نئے سال کا پہلا ہفتہ گزر گیا۔ اب سردی نے کچھ رنگ جمایا ہے۔ موسم سرما کی بارشوں کا آغاز ہو چکا‘ ہوائیں یخ بستہ ہو چلیں۔ عرش صدیقی کی نظم دسمبر آگیا کی یہ دو لائنیں یاد آتی ہیں: اسے کہنا ہوائیں سرد ہیں/ اور زندگی کے کہرے دیواروں میں لرزاں ہیں!
دسمبر میں تعلیمی اداروں میں چھٹیاں ہو جاتی ہیں۔ یہ معمول بہت پُرانا ہے، اس وقت سے جب دسمبر بے حد سرد ہوا کرتا تھا۔ چھٹیاں ہو جایا کرتیں تاکہ بچے موسم کی شدت سے محفوظ رہ سکیں۔ مگر اب گلوبل وارمنگ کے اثرات ہیں کہ موسم کے نظام الاوقات بدل چکے ہیں۔ چھٹیاں اُسی روٹین سے دسمبر میں ہو رہی ہیں۔ پورا دسمبر معمولی سردی رہی‘ سورج چمکتا رہا اور بچے گھروں پر رہے۔ جیسے ہی جنوری میں سکول کھلے، موسم کے تیور بدل گئے۔ دھند‘ کہر‘ زمستانی ہوائیں اور بارش۔ ایسے موسم میں سکول جانے والے ننھے بچے بہت مشکل کا شکار ہوتے ہیں۔ علی الصبح گرم بِستروں سے نکل کر ٹھنڈ ہوا میں جانا بہت خطرناک ہوتا ہے۔ بیشتر بچے بیمار ہو رہے ہیں‘ سکولوں سے چھٹیاں معمول بن گئیں جبکہ سکولوں میں پڑھائی ہو رہی ہے۔ اس طرح پڑھائی کا بہت ہرج ہو رہا ہے۔ ارباب اختیار کو سوچنا چاہیے کہ سردیوں کی چھٹیاں دسمبر کی بجائے جنوری میں ہو جایا کریں تاکہ چھٹیوں کا مقصد پورا ہو۔ لکیر کا فقیر بنے رہنے کے بجائے نئے حالات کے مطابق مسائل کا حل سوچنا چاہیے۔
کل لودھراں میں ٹرین کا دلخراش حادثہ ہوا، اس کی ایک اہم وجہ جنوری کی دبیز اور گہری دھند تھی۔ رکشہ ڈرائیور کو 80کلو میٹر کی رفتار سے آتی ہزارہ ایکسپریس نظر نہ آئی۔ جنوبی پنجاب کے رہنے والے اتفاق کریں گے کہ اس موسم میں علی الصبح دھند کی موٹی چادر پوری فضا کو ایسے لپیٹ میں لے لیتی ہے کہ پاس پڑی چیز دکھائی نہیں دیتی۔ چھٹیاں ختم ہونے پر معصوم بچے شدید دھند میں سکول جا رہے تھے کہ اندوہناک حادثے کا شکار ہو گئے۔ ایک ہی بدقسمت خاندان کے چار ننھے بچے جان سے چلے گئے۔ ریلوے کے فرسودہ نظام پر تو خیر کیا بات کرنی، اسی فرسودگی کی وجہ سے آئے دن حادثات ہوتے ہیں۔ ریلوے کراسنب پر پھاٹک کا نہ ہونا کیا سنگین مجرمانہ غفلت نہیں؟ اب اس حادثے کے مضمرات اور وجوہات پر بات ہوتی رہے گی۔ وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے حادثے کی مکمل چھان بین کا حکم دے دیا ہے۔ وزیر ریلوے نے ذمہ داران کو معطل کر دیا اور کہا ہے کہ ذمّہ داروں کو ہرگز معاف نہیں کیا جائے گا۔ مرنے والوں اور زخمی بچوں کے لیے بالترتیب حکومت نے 15لاکھ اور 3لاکھ امداد کا اعلان کیا ہے۔ ہر حادثے کے بعد تمام خبریں ایسی ہی ہوتی ہیں۔ چند معطلیاں اور جانوں کی قیمت چند لاکھ روپے۔ پھر نہ کوئی خبر کا فالو اپ اور نہ ہی کسی کی اس پرانی خبر میں دلچسپی!
اخبار کی سرخیوں اور ٹی وی کے خبرنامے میں کسی اور مسئلے کی بازگشت ہو گی۔ کسی کو یاد بھی نہ رہے گا کہ لودھراں کی ایک یونین کونسل کے رہائشی آٹھ بچے سکول جاتے ہوئے تیز رفتار ٹرین کے نیچے آ کر مر گئے تھے۔ ہاں مگر یہ غم اُن گھروں میں کبھی پرانا نہیں ہو گا جن کے وہ بچے رونق تھے۔ اس ہولناک حادثے کی بازگشت اُس گھر کے غم آلود سناٹے میں ہمیشہ سنائی دے گی، جہاں کبھی اُن بچوں کی شرارت بھری ہنسی گونجا کرتی تھی۔ ستیہ پال آنند نے ایک نظم کہی جس کا مفہوم یہ ہے کہ کسی گھر میں بچے کی موت اُس گھر کا آخری واقعہ نہیں ہوتی۔ اس بچے کی موت کا غم ہر برس اس کی سالگرہ پر کچوکے لگائے گا‘ صحن میں کھڑی اس کی سائیکل رُلائے گی۔ یقیناً ہم اُن بدقسمت والدین کے غم کا اندازہ نہیں لگا سکتے جن کے گھر کی رونقیں اس حادثے نے ویران کر دیں۔ ان کے جگر کے ٹکڑے ٹرین کے نیچے آ کر کچلے گئے!اس ملک کے ''بڑے‘‘ بے حس‘ مفاد پرست اور کرپٹ ہیں۔ ان کی بدعنوانیوں کے اثرات اس ملک کے بچے سہہ رہے ہیں ؎
ہوا کے رُخ پر کوئی دریچہ نہیں بنایا
میرے بزرگوں نے سوچ کر گھر نہیں بنایا
اس گھر کی بنیادوں کو کرپشن اور ناانصافی نے کھوکھلا کر دیا ہے۔ یہ گھر اپنے بچوں کو تحفظ دینے میں ناکام ہو رہا ہے۔ طیبہ بھی تو اسی گھر کی‘ اسی ملک کی ایک مظلوم بچی ہے، جو آج صرف انصاف ہی نہیں اپنی شناخت کے لیے بھی سوال بنی ہوئی ہے۔ طیبہ کی اصلی ماں کون ہے؟ اس کا اصل نام کیا ہے؟ اُسے جہنم میں کس نے جھونکا؟ وہ اپنے اس بے شناخت وجود اور پتھرائے ہوئے چہرے کے ساتھ ٹی وی کی بریکنگ نیوز پر چھائی ہوئی ہے۔ اس کا چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار نے از خود نوٹس لیا ہے۔ انہوں نے خالص انسانی مسئلے پر توجہ دی ہے۔ اس سے پہلے طیبہ کی ذات کو یہ اہمیت نہ ملی تھی۔ وہ سارا دن مالکوں کی خدمت کر کے بھی ٹھڈے کھاتی تھی۔ سخت سردی میں ٹھنڈے فرش پر سوتی اور بے نام سی غلطیوں پر تھپڑوں کی بارش سہتی تھی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق پتھرائے ہوئے چہرے والی یہ بچی شہر میں اپنے باپ کا قرضہ اتارنے کے لیے گروی رکھوائی گئی تھی۔ اس کے وارثوں کو صرف پیسے سے غرض تھی، سو انہوںنے پلٹ کر بھی طیبہ کی خبر نہ لی۔ اور اب جو میڈیا‘ عدالتیں‘ انسانی حقوق کی تنظیمیں‘ وکلائ، انسانی حقوق کے علمبردار طیبہ کو انصاف دلانا چاہتے ہیں تو طیبہ اچانک کہیں غائب کر دی گئی۔ یہ ایک المیہ ہے کہ میرے ملک میں معاشرتی انصاف کی بنیادیں اتنی کھوکھلی ہیں کہ اگر کوئی اثر و رسوخ والا شخص سزا وار ہو تو پھر انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لیے جو اقدامات کرنے چاہیں اس کا بوجھ یہ معاشرہ برداشت نہیں کر سکتا۔ اس اثر رسوخ رکھنے والے مجرم کو بچانے کے لیے بہت سارے خفیہ ہاتھ مدد کو آتے ہیں۔ یہ خفیہ ہاتھ روپے پیسے کا دبائو ہو سکتا ہے یا پھر کسی عہدے اور سماجی مرتبے کا بھی۔ یوں انصاف ہاتھ ملتا رہ جاتا اور معاملہ داخلِ دفتر ہو جاتا ہے۔
آخری بات یہ ہے کہ اس وقت ہم صرف ایک طیبہ کا رونا رو رہے ہیں‘ اُس کی شناخت ڈھونڈنے کے لیے پریشان ہیں اور اسے انصاف دلانا چاہتے ہیں۔ مگر اپنے اردگرد دیکھیے‘ پتھرائے ہوئے چہرے والی بے شمار طیبائیں شہر کے متمول‘ معزز اور نام نہاد پڑھے لکھے گھرانوں میں روزانہ ظلم کی سولی پر چڑھتی ہیں۔ اگر آپ کو ایسی کوئی مظلوم طیبہ نظر آئے تو اس کے ساتھ بے حسی برتنے والوں کو شائستہ انداز میں اس ناانصافی کا احساس ضرور دلائیں۔ اگر آپ کا سوال یہ ہے کہ ہم یہ کیسے کر سکتے ہیں تو میں اپنا ایک واقعہ آپ کے ساتھ شیئر کرتی ہوں۔ دو تین سال پہلے ملتان کے ایک بڑے ریسٹورنٹ میں اپنی فیملی کے ساتھ کھانا کھانے گئی۔ ساتھ والی میز پر خوشحال گھرانے کے سات آٹھ افراد انواع و اقسام کے کھانے کھا رہے تھے۔ ان کی دو کم سن ملازمائیں ساتھ والی میز پر کرسی پر منہ بند کیے خاموشی سی انہیں کھانا کھاتے دیکھ رہی تھیں۔ غالباً انہوں نے اپنا بچا ہوا کھانا ان کو دینا ہو گا۔ مجھے یہ صورتحال انتہائی غیر انسانی لگی کہ دو غریب بچیاں یوں سب کو کھانا کھاتے دیکھتی رہی ہیں۔ جب ہم نے اپنے کھانے کا آرڈر دیا تو ساتھ ہی میں نے کہا کہ ہماری طرف سے ان دو بچوں کو بھی یہ کھانا سرو کر دیں! ویٹر نے دوسری میز کی طرف اشارہ کیا اور کہا، میڈیم ان کی ملازمائیں ہیں‘ ہم ایسا نہیں کر سکتے۔ میں نے کہا ٹھیک ہے‘ پھر ہم ایسی جگہ پر کھانا ہی نہیں کھا سکتے۔ یہ ساری گفتگو ان بے حس لوگوں نے بھی سن لی تھی اور اتنے میں ہوٹل کا منیجر بھی صورت حال دیکھ کر آ گیا۔ قصّہ مختر یہ کہ ان بچیوں کو فوراً کھانا سرو کر دیا گیا۔ یقین جانیے‘ سوال اٹھانے اور احساس دلانے کے لیے خالص انسانی ہمدردی اور ذرا سی جرأت درکار ہے۔
آج کا یہ کالم میرے وطن کے بچوں کے نام‘ جن کے لیے احمد مشتاق نے دعا مانگی تھی ؎
امن ملے تیرے بچوں کو انصاف ملے
دودھ ملے چاندی سا اُجلا پانی صاف ملے