تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر تاریخ اشاعت     08-01-2017

دعویٰ اورعمل

انسانوں کا ہر دور میں یہ المیہ رہا ہے کہ وہ اپنے مذہب، قوم، ملک و ملت اور گھرانے کی خدمت اور محبت کے حوالے سے بلند بانگ دعوے کرتے ہیں‘ لیکن جب ان دعووں کا عملی ثبوت دینے کا وقت آتا ہے تو اکثریت دعووں پر عمل کرنے سے قاصر ہو جاتی ہے۔ انسان بنیادی طور پر تساہل پسند، لالچی اور دباؤ کا شکار ہونے والی مخلوق ہے اور انسان کی اکثریت کے دعوے بالعموم حقیقت سے مطابقت نہیں رکھتے۔ مسلمان معاشروں میں بسنے والوں کی اکثریت اپنے آپ کو اللہ اور اس کے رسولﷺ کا محب قرار دیتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ جب اللہ تبارک و تعالیٰ کے کلام اور رسول اللہﷺ کی سنت مطہرہ پر عمل کرنے کا وقت آتا ہے‘ تو لوگوں کی اکثریت اس حوالے سے اپنی کارکردگی کو ثابت نہیںکر پاتی۔ 
مسلمانوں کی بڑی تعداد حیی علی الصلوٰۃ اور حیی علی الفلاح کی آواز سننے کے باوجود مسجد آنا تو درکنار اپنے گھروں اور دفاتر میں بھی نماز کو ادا کرنے میں سستی کا مظاہرہ کرتی ہے۔ ''اللہ اکبر‘‘ کہہ کر اللہ کو بڑا قرار دینا اور بات ہے‘ اور اللہ تبارک و تعالیٰ کے احکامات پر لبیک کہنا الگ بات۔ نماز کے ساتھ ساتھ یہ رویہ زکوٰۃ اور دیگر ارکانِ اسلام کے حوالے سے بھی بالکل واضح ہے۔ مسلمان سرمایہ داروں کی بڑی تعداد اپنے کاروبار کو فروغ دینے کے لیے بینکوں سے قرضہ لینے اور غلط بیانی سے کام لینے پر بہت جلد آمادہ و تیار ہو جاتی ہے‘ لیکن سال کے سال اللہ تبارک و تعالیٰ کا حق ادا کرنے کی باری آتی ہے تو یہ سرمایہ دار کوتاہی اور سستی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ زکوٰۃ جہاں اُخروی فلاح کا ذریعہ ہے‘ وہیں قرآن مجید کی آیات سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ انسان کا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے نتیجے میں اللہ تبارک و تعالیٰ انسان کے مال میں اضافہ فرماتے ہیں۔ اس کے باوجود سرمایہ داروں کی اکثریت اللہ تبارک و تعالیٰ کے اس حکم اور حق کو پورا کرنے پر آمادہ و تیار نہیں ہوتی۔ اپنے جسم کو صحت مند اور خوبصورت بنانے کے لیے تو انسانوں کی بڑی تعداد فاقہ کشی پر آمادہ و تیار ہو جاتی ہے لیکن رمضان کے فرضی روزے رکھنا اچھے خاصے صحت مند لوگوں کے لیے بھی مشکل ہو جاتے ہیں۔ کچھ یہی معاملہ پردہ داری کا بھی ہے۔ پردے اور حجاب کے حوالے سے اللہ اور اس کے رسولﷺ کے احکامات بالکل واضح ہیں۔ اس کے باوجود ہم اس بات کا مشاہدہ کرتے ہیں کہ مسلمانوں کی اکثریت اپنی بہو، بیٹیوں کو پردہ کروانے پر آمادہ نہیں ہوتی۔ قرآن مجید اور رسول اللہﷺ کے اس حکم کو صرف پڑھنے کی حد تک قبول کیا گیا ہے اور اس پر عمل بتدریج کم سے کم ہوتا جا رہا ہے۔ لہو و لعب، غیبت، جھوٹے الزامات، بدامنی، فساد اور دیگر بہت سی غیر اخلاقی باتوں کی قرآن و سنت میں بھرپور انداز میں مذمت کی گئی ہے‘ اس کے باوجود مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد دوسرے مسلمان بھائیوں کی غیبت سے باز نہیں آتی۔ ایک دوسرے کی توہین کرنا، گالی دینا اور ایک دوسرے کی کردار کشی کرنے جیسے قابل مذمت افعال مسلمان معاشروں میں عام ہیں۔
مسلمانوں کی بڑی تعداد وافر سرمایہ آ جانے کے بعد سیر و تفریح کے لیے بیرون ملک بھی جاتی ہے اور بھاری رقوم ہوٹلوں میں قیام اور کھانے پینے پر خرچ کر دی جاتی ہیں‘ لیکن حج اور عمرے کے سفروں کے لیے بوڑھے ہونے کا انتظار کیا جاتا ہے اور دیکھنے میں آیا ہے کہ کئی لوگ وسائل ہونے کے باوجود بھی ساری زندگی بیت اللہ الحرام کی زیارت کرنے سے محروم رہ جاتے ہیں۔ نبی کریمﷺ سے محبت کا دعویٰ تو کیا جاتا ہے لیکن آپﷺ کی سنتِ مطہرہ پر چلنے سے اعراض کیا جاتا ہے اور کئی مرتبہ آپﷺ کی سنت پر عمل کرنا تو ایک طرف رہا‘ اس کی مخالفت پر مبنی رویے کو بھی اختیار کر لیا جاتا ہے۔ سنتِ مطہرہ کو زندگی کے ہر شعبے میں اختیار کرنا تو بڑی بات ہے حلال و حرام جیسے بنیادی مسائل میں بھی حضرت رسولﷺ کے احکامات کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ 
مذہب کے ساتھ ساتھ کچھ یہی معاملہ ریاست کے ساتھ بھی ہے۔ ہم پاکستان سے محبت کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن اپنی ریاست کی تعمیر و ترقی کے لیے جو ذمہ داریاں ہم پر عائد ہوتی ہیں ان کو ادا کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔ ریاست کے قوانین کا احترام جس انداز میں کرنا چاہیے اس انداز میں لوگوں کی اکثریت اس کے قوانین کا احترام کرنے پر آمادہ و تیار نظر نہیں آتی۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد‘ جن کے پاس تھوڑا سا اختیار، تعلیم یا سرمایہ آجاتا ہے‘ چھوٹے موٹے قوانین کو حقارت کی نگاہ سے دیکھنا شروع ہو جاتی ہے۔ جوں جوں بڑا منصب، بڑا عہدہ اور اختیارات حاصل ہوتے جاتے ہیں‘ بڑے بڑے قوانین کو بھی پامال کر دیا جاتا ہے۔ 
قتل و غارت گری، لوگوں کے مال کو چھین لینا، ان کی آبرو اور عزت کے ساتھ کھیلنا کئی بااثر لوگوں کا شیوہ بن چکا ہے۔ پاکستان کے حکمران طبقے میں ہر دور میں ایسے لوگ موجود رہے ہیں‘ جنہوں نے قومی خزانے کی لوٹ کھسوٹ میں کسی قسم کی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ بعض لوگ معمولی مفادات کے لیے ملک سے غداری پر بھی آمادہ و تیار ہو جاتے ہیں‘ حالانکہ ریاست میں بسنے والے ہر شخص کی یہ ذمہ داری ہے کہ اس کے نظریے اور جغرافیے کا احترام کرے اور اس سے حاصل ہونے والی نعمتوں سے فیض یاب ہونے کے بعد اس کے ساتھ احسان شناسی والا رویہ اختیار کرے۔ ملکی املاک کو نقصان پہنچانا اور اپنی ذاتی مفادات کو ملکی مفادات پر ترجیح دینا کسی بھی اعتبار سے درست رویہ نہیں۔
ملک کی سلامتی، دفاع، تعمیر و ترقی اور خوشحالی کے لیے کوششیں کرنا ہر محب وطن شہری کی ذمہ داری ہے لیکن ''پاکستان زندہ باد‘‘ کے نعرے لگانے کے باوجود ایسے افعال کا ارتکاب کرنا جس سے ملک کی سلامتی، ترقی اور استحکام کو خطرہ ہو‘ کسی بھی طور پر مناسب نہیں۔ ہمارا یہ معاملہ اپنے مذہب اور ملک کے ساتھ ساتھ اپنے خاندان کے ساتھ بھی کچھ اسی نوعیت کا ہے۔ والدین ہمارے محسن ہیں۔ وہ ہماری تعلیم، تربیت، خواہشات 
کی تکمیل، کھانے پینے اور رہائش کے لیے اپنی دانست کے مطابق بھرپور کردار ادا کرتے ہیں۔ تعلیم کی منازل طے کرنے کے دوران والدین کی اخلاقی معاونت کے ساتھ ساتھ طلبا کو مالی معاونت بھی حاصل رہتی ہے لیکن عام طور پر دیکھنے میں آیا ہے کہ اپنے کیریئر کے مکمل ہو جانے کے بعد جب پیشہ ورانہ زندگی کا آغا ز کیا جاتا ہے تو انسانوں کی اکثریت والدین کی ناشکری کرتی ہے۔ ان کی کماحقہ خدمت کرنا تو بڑی دور کی بات‘ ان کی بنیادی ضروریات کا بھی خیال نہیں کیا جاتا۔ والدین کے کھانے، پوشاک اور ان کی ادویات کے بارے میں بھی سستی اور لاپروائی کا رویہ اپنایا جاتا ہے۔ وہ والدین جو زندگی کے طویل ماہ و سال بچوں کی ضروریات کو پورا کرنے میں لگے رہتے ہیں‘ ان کی چھوٹی چھوٹی ضروریات کو پورا کرتے ہوئے بھی درشتی اور سستی کا رویہ اپنایا جاتا ہے۔ ہمارا یہ معاملہ والدین کے ساتھ ساتھ رشتہ داروں اور ہمسایوں کے ساتھ بھی اسی قسم کا ہے۔ پیشہ ورانہ سطح پر ہم اپنے اداروں اور افسران سے وفاداری کے دعووں کے باوجود وقت آنے پر ان سے غیر ذمہ دارانہ رویہ اپناتے ہیں۔ اداروں کے اصول و ضوابط اور ان کے تقاضوں کو پورا کرنا ہر ماتحت اور ملازم کی ذمہ داری ہے لیکن بالعموم دیکھنے میں آتا ہے کہ ادارے کے مفادات پر ذاتی مفادات کو ترجیح دی جاتی ہے اور کئی مرتبہ بے قاعدگی اور ادارے کے وسائل کو لاپروائی کے ساتھ استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ادارے کے وسائل کا دیدہ و دانستہ ناجائز استعمال بھی کیا جاتا ہے۔ وقت کی پابندی کی بجائے اپنی من مانی کے ساتھ وقت کو گزارنے کی پالیسی کو اختیار کیا جاتا ہے۔ ہمارے ان دعووں اور عمل کے درمیان موجود تضاد کی وجہ سے ہم بطور امت، قوم اور فرد زوال پذیر ہو چکے ہیں۔ ہمارے اسلاف جب تک دین، ملت اور معاشر وں کے حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے رہے اور خاندان کے سربراہ کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے نبھاتے رہے اس وقت تک امت مسلمہ دنیا میں غالب رہی لیکن غیر ذمہ داری اور کھوکھلے دعووں کی وجہ سے ہم بتدریج زوال شکار ہوتے رہے۔ اسلام زندہ باد اور پاکستان زندہ باد کہنا آسان کام ہے لیکن اسلام اور پاکستان سے وابستگی اختیار کرتے ہوئے اپنی ذمہ داریاں ادا کرنا اصل کام ہے۔ جب ہم اپنے مذہب ملک اور خاندان کے حوالے سے بلند بانگ دعوے کرنے کی بجائے اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنا شروع کر دیں گے‘ تو ہم دوبارہ اپنا کھویا ہوا وقار اور عروج حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved