تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     09-01-2017

انصاف حاضر ہو۔۔۔۔

ہم میں سے ہر شخص جانتا ہے کہ گھر سے نکل کر وہ دوسروں سے کیسا رویہ رکھے۔ ہیلو ہائے کہنا، چہرے پر مصنوعی مسکراہٹ لانا، آپ سے مل کر بہت خوشی ہوئی، پلیز وقت نکالیں اکٹھے کھانا کھاتے ہیں،کیا بہترین سوٹ ہے، آپ بہت فریش لگ رہے ہیں، اسی طرح کے جملے اور دلجوئی سے بھرپور تاثرات کے پیچھے چھپا چہرہ چھوٹی چھوٹی باتوں میں پکڑا جاتا ہے۔ بڑے سماجی رویے اور معاشرتی سلوک سے معلوم نہیں ہوسکتا کہ کس کی شخصیت میں خوش اخلاقی کے پیچھے کون سا خونخوار درندہ چھپ کربیٹھا ہے۔
پاکستانی سماج میں بے لگام طاقت نے ایک نیا طبقہ پیدا کردیا، جس کا انتہائی مناسب نام میڈیا نے ''مقدس گائے‘‘ رکھا ہے۔ اصل میں ہر مقدس گائے اندر سے نفسیاتی مریض ہوتی ہے؛ اگرچہ کالے سیاہ چہرے پر دولت نے مختلف رنگ کے غازے اور پردے لگا دیے۔ مگر اندر آدم خور جنگلی قبیلے کے دور کا اصلی روپ باقی ہے۔ طاقت کے ان کھلاڑیوں میں سے ایک طبقہ ایسا ہے کہ جس کا سامنا کرتے وقت بڑے سورمائوں کی مونچھیں ڈھیلی اور پتلونیںگیلی ہو جاتی ہیں۔ ان سورمائوں میں طرم خان افراد بھی شامل ہیں اور طاقت و جبروت رکھنے والے ادارے بھی۔
میری طرف مت دیکھیے کہ میں ان کا نام لوں۔ آپ بھی تو جانتے ہی ہیں کہ وہ کون سی ہستی ہے جس کی آمد کی خوشی میں سب اٹھ کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔کھلے گریبان کے بٹن بند کرنے پڑتے ہیں۔ دھیمی آواز میں بولنا پڑتا ہے۔ موبائل فون نشست گاہ سے بہت پہلے جمع کروانا پڑتا ہے۔
آئین کے تحت بننے والی پبلک اکائونٹس کمیٹی صرف ایک ادارے کو قومی خزانے سے ملنے والے بجٹ کا حساب تک نہیں پوچھ سکتی۔ یہاں پاکستان کے سارے اداروںکے ارکان اور سربراہوں سے زیادہ تنخواہیں ہیں، مراعات ہیں۔ بعد از ریٹائرمنٹ گھر ساتھ جانے والی گاڑیاں، بلکہ ملازم بھی۔ اور لاکھوں روپے ماہانہ پنشن اس کے سوا ہے۔ یہ سب کچھ قوم قانون و انصاف کے نام پہ فداکرتی چلی آئی ہے۔
انصاف آسمانی صفت ہے اور آفاقی ذمہ داری بھی۔ اُس سے زیادہ کرۂ ارض پہ خوش قسمت کوئی نہیں جو انصاف کی کرسی پر بیٹھ سکے۔ انصاف یا میزان کا تصور سمجھنے کے لیے سورہ رحمن کا ترجمہ ضرور ملاحظہ فرمائیں۔ مالک ارض وسما کا ارشاد ہے، یہ سیارے، چاند ستارے سب حسابِ مقرر سے چل رہے ہیں۔ حسابِ مقرر سے مراد حدود ہیں۔ فلکیات کے قانون میں حساب کو حد یا لیمیٹیشن اور تعزیراتی قوانین میں اس حد کو جیورسڈکشن(Jurisdiction) کہا جاتا ہے۔ جو قانون ہمارے ہاں زیر استعمال ہے اسے آپ اینگلوسیکسن، انگلش لیگل سسٹم، شرعی قوانین اورکامن لاء کا ڈھیلا ڈھالا مجموعہ کہہ سکتے ہیں۔
برطانیہ اس قانون کا سب سے بڑا ماخذ مانا جاتا ہے۔ یہاں قانون کی دنیا کا سب سے بڑا اعزاز بارکونسل آف انگلیڈ اینڈ ویلز کا ممبر ہونا ہے۔ اس ممبرکو بیرسٹرکا ٹائٹل ملتا ہے۔ بیرسٹری کی ساری تعلیم، اٹھنے، بیٹھنے، بولنے سمیت ETHICS یعنی قانون وانصاف کی اخلاقیات پرمشتمل ہے۔ اس تربیت کا سب سے بڑا حصہ اجتماعی ڈنر ہیں۔کافی سال پہلے مجھے ایک قانون نافذکرنے والے ادراے کے ایک بڑے ہال میں افسران سے اوپن ڈائیلاگ نما خطاب کرنے اوراس کے بعد سوالوں کے جواب دینے کاموقع ملا۔ توانائی سے بھرپور تراشے ہوئے اجسام والے نوجوان آنکھوں میں سنہرے خواب سجائے بے لاگ سوال کرتے رہے۔ وقفہ سوالات کے لیے طے شدہ ٹائم بڑھ کر دگنا ہوگیا۔ میزبان ادارے کے سربراہ نے بڑی تہذیب کے ساتھ میرے سامنے ایک ٹائپ شدہ چِٹ رکھی جس میں مجھ سے درخواست کی گئی، میں شرکاء کو بتائوں کہ اب آخری سوال ہوگا۔ میں نے اسی چٹ کی پچھلی طرف اپنا جواب لکھ کر پرچی واپس موصوف کی طرف سرکادی۔ پرچی پر یہ تحریر درج کی: ''میں مہمان ہوں اورآپ سب میرے میزبان، اس لیے یہ اہل خانہ کے شایانِ شان ہی ہوگا کہ وہ مجھے بولنے سے روک دیں۔ میرا یہ کہنا کہ مجھ سے میرے ملک کے نوجوان مزید سوال نہ پوچھیں بالکل مناسب نہیںہوگا‘‘۔
بہرحال، حاضرین کی طرف سے سوالات کے آخر میں اُن سے اجازت طلب کی کہ اگر آپ کی اجازت ہو تو میں ایک سوال آپ خواتین و حضرات سے بھی پوچھ لوں؟ عرض کیا،کیا آپ میں سے کوئی ایسا افسر اپنا ہاتھ کھڑاکرسکتاہے جس کو کبھی کسی سے رحم مانگنے کی ضرورت نہ پیش آئی ہو؟ حال میں سناٹا تھا۔ ایک د ولوگوں نے ہاتھ کھڑے کیے مگر وہ سوال کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ سوال پھر دُہرا دیں۔ میں نے سوال دُہرا دیا۔ ساتھ ہی کہا چند دن بعد آپ کے کاندھے پر ایسے ستارے لگنے والے ہیں جن کے چمک جانے کے بعد جب تک آپ ڈیوٹی پر ہوں گے طرح طرح کے لوگ آپ سے رحم کی بھیک مانگیںگے۔کچھ کمزور،کچھ بے بس،کچھ حالات کے مارے ہوئے، کچھ اپنوں کے ستائے ہوئے اور کچھ اس فرسودہ نظام کے قتیل۔ میری آپ سب سے درخواست ہے، جب بھی کوئی رحم مانگنے والا آ جائے تو اللہ تعالیٰ کا یہ حکم یاد رکھیں کہ سوالی کو مت جھڑکنا۔
ہمارے معاشرتی فیبرک کی ایک اور بات بھی قابل توجہ ہے۔ یہاں ہر شخص اپنے لیے (FAVOUR) مانگتا ہے۔ اپنی باری آئے تو رعایت کاطلب گار ہے مگر دوسروں پر ہاتھ''ہولا‘‘ رکھنے کے لیے تیار نہیں۔ کچھ دن پہلے وفاقی دارالحکومت کی ایک یونیورسٹی میں گیا۔ مستقبل کے معماروں نے دلچسپ سوال کیا: غصہ کنٹرول کرنے کاطریقہ کیا ہے؟ میں نے سوال کو قہقہے میں اُڑا دیا۔ پھر حاضرین سے مخاطب ہوکرکہا، کون ساغصہ بھائی؟ کیا آپ نے کبھی کسی ہیڈ کانسٹیبل کو ڈی ایس پی سرکل پر غصہ کرتے دیکھا۔ بچوں کوڈنڈے سے پٹائی لگانے والے ماسٹرصاحب کو ڈسڑکٹ ایجوکیشن آفیسر پرکبھی غصہ آیا۔ کوئی یو سی ناظم وزیراعظم پر غصہ کر سکتا ہے۔ ہمارا سارا غصہ نیچے کی طرف اترتا ہے۔ اپنے سے کمزور، ماتحت۔۔۔ ایک طرح سے محکوم یا مجبور لوگوں پر غصہ آتا ہے۔ اپنے سے بڑا آدمی یا طاقتور سامنے آ جائے تو بڑے بڑے غصے والے سرجی، جناب، حضور، سرکار، محترم جیسے القابات تو یاد رکھتے ہیں لیکن ان کا غصہ فوراً ہوا ہو جاتا ہے۔ توپھر کہاں کاغصہ! میں نے وکالتی زندگی میں بڑی عدالتوں کے سامنے جابر مجسٹریٹ اور تگڑے سول جج جھاڑکھاتے ہوئے دیکھے ہیں۔ لیکن انہیں غصہ کرتے کبھی نہیں دیکھا۔
خواتین و حضرات! ہر صاحب اولادکی طرح میں بھی دکھی ہوں۔ ٹی وی سکرینوں پر طیبہ کے جلے ہوئے ہاتھ دیکھے نہیں جاتے۔ 10سالہ بچی کا پھول ساچہرہ پتا نہیں کس ہتھیار سے مسخ کیا گیا۔ اب تو پورا نظام اس شک میں پڑ گیا ہے کہ اس بے آسرا کا اصلی نام کیا ہے، بلکہ اس کو جنم دینے والی کوکھ جلی ماں کون سی ہے۔ یا وہ بدبخت کون ہے جواسے کرۂ ارضی میں لانے کا باعث بنا۔ یہ بچی کہاں سے اغواہوئی تھی؟ کیا اغوا کار اپنے تھے یا پرائے تھے۔ خون سفید ہوا یا پھر بنت حوا کے ساتھ مصرکے بازار کی کہانی دہرائی گئی۔ یہ ننھی جان ایک یتیم خانہ کے ذریعے دوسال پہلے اسلام آباد میں انصاف کے مندر میں کون داسی سمجھ کر بلی چڑھا گیا۔ جب سے چیف جسٹس آف پاکستان جناب ثاقب نثارصاحب، جہانگیر ترین اور ڈاکٹر طاہر القادری نے طیبہ کو بیٹی کہا اور اس کے اخراجات اٹھانے کا عندیہ دیا، تب سے ابھی تک 3 عدد جوڑے طیبہ کے بیٹی ہونے دعویدار بن چکے ہیں۔
اوپر میں نے انصاف کو صفت کہا ہے۔ جس منصف کے گھر کی چھت کے نیچے مظلوموں کے ساتھ اس طرح کا انصاف ہوتا ہو، جیسے طیبہ کے ساتھ ہوا، اللہ تعالیٰ ہتھکڑیوں میں بندھے، بیڑیوں میں جکڑے اورمسائل کے مارے ہوئے پاکستانیوں کو شیطان سمیت ایسے انصاف سے پناہ دے۔ منصٖٖف کی پرائیویٹ لائف والا یہ انصاف جیسے طیبہ کو ملا۔ ہمارا وزیر اعظم بھارتی اداکارکی بے وقت مِرتی پر دکھی ہے۔کابینہ ریلوے ٹریک کی بجائے پاناما لیکس کے طوفان کے آگے پھاٹک لگانے میں مصروف ہے۔ پارلیمنٹ ایک دوسرے کی بری حکمرانی اورکرپشن کو تحفظ دینے کے ذریعے جمہوریت بچا رہی ہے۔ ایسے میں عوام الناس بنام پاکستان 10سالہ بچی طیبہ پر ظلم کی داستان کا استغاثہ پکار پکار کر کہہ رہا ہے۔ انصاف حاضر ہو۔۔۔انصاف حاضر ہو۔۔۔حاضر ہو۔۔۔
ترس گئے ہیں نواہان دل کشا کے لیے 
پکار وادیِ خاموش سے خدا کے لیے 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved