تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     08-01-2017

کمانڈر انچیف جنرل راحیل شریف

آدم زاد کے مقدر میں امتحان لکھا گیا اور کشمکش لکھی گئی۔ کشتی کو طوفان سے مفر نہیں۔ ساحل سے مگر وہی ہمکنار ہوتے ہیں‘ حواس جو سلامت رکھیں۔ عقل سلیم‘ نفیِ ذات اور خلوص کے ساتھ۔ سفینے ورنہ ڈوب جایا کرتے ہیں‘ جنابِ وزیر اعظم‘ جناب کمانڈر انچیف جنرل راحیل شریف!
جنر ل راحیل شریف کی طرف سے اسلامی اتحادی فوج کی سربراہی سنبھالنے کا فیصلہ ابھی چند روز قبل ہوا۔ قابلِ اعتماد لوگوں کا کہنا ہے کہ جنرل کو توسیع دینے پر غور کیا گیا۔ یہ وہی لوگ ہیں‘ 14 اگست 2014ء کو جنہوں نے ازراہِ کرم ہسپتال کے بستر پر مجھے مطلع کر دیا تھا کہ سپہ سالار دھرنے کی منصوبہ بندی کا حصّہ ہرگز نہیں۔
نہ صرف یہ بلکہ ایک جنرل سے وزیر اعظم نے کہہ دیا تھا کہ ایک سالہ توسیع کا فیصلہ اگر ہو گیا تو اگلے سپہ سالار وہ ہوں گے۔ معلوم نہیں اتفاق رائے کیوں نہ ہو سکا مگر یہ واضح ہے کہ سعودی عرب کی پیشکش قبول کرنے کا فیصلہ‘ وزیر اعظم کی رضامندی سے ہوا۔ بظاہر فوجی قیادت کو اس پر کوئی اعتراض نہیں؛ اگرچہ یہ کہنا مشکل ہے کہ کیا وہ تائید میں پُرجوش رہ سکے گی؟ انحصار‘ ایک قابل قبول نظام اور فریم ورک کی تشکیل پہ ہے۔ فیصلہ سعودیوں اور ان کے حلیفوں کو کرنا ہے۔ پاکستان نے ترکی اور مصر سے بات کی ہے۔ ظاہر ہے کہ سعودیوں نے عالم عرب میں اپنے دوسرے حلیفوں سے۔
سوالات بہت ہیں۔ سب سے پہلا یہ کہ ایران کا طرزِعمل کیا ہو گا‘ جس کا رد عمل ابھی سامنے نہیں آیا۔ بعض چیزوں پر ایرانی غالباً غور و فکر میں ہیں۔ ان کے لیے اوّلین سوال شاید یہ ہو گا کہ کیا متحدہ افواج کی تشکیل کا مقصد‘ صرف سعودی عرب کا دفاع اور دہشت گردی سے نمٹنا ہے یا اس سے کچھ زیادہ۔ اس ''زیادہ‘‘ کا مسئلہ بہت پیچیدہ ہے۔ بحرین اور شام و عراق سے لے کر یمن تک اس کے مضمرات ہیں۔ ایرانیوں کو بتا دیا گیا ہے کہ عربوں سے مراسم کی نوعیت‘ ان کی قیمت پر طے نہ ہو گی۔ پاکستان‘ ایران کے خلاف فریق نہ بنے گا۔ رسوخ کے اپنے دائرے کو پھیلانے پر تُلے‘ تنہائی پسند اور قومی افتخار کو غیر معمولی اہمیت دینے والے ایرانی‘ آسانی سے ان وعدوں پہ اعتبار نہ کریں گے۔
یہ تنی ہوئی رسّی پر چلنے کا کھیل ہے۔ کیا جنرل راحیل شریف اور حکومت پاکستان اس کی اہل ہے؟ جنرل ایک متحرک آدمی ہے اور مقبول بھی۔ مگر قریب سے جاننے والے انہیں دمکتی ذہانت کا حکمت کار نہیں سمجھتے۔ پاکستانی فوج کے ایک سبکدوش افسر نے جو اپنی ذکاوت اور راست گوئی کے لیے معروف رہے ہیں‘ جو کچھ مجھ سے کہا اس کا خلاصہ یہ ہے: مجھے نہیں لگتا کہ مشکل مراحل آسانی سے طے کئے جا سکیں۔
وفاقی حکومت اور دوسروں کا کہنا یہ ہے کہ پاکستان کے لیے یہی بہترین امکانی راہ تھی۔ سعودی عرب سے پاکستان کے مراسم گہرے ہیں۔ امریکہ‘ سعودی عرب سے بہت دور جا چکا‘ جس پر وہ انحصار کرتا آیا ہے۔ امریکہ نے سعودی عرب کو بلیک میل کرنے کا راستہ چنا۔ پندرہ برس بعد نائن الیون میں سعودی باشندوں کے ملوث ہونے کو اچھالا اور کانگرس نے اس قانون کی منظوری دی‘ سعودیوں کے لیے جو حیرت اور صدمہ لے کر آیا۔ بڑھتے بڑھتے معاملے کی نوعیت یہ ہو گئی کہ انکل سام اب مسئلے کا حصّہ ہے۔ حالات اسی رُخ پر بہتے رہے تو امریکی افواج سعودی عرب سے رخصت ہو سکتی ہیں۔ اس خلا کو کون پُر کرے گا؟
سعودی عرب کے داخلی مسائل پیچیدہ ہیں۔ دہشت گردی اور فرقہ واریت اگرچہ کچھ کم ہوئی‘ مگر دشمن پلٹ کر حملہ کر سکتا ہے۔ شاہی خاندان میں اختلافات ہیں اور افواج ناکردہ کار۔ اسلحہ کے ڈھیر پڑے ہیں‘ بعض دوسرے عرب ممالک میں بھی مگر وہ اچھی حالت میں نہیں۔ اس کا انتخاب سوچ سمجھ کر نہیں کیا گیا۔ اسلحہ کو موزوں حالت میں رکھنے کے لیے دیکھ بھال‘ نگرانی اور مرمت کا نظام وضع کرنا ہوتا ہے۔ ایک عشرہ قبل‘ ایک عرب ملک کا دورہ کرنے والے‘ ایک ممتاز پاکستانی جنرل نے مجھے بتایا: وسیع و عریض گوداموں میں پرندوں نے گھونسلے بنا رکھے تھے۔ چمگاڈروں کے ڈیرے تھے۔ ٹیکنالوجی کے جدید ہتھیاروں کو برتنے کی استعداد بھی انہوں نے پیدا نہیں کی۔ بیچارے!
مصری فوج داخلی معاملات میں الجھی ہے۔ ترکوں کے ساتھ سرد مہری ہے۔ بحرین بھی ایک مسئلہ ہے‘ شام کا بحران سنگین ہے۔ مسلمان ممالک کی قیادتوں کو یقین ہے کہ داعش کی تخلیق امریکی پشت پناہی سے ہوئی۔
پاکستان کا دردِ سر یہ ہے کہ امریکہ سے سعودی عرب کی ناراضی اور مایوسی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے خلا میں اگر اپنا کردار وہ ادا نہیں کرتا تو دوسرے ملک آگے بڑھیں گے۔ پاکستان کے لیے‘ جس سے مشکلات بڑھیں گی۔
مشکل ترین سوالوں میں سے ایک یہ ہے کہ تمام تر خیر خواہی کے باوجود ایک غیر عرب‘ اس ایک مربوط عرب فوج کو منظم کرنے میں کیسے کامیاب ہو گا جو خود پختہ عزم سے محروم رہے۔ غیر متوقع افتاد میں کیا اب وہ تیزی سے کام کر سکیں گے؟ تجویز کردہ اپنے سربراہ کی زبان وہ نہیں سمجھتے۔ مزاج میں افتخار ہے اور مکمل اختیار سونپنے کے وہ قائل نہیں۔ سی آئی اے کے ڈائریکٹر مارک اینڈرسن سے‘ سعودی انٹیلی جنس کے سربراہ ترکی الفیصل نے کہا تھا: ''ہم اقدامات (oprations) نہیں کرتے۔ ہم جانتے نہیں۔ ہم صرف چیک لکھنا جانتے ہیں‘‘۔
پوری طرح قابل انحصار‘ ایک نظام کار کے بغیر‘ جس کی جزئیات واضح ہوں‘ اور ترجیحات بھی‘ یہ مرحلہ سر کیسے ہو گا؟ حکومت پاکستان کو اگر ملوث رہنا ہے۔ پاکستانی جنرل کو اگر قیادت کرنی ہے تو ترجیحات اور لائحہ عمل کیا فقط وزیر اعظم پہ چھوڑا جا سکتا ہے؟ جی نہیں! ایک اہل اور مستعد ادارہ مطلوب ہو گا‘ اپنے دائرہ کار میں جو بااختیار ہو۔ پارلیمان کیا‘ کابینہ سے بھی بات نہیں کی گئی۔ وزیر دفاع نے فرمایا کہ وہ بھی تفصیلات سے واقف نہیں۔ سبحان اللہ!
حجازِ مقدس کو خطرہ لاحق ہو تو پاکستان اس کا دفاع کرے گا۔ یہ حکومت اور افواج نہیں‘ پاکستانی قوم کا پیمان ہے‘ جو دلوں اور دماغوں پہ رقم ہے‘ پتھر پہ لکیر۔ اس کے لیے وہ ایک یا ایک سے زیادہ ڈویژن فوج مختص کر سکتا ہے‘ جیسے جنرل محمد ضیاء الحق کے عہد میں۔ نئے اور پرانے افسروں اور جوانوں پر مشتمل دستوں کی تشکیل و تربیت۔ باقی ہر چیز دھند کے پردے میں ہے۔ 
دفاعی معاملات میں ہر چیز الم نشرح نہیں کی جاتی۔ اب پاکستانی قوم کا مزاج مگر یہ نہیں کہ وہ تاریکی میں کئے گئے فیصلے قبول کر لے۔ تنہا وزیر اعظم نہیں کر سکتے۔ بحث شروع ہو چکی۔ جلد انہیں اندازہ ہو گا کہ وہ نہیں کر سکتے۔ اپوزیشن لیڈروں سمیت‘ رائے عامہ پر اثر انداز ہونے والوں اور فیصلے کا بوجھ اٹھانے والوں سے بات کرنا ہو گی۔ اسلامی سربراہی کانفرنس تلے‘ متفقہ فیصلہ اگر ہوتا تو کوئی مسئلہ ہی نہ تھا۔ اب ایران‘ عراق‘ شام اور یمن اس سے باہر ہیں۔ کوئی تھنک ٹینک نہیں‘ کوئی مشاورت نہیں‘ پالیسی اور قانونی طریق کار بھی واضح نہیں۔ معلوم ہی نہیں کہ حکومت اور فوج نے جنرل کو اجازت کیسے مرحمت کی۔
عربوں کا علانیہ اتفاق رائے درکار ہے۔ مجوّزہ فوج کی ترجیحات اور دائرہ کار واضح کرنا ہو گا۔ بتانا ہو گا کہ پاکستان کا کردار کیا ہو گا۔ قوم کو آگاہ کرنا ہو گا۔ ایران کے بنیادی تحفظات دور کرنا ہوں گے۔ چینیوں نے پاکستان کو بتایا ہے کہ ایران سے مراسم بہتر بنائے جائیں۔ تجارتی راہداری کے ہنگام‘ وہ اور بھی فکرمند ہیں۔ کم از ایک مثبت اشارہ سامنے آیا ہے۔ ایران نے گوادر اور چاہ بہار کو جڑواں بندرگاہیں بنانے کی بات کی ہے۔
آدم زاد کے مقدر میں امتحان لکھا گیا اور کشمکش لکھی گئی۔ کشتی کو طوفان سے مفر نہیں۔ ساحل سے مگر وہی ہمکنار ہوتے ہیں‘ حواس جو سلامت رکھیں۔ عقل سلیم‘ نفیِ ذات اور خلوص کے ساتھ ۔ سفینے ورنہ ڈوب جایا کرتے ہیں‘ جنابِ وزیر اعظم‘ جناب کمانڈر انچیف جنرل راحیل شریف!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved