سوویت یونین کے خاتمے نے اس کرۂ ارض پر جو سب سے بڑی تبدیلی کی‘ وہ یہ تھی کہ امریکہ بہادر کے دل میں پوری دنیا کو کنٹرول کرنے کی دبی دبی خواہش تو موجود تھی ہی اور جس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ سوویت یونین تھا‘ وہ خواہش کُھل کر سامنے آ گئی۔ نوے کے عشرے میں پہلے واحد سپر پاور کے نعرے بلند ہوئے اور پھر ہم نے نیو ورلڈ آرڈر کی باتیں سنیں۔ امریکہ سے باہر لوگ نیو ورلڈ آرڈر کا مطلب سمجھے کہ دنیا میں نظم و نسق کے کسی نئے نظام کی بات ہے مگر اصل حقیقت یہ تھی کہ امریکی اپنے ملک یعنی امریکہ کو نیو ورلڈ بھی کہتے ہیں۔ اُن کا اشارہ کولمبس کی دریافت کردہ نئی دنیا امریکہ کی طرف ہوتا ہے۔ اُن کے نزدیک نیو ورلڈ آرڈر کا مطلب تھا پوری دنیا میں امریکہ کی حکومت۔ دیگر ملک بھلے نیو ورلڈ آرڈر کا مطلب کچھ بھی نکالتے ہوں مگر امریکہ میں مستقبل کی پالیسیاں بنانے والے نیو ورلڈ آرڈر کا مطلب امریکی آرڈر ہی سمجھتے رہے۔
اور پھر 11 ستمبر 2001ء والا واقعہ ہو گیا۔ اس واقعے سے متعلق شبہات کا اظہار ہوا کہ یہ تنہا القاعدہ والوں کا کارنامہ نہیں تھا، بلکہ اس میں کچھ اندرونی ہاتھ بھی ملوث تھے تو اِن شبہات کا سبب بھی وہ امریکی مائنڈ سیٹ تھا جو سوویت یونین ٹوٹنے کے بعد کُھل کر سامنے آ چکا تھا۔ یعنی امریکہ میں neo conservative پہلے ہی پوری دنیا پر ٹوٹ پڑنے کو تیار بیٹھے تھے اور عراق پر حملے کی منصوبہ بندی تو نائن الیون سے پہلے ہی ہو چکی تھی۔
نائن الیون کے بارے میں اسی وجہ سے بہت سی سازشی تھیوریاں(Conspiracy Theories) منظر عام پر آئیں اور اُس دور کے امریکی Mindset کی وجہ سے ان کو پذیرائی بھی بہت ملی۔ اِن باتوں سے قطع نظر یہ حقیقت ہے کہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے دونوں ٹاورز گرنے سے ایک موقع پیدا ہو گیا کہ امریکہ آگے بڑھے اور پوری دنیا پر اپنا ورلڈ آرڈر نافذ کر دے۔
منصوبہ بندی کے مطابق سب سے پہلے عراق کو فتح کرنا تھا مگر نائن الیون کی وجہ سے افغانستان کے خلاف کارروائی پہلے کرنا ایک مجبوری تھی۔ لہٰذا افغانستان پر جلدی جلدی ایک قیامت برپا کر دی گئی۔ ہماری حکومت نے بھی اس قیامت خیزی میں حصہ ڈالا۔ جب صدر بش اور اُن کے ساتھیوں نے یہ محسوس کیا کہ اب عام امریکیوں کا غصہ کچھ ٹھنڈا ہو گیا ہے تو عراق پر چڑھائی کا فیصلہ کر لیا۔
افغانستان پر کارروائی کی اجازت تو اُن مخصوص حالات میں اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل سے مل گئی تھی مگر عراق پر حملہ سوائے بش انتظامیہ کے کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ امریکہ کا اتحادی فرانس تو عراق پر فوج کشی کا اس قدر مخالف ہوا کہ اس نے اقوام متحدہ میں قرارداد منظور نہ ہونے دی مگر جن کے من میں دنیا پر حکومت کا بھوت سوار تھا، انہوں نے کسی کی ایک نہ سنی اور بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کا ذخیرہ رکھنے کا صدام حکومت پر الزام عائد کر کے اور جھوٹی رپوٹوں کو منظر عام پر لا کر عراق پر حملہ کر دیا۔ اس کے بعد لیبیا میں بھی بلاجواز تباہی مچی۔
دنیا پر اپنی طاقت کا سکہ بٹھانے کی یہ تینوں بڑی کوششیں جس بری طرح ناکام ہوئیں اس سے سب واقف ہیں۔ جس بات سے سب واقف نہیں ہیں وہ یہ ہے کہ اتنی واضح ناکامیوں کے بعد بھی امریکیوں نے دنیا کو قابو کرنے کی اپنی خواہش کو ترک نہیں کیا۔ جی ہاں! یہ دیکھ کر امریکی عوام اب اپنی افواج غیر ممالک میں بھیجنے کے خلاف ہو چکے ہیں اور فوج کا نقصان بھی بہت ہو چکا ہے اس لیے نصب العین تو وہی رہا مگر حکمت عملی تبدیل کر دی گئی۔ اب حکمت عملی یہ نہیں ہے کہ براہ راست اپنی فوج بھیج کر تباہی پھیلائی جائے کیونکہ ایسا کرنا بوجوہ ممکن نہیں رہا، لہذا اب لگتا ہے کہ ممالک کو جنگ اور امن کی درمیانی کیفیت میں مسلسل رکھ کر اپنا مقصد حاصل کرنا نصب العین بن چکا ہے۔
اس نصب العین کے لیے سب سے بڑا ہتھیار امریکہ کی Special Operation Forces ہیں جو امریکہ کی سپیشل آپریشنز کمانڈ (SOCOM) کے تحت مصروف عمل ہیں۔ تقریباً ساری دنیا میں ہی مصروف عمل ۔ داعش کو رہنے دیں وہ کوئی خفیہ منصوبہ ہے۔ کمانڈوز تو سب کے سامنے ہیں۔ آسان زبان میں آپ سمجھ لیں کہ یہ امریکی فورسز کے کمانڈوز ہیں جو دنیا کے بیشتر حصوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔
بارک اوباما نے 2009ء جنوری میں امریکی صدر کے عہدے کا حلف اٹھایا تھا۔ موصوف کی تقریروں سے اتنا اثر لیا گیا کہ اُن کو امن کا نوبل انعام دے دیا گیا۔ لیکن حقائق بتاتے ہیں کہ اوباما کے دور میں سپیشل آپریشنز فورسز کی تعیناتی میں دوگنا اضافہ ہوا۔ صدر بش کے دور میں یہ امریکی کمانڈوز دنیا کے 60 ملکوں میں تعینات تھے جبکہ اوباما کے آٹھ برسوں میں یہ 130 سے زیادہ ملکوں میں تعینات ہو چکے ہیں۔ بش دور میں ان فورسز کی تعداد 56000 تھی جو اوباما کے دور میں بڑھ کر 70,000 ہو گئی اور (SOCOM) کا بجٹ بھی نو ارب ڈالر سے بڑھ کر گیارہ ارب ڈالر ہو چکا ہے۔ دیگر ملکوں میں
یہ فورسز Joint Combined Exchange Training کے زیادہ تر مشن مکمل کرتی ہیں۔ پھر دہشت گردی کے خلاف لڑنا بھی ان کا کام ہے۔ اب دہشت گردی سے تو سب کچھ جوڑا جا چکا ہے۔ دہشت گردی ختم کرنے کے نام پر جو مرضی کرتے پھریں۔ ان امریکی فورسز کے مقاصد تو امریکی نقطہ نگاہ سے پوری دنیا کو مثبت نظر آتے ہیں۔ لیکن اس طرح دنیا کے 130 سے زیادہ ملکوں میں اپنی سپیشل آپریشنز فورسز کو رکھنا اور اس کا خرچہ اٹھانا اس سے لامحالہ یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ دنیا پر طاقت سے چھا جانے کی جو خواہش سوویت یونین کے انہدام کے بعد امریکہ میں پیدا ہوئی تھی وہ اب بھی اپنی جگہ موجود ہے۔ اس خواہش نے اقتصادی طور پر امریکہ کو بہت نقصان پہنچایا ہے اور فوجیوں کی ہزاروں کی تعداد میں اموات بھی ہوئی ہیں اور مرنے والوں سے کئی گنا زیادہ فوجی اپاہج اور نفسیاتی مریض بن چکے ہیں لیکن یہ کم بخت خواہش امریکہ کا پیچھا نہیں چھوڑتی۔
اب نئے امریکی صدر آئے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ اسی ماہ اپنے عہدے کا حلف اٹھا رہے ہیں۔ موصوف یہ کہہ چکے ہیں کہ امریکی فوج مجموعی طور پر کمی کا شکار ہے اور انہوں نے فوج اور میرینز (Marines) کا سائز بڑھانے کی بات کی ہے۔
جب سپیشل آپریشنز فورسز پر ڈونلڈ ٹرمپ کی توجہ ہو گی تو آپ خود اندازہ کر سکتے ہیں کہ ان کی تعداد اور دنیا بھر میں تعیناتی میں اضافہ ہی ہو گا۔ کوئی نہیں جانتا کہ امریکہ کا نیو ورلڈ آرڈر کا خواب کب ختم ہو گا۔