زرداری کی سربراہی میں ایک ہو سکتی ہے‘‘۔ ہماری دعا ہے جنابِ عمران خان کی یہ خواہش جلد پوری ہو تاکہ ہم بھی ''نیت کی میں نے پیچھے اس امام کے‘‘ کا منظر جلد دیکھیں۔ اس سے ہمارے سیاسی شِعار کا پتا چلتا ہے کہ ہم اپنے سیاسی کلچر میں کسی بھی طرح کی اَخلاقی اَقدار کے روادار نہیں ہیں، بس ہوائے نفس کے اسیر ہیں۔ جنابِ عمران خان آصف علی زرداری صاحب کو بڑا ڈاکو کہتے رہے،مسلم لیگ ن اور پی پی کو ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹّے کہتے رہے، اُن پر مسلم لیگ ن کے ساتھ مُک مکا کی پھبتی بھی کستے رہے، لیکن نواز شریف کی عداوت میں وہ بقولِ خود بڑے ڈاکو کو بھی کرپشن کے خلاف جنگ میں امام ماننے کے لیے تیار ہیں۔ جب انسان پر جذبۂ انتقام غالب آجائے،تو معیارات بدل جاتے ہیں، ایک کی کرپشن ناقابل قبول اور دوسرے کی قابل قبول قرار پاتی ہے،الغرض گُڈ طالبان اور بیڈ طالبان کی طرح گڈ کرپشن اور بیڈ کرپشن کی بھی گنجائش نکل آتی ہے۔ بہر حال جنابِ آصف علی زرداری کو جنابِ عمران خان کی امامت پر فائز ہونے کا منصب مبارک ہو، مہم جوئی انسان کو بعض اوقات بلندی سے پستی میں گرا دیتی ہے۔
جنابِ عمران خان سمیت تمام سیاسی قائدین سے ہماری گزارش یہ ہے کہ ازراہِ کرم اپنی سیاست میں مذہب کو تختۂ مشق نہ بنائیں اور ذاتِ رسالت مآب ﷺ اور دینی مقدّسات کے حوالے سے کسی تحقیق کے بغیر کوئی بات نہ کہیں۔ حال ہی میں جنابِ رسالت مآب ﷺ کی شان میں اُن کی زبان سے انتہائی نازیبا کلمات ادا ہوئے اور علامہ پیر محمد افضل قادری نے بجا طور پراور بر وقت اُن کی گرفت کی اور جنابِ عمران خان کو توبہ کرنے، اپنی گفتار پر نادم ہونے اور معافی مانگنے کا موقع دیا۔انہوں نے بھی بر وقت اس تنبیہ پر کان دھرا اور اپنی پریس کانفرنس میں معافی مانگی، ورنہ اس سے ایک اور مصیبت کھڑی ہو جاتی۔ اُن کا فوری طور پر معافی مانگنا قابلِ تحسین ہے،لیکن انہیں اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسولِ مکرم ﷺ کے حضور صدقِ دل سے توبہ بھی کرنی چاہیے۔
آج کل ایک اور نفسیاتی بیماری یہ ہے کہ انسان اپنی غلطی کو تسلیم کرنے کی بجائے اگر مگر کا سہارا لیتا ہے کہ میرا یہ ارادہ نہیں تھا، میری بات کو سیاق وسباق سے ہٹ کر بیان کیا گیا ہے، تاہم اگر کسی کی دل آزاری ہوئی ہے تو میں معذرت خواہ ہوں،خطا پر متنبّہ ہونے کے بعد فرزندِ آدم کو سنت آدم علیہ السلام پر عمل کرتے ہوئے غیر مشروط توبہ کرنی چاہیے۔ معذرت کے حقیقی معنی ہیں: اپنی خطا پر عذر پیش کرنا، یعنی کسی درجے میں اس کا جواز تلاش کرنا، یہ شِعاردرست نہیں ہے،غیر مشروط معافی ہی بہتر شِعار ہے۔ ہمیں حیرت ہے کہ پاکستان تحریکِ انصاف کے وائس چیئرمین جنابِ شاہ محمود قریشی، جو حضرت شیخ بہاؤالدین زکریا ملتانی نوّرَ اللہ مَرقَدہٗ کی خانقاہ کے سجادہ نشین ہیں ، کے ہوتے ہوئے اس طرح کی بے اعتدالی سرزد ہوتی ہے،اپنی سیاسی قیادت سے وفادینی اقدار کے تابع ہونی چاہیے، حبیب جالب نے کہا تھا ؎
ظلمت کو ضیائ، صر صر کو صبا، بندے کو خدا، کیا لکھنا
پتھر کو گُہر ، دیوار کو دَر ، کرگس کو ہُما، کیا لکھنا
لیکن بدقسمتی سے آج کل جسے تھوڑی سی عزت یا شہرت مل جائے،تو وہ اپنے آپ کو عقلِ کُل سمجھنے لگتا ہے اور خدائی منصب سے کم تر درجے پر قناعت نہیں کرتا، غلطیوں پہ غلطیاں کرتا چلا جاتا ہے، لیکن اپنی اصلاح پر آمادہ نہیں ہوتا۔اس سے پہلے بھی ہمیں کسی نے جنابِ عمران خان کے ایک غیر محتاط بیان کی طرف متوجہ کیا تھا، جس میں انہوں نے اپنی سیاست کے ابتدائی اور موجودہ دور کا تقابل کرتے ہوئے اُسے ختم المرسلین سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کے مکی اور مدنی دور سے تشبیہ دی تھی۔
یہی گزارش ہم اینکر پرسنزسے وقتاً فوقتاً کرتے رہتے ہیں کہ اپنی فکر کی تعلّی، تکلُّم وگفتار کی جولانی اور عقلِ کُل ہونے کا جو پِندار آپ لوگوں نے اپنے دل ودماغ میں پال رکھا ہے،ازراہِ کرم اُس سے مذہب کو بچا کر رکھیں، آپ کا بڑ ا احسان ہوگا۔ لیکن مصیبت یہ ہے کہ ان اینکر پرسنز نے بھی اپنے آپ کو مُصلِحِ اعظم سمجھ رکھا ہے اور ان کی سب سے زیادہ دلچسپی کا موضوع مذہب اور اہلِ مذہب کی اصلاح ہوتا ہے۔ یہی افلاطون اور بُقراط قسم کے اینکر پرسنز جب چند دن آف اسکرین ہوجائیں تو انہیں اپنی قدر کا پتا چل جاتا ہے، لیکن جب تک اسٹوڈیوز میں رونق افروز ہوں تو پھر اُن کا سیلابِ بلا خیز تھمنے کو نہیں آتا۔
ہماری خواہش تھی کہ جنابِ عمران خان اپنی مُہم جوئی کی رَوِش کو ترک کر کے سنجیدہ سیاست کی طرف آئیں اور آئین وقانون کے دائرے میں رہتے ہوئے جمہوری اَقدار کے مطابق اقتدار کے ایوانوں تک پہنچیں اور اپنے وژن کے مطابق پاکستان کو اقوامِ عالَم کے درمیان مقامِ افتخار دلائیں اورقوم کی خدمت کریں۔ لیکن بدقسمتی سے وہ نہایت عُجلت میں ہیں،کل کی بجائے آج اور آج کے بجائے ابھی ایوانِ اقتدار کے مَسندِ اعلیٰ پر فائز ہونا چاہتے ہیں۔ سیاسی اختلافات کو انہوں نے ذاتی اور شخصی عداوت میں تبدیل کردیا اورذاتی تعلّی کے زعم ہی کے سبب وہ دوسرے رہنمائوں کے ساتھ آمنے سامنے بیٹھ کرکوئی متفقہ قومی ایجنڈا تشکیل دینے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں۔ ساڑھے تین سال گزرنے کے باوجود اب تک نہ احتساب کا جامع قانون بن سکا اور نہ انتخابی اصلاحات کا کوئی متفقہ قانونی ضابطہ مرتب ہوا،کل پھردھاندلی کا واویلا مچے گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جیسا بھی جمہوری نظام ہے،اُس کا تسلسل جاری رہے اور نظام کے اندر رہتے ہوئے اُس کی اصلاح کی تدابیر اختیار کی جائیں۔
جنابِ عمران خان اور ان کے بعض جیالوں نے اپنی سیاست میں سابق امریکی صدر جارج بش کے اس نظریے کو اپنا رکھا ہے کہ آپ ہمارے دوست بن جائیں، یعنی اندھے پیروکار، ورنہ پھر آپ ہمارے دشمن ہیں، بیچ کا راستہ کوئی بھی نہیں ہے۔ اگر آپ نیک نیتی کے ساتھ ایک موقف اختیار کرسکتے ہیں تو دوسرے فریق کا یہ حق بھی آپ کو تسلیم کرنا چاہیے۔ ہوسکتا ہے وہ نیک نیتی کے ساتھ آپ کے موقف سے اختلاف کر رہا ہواور آپ کا خیر خواہ بھی ہو۔کبھی صحیح اور غلط کا تقابل ہوتا ہے اور بعض صورتوں میں صحیح کے بھی درجات ہوتے ہیں،جسے فارسی میں بہ،بہتر اور بہتر ین سے تعبیرکیا جاتا ہے۔ لہٰذا اپنی پالیسیوں کے بارے میں دوسروں کی رائے کو توجہ سے سنیں، دلائل کی روشنی میں کسی کی رائے کو رد یا قبول کرنا آپ کا حق ہے۔ جس طرح آپ کے فریقِ مخالف سے فکری اور عملی خطا سرزد ہوسکتی ہے،اِسی طرح ہم سب امکانِ خطا سے پاک نہیں ہیں۔لہٰذا دوسرے کا موقف سننے کے لیے ہرفریق کو اپنی چشمِ بصیرت وا رکھنی چاہیے۔
قرآن کریم یہی شِعار تعلیم فرماتا ہے: ''اورنیکی اور بدی برابر نہیں ہیں، سو آپ برائی کواچھے طریقے سے دور کریں، پس وہ شخص کہ تمہارے اور اس کے درمیان دشمنی ہے، تمہاراگہرا دوست بن جائے گا،(حٰمٓ السجدہ:34)‘‘۔
رسول اللہ ﷺ کی ذاتِ گرامی تو معصوم عن الخطاتھی، آپ کا قلبِ انور مَہبَطِ وحیِ ربانی تھا،اس کے باوجود آپ دنیاوی معاملات میں صحابۂ کرام کو اپنی ترجیح پر عمل کرنے کی آزادی دیتے تھے،بشرطیکہ وہ عمل شریعت کے خلاف نہ ہو۔
حضرت مُغیث حضرت بریرہ کے شوہر تھے، وہ اپنی بیوی سے بے حد محبت کرتے تھے ،حضرت بریرہ کو خیارِ عتق کی بناپر شوہر سے علیحدگی کا اختیار ملا تو انہوں نے علیحدگی کو ترجیح دی۔ حضرت مُغیث اُن کے فراق میں روئے جا رہے تھے اور اُن کی داڑھی آنسوئوں سے تر تھی۔ نبی ﷺ نے اس پر حیرت کا اظہار فرمایا اور بریرہ سے فرمایا:اگر شوہر کی طرف رجوع کرلو (تو اچھی بات ہے ) انہوں نے عرض کی: یارسول اللہ! اگر یہ آپ کا حکم ہے؟(توسرِتسلیم خم ہے)، نبی ﷺ نے فرمایا: میں سفارش کرتا ہوں، بریرہ نے عرض کی: مجھے ان کی طرف رجوع کی کوئی حاجت نہیں ہے ،(صحیح البخاری: 5283)‘‘۔ذرا سوچیے! جن کی سفارش رب العالمین بھی رد نہیں فرماتا، اُن کی سفارش کو حضرت بریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے قبول نہ کیا تو آپ نے ناراضی کا اظہار نہیں فرمایا، پس اس میں مشورہ دینے والے کے لیے سبق ہے کہ اگراس کے مشورے پر عمل نہ ہو تو اسے اپنی اَنا کا مسئلہ نہ بنائے اور خیر کی بات کرتا رہے، قرآن کا حکم یہی ہے: ''اور جو اچھی سفارش کرے گا اس کے لیے (بھی) اس میں سے حصہ ہے،(النسائ:85)‘‘۔