تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     10-01-2017

اوم پوری کا انجام

نامور بھارتی اداکار اوم پوری کی دردناک موت کی کہانی پڑھ کر اندازہ ہوا کہ پاکستان اور بھارت کے انتہاپسند‘ دونوں ایک دوسرے کو ملیامیٹ کر نے پر تلے ہوئے ہیں۔ ہم جو چھوٹی چھوٹی خبریں‘ دونوں طرف کے میڈیا پر سنتے اور دیکھتے آ رہے ہیں‘ ان میں اس نفرت کی شدت اور گہرائی کی جھلک تک دکھائی نہیں دیتی جو کہ حقیقت میں دونوں ملکوں کے اندر ہوتا ہے۔ اوم پوری خود ایک فوجی کا بیٹا تھا‘ جس نے بھارت کے دفاع میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا تھا۔ شاید اسی صدمے نے اوم پوری کو خونریزی سے متنفر کیا تھا۔ جب بھارت میں شیوسینا کے انتہاپسند گروپ نے پاکستانی اداکاروں کے خلاف ‘جو بھارت میں جا کر کام کرتے تھے‘ شدید نفرت کی مہم شروع کی‘ تو بھارتی میڈیا کے بڑے حصے نے شیوسینا کے غلیظ نظریات کی آڑ لے کر ‘ پاکستان اور بھارت کے درمیان نفرت کے ان شعلوں کو مزید بھڑکانے کی کوشش کی‘ جو شیو سینا کے دیرینہ منصوبوں کا حصہ ہیں۔ اوم پوری ان سادہ لوح اور نیک دل لوگوں میں سے ایک تھا‘ جو خونریزی سے نفرت کرتا تھا۔ جب شیوسینا کے انتہاپسندوں نے چھوٹی سی بات پر پاکستان اور بھارت کے درمیان نفرت کے جذبات بھڑکانے کا بہانہ ڈھونڈا‘ تو اچانک ہی پاکستان کے فنکاروں کے خلاف نفرت کا شعلہ بھڑکادیا گیا۔ جس نے پورے بھارت کے نارمل طبقوں کو ہندو عصبیت کی آگ میں جھونک کر ایسا ماحول پیدا کر دیا کہ جو شخص بھی عقل و فہم کی روشنی میں نفرت کی آگ سے بچنے کی کوشش کرتا‘ اس کے گرد گھیرا ڈال کے‘ مجبور کر دیا جاتا کہ وہ نفرت کی آگ میں یا تو دوسروں کو جھونک کر ختم کر دے یا خود اس میں کود جائے۔ جس نے ہندو انتہاپرستی کی حقیقت کو دیکھا ہے‘ اسے یہ جاننے میں مشکل پیش نہیں آئے گی کہ ہندو انتہاپرستی ایسی وحشیانہ بیماری ہے‘ جس میں عقل و فہم اور معقولیت سے کام لینے کی اجازت نہیں۔ پاکستانی میڈیا کو پڑھنے اور دیکھنے والے اس حقیقت کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ جب مسلمانوں اور خصوصاً پاکستانیوں کے خلاف نفرت کی آگ بھڑکائی جاتی‘ تو اعتدال پسندوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا تھا؟
اوم پوری ایک سادہ لوح فنکار تھا‘ جو اپنی بدقسمتی سے انتہاپسندی کے خلاف اظہارخیال کرتا رہتا تھا۔ اسے معلوم نہیں تھا کہ نفرت میں ڈوبا ہوا ہندو کتنا زہریلا اور انسان دشمن ہوتا ہے؟ جب بھارت میں پاکستانی فنکاروں کے خلاف مہم شروع کی گئی‘ تو مودی کی سرپرستی میں بھارتی فنکاروں کو ہندو انتہاپسندی کی آگ بھڑکا کر‘ ہر ایسے ہندوستانی کو جس کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو‘ اسے ایک ہی چوائس دی جا رہی تھی کہ ''اگرتم ہمارے ساتھ نہیں ہو تو بھارت کے دشمن ہو۔‘‘ 
سادہ لوح فنکار ‘ فریب کاری کے اس جال میں پھنسنے سے محفوظ نہ رہ سکا۔ مجھے بھی اندازہ نہیں تھا کہ پاکستان دشمنی کی یہ لہر اچانک کیوں بلند ہو گئی؟ ہم نے تو صرف خبریں پڑھی تھیں کہ چند ایک ہندو ایکٹروں نے بھارتی آرٹ اور فلم سازی کے شعبے میں نفرت کی بھیانک آگ بھڑکا دی ہے؟ اب حقائق سامنے آ رہے ہیں کہ اس مہم کا سرغنہ خود بھارتی وزیراعظم نریندرمودی تھا۔ اسی کے دفتر سے بیروزگاری سے خائف فلمی مزدوروں کو جمع کر کے‘ اعتدال پسند فنکاروں کے خلاف بھڑکایا گیا۔ مجھے نہیں یاد کہ اس مہم میں وزیراعظم ہونے کے باوجود‘ مودی صاحب کو تھرڈ کلاس اور ناکام ایکٹر انوپم کھیر کی ضرورت کیوں آن پڑی تھی؟ صاف ظاہر ہے کہ بھارتی فلم انڈسٹری ‘جو اپنی ابتدا ہی سے مذہبی تعصب سے بالاتر رہی‘ اس میں مذہبی نفرت کے زہر میں ڈوبے ہوئے غلیظ کیڑے کیسے داخل ہو گئے؟ مجھے آج بھی معلوم ہے کہ بھارت کی فلمی صنعت میں ہندو مسلم کا کوئی فرق نہیں ہوتا۔ شیوسینا کی نفرت انگیزی کے باوجود‘ وہاں غیر ہندوئوں کے خلاف نفرت کی کوئی مہم کامیاب نہ ہو سکی۔ یہاں تک کہ بال ٹھاکرے جیسے نفرت میں ڈوبے ہوئے انسان بھی اپنی زندگی میں کامیاب نہ ہو سکے۔ ہندو انتہاپسندی میں ڈوبا ہوا نریندر مودی بھی بھارت کے ثقافتی اور تہذیبی کلچر کی انسان دوستی سے بچ کر نہ رہ سکا۔ وہ بھارت کی تمام تہذیبی اور سماجی سرگرمیوں میں ‘ مذہبی انتہاپسندی سے آزاد لوگوں میں مل جل کر رہا کرتا۔ یہاں تک کہ بھارت کے عام انتخابات سے پہلے جب مودی انتخابی مہم میں مصروف تھے‘ تو انہوں نے اپنے گھر پتنگ بازی کا جو میلہ لگایا تھا‘ اس میں اہتمام سے سلمان خان کو مدعو کیا گیا اور نریندر مودی نے انتہائی معزز مہمان کی طرح اس کا استقبال کیا۔ انتہاپسندوں کی یہ فطرت ہوتی ہے کہ وہ بظاہر عام آدمی کی طرح سماج میں ایک نارمل انسان کی طرح گھلے ملے رہتے ہیں۔ لیکن موقع پاتے ہی انتہاپسندانہ خیالات کے شعلے بھڑکا کر‘ اپنے ہدف کو لپیٹ کے جھلس ڈالتے ہیں۔سادہ لوح فنکار اوم پوری ایسی ہی فریب کاری کا شکار ہوا۔ موجودہ بھارتی میڈیا میں ہندومہاسبھا اور شیوسینا چھائی ہوئی ہے۔ جب مسلمان فنکاروں کے خلاف مودی کی سرپرستی میں میڈیا کی مہم چلائی گئی‘ تو شیوسینا کے جنگجوئوں نے اوم پوری کو گھیر کے شکار کرنے کی سکیم بنائی۔ سب سے پہلے شیوسینا کے ایجنٹوں نے اسے زی ٹی وی کے ایک پروگرام میں سازش کے تحت مدعو کیا۔ اس سے اشتعال انگیز سوالات کئے گئے اور دانستہ اسے ہندوانتہاپسندوں کے خلاف بات کرنے کے لئے بھڑکایا گیا۔
غور طلب بات یہ ہے کہ میڈیا میں شیوسینا کے ایجنٹوں نے گھیرگھار کے اوم پوری کو ایک ایسی بحث میں گھسیٹ لیا‘ جو اس کے مزاج کے مطابق نہیں تھی۔ اسے کہا گیا کہ کیا تم بھارت کی خاطر جان دینے والوں کے حق میں نہیں بول سکتے؟ اوم پوری بھڑک گیا اور اس نے کہا کہ میرا تو اپنا باپ بھارتی سینا میں شامل تھا۔ میں ایک سپاہی کا بیٹا ہوتے ہوئے وطن دشمنی کیسے کر سکتا ہوں؟ شیوسینا کے ایجنٹوں نے اسے اشتعال دلانے کے لئے کہا کہ اگر تم سپاہی کے بیٹے ہو‘ تو کشمیری مجاہدین آزادی کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے نتن یادو کے گائوں جا کر‘ اس کی آتما کے لئے دعا کیوں نہیں کرتے؟ بھولا فنکار فوراً ہی تیار ہو گیا اور شیوسینا کے انتہاپسندوں کے ساتھ نتن یادو کے گائوں جا کر انتہاپسندوں کے جال میں پھنسنے کو تیار ہو گیا۔ گائوں میں اسے بار بار اشتعال دلایا گیا لیکن اوم پوری ہندوفریب کاروں کے جال میں پھنستا چلا گیا۔ اسے وہسکی کی بوتل لا کر دے دی گئی۔ اسی ہی حالت میں اس نے وہسکی پینا شروع کر دی اور جیسے جیسے وہ چڑھاتا گیا‘ شیوسینا کے ایجنٹ اسے ساتھ ساتھ بھڑکاتے گئے۔ رات ڈھلنے لگی تھی کہ اوم پوری نشے کے گھوڑے پر سوار اپنے گھر جا پہنچا۔ بیوی سے اس کے تعلقات پہلے ہی ٹھیک نہیں تھے۔ وہ اپنے بیٹے کو ملنے کے لئے بیتاب تھا۔ شیوسینا کے جلادوں نے اس کے فلیٹ میں جا کر اچانک حملہ کر دیا۔ اوم پوری کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اس کے گرد جو تانا بانا بنا گیا ہے‘ اس کا ڈیزائن خود بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی نے تیار کیا ہے۔ جو نوجوان اوم پوری کو گھیر کے لائے تھے‘ انہوں نے فلیٹ کے اندر آتے ہی اوم پوری پر حملہ کر دیا۔ اسے پاکستان کے طعنے دے دے کر مشتعل کیا جاتا رہا اور جیسے جیسے وہ اشتعال میں آتا‘ اسے زدوکوب کیا جاتا رہا۔اس کے کپڑے پھاڑ دیئے گئے۔ اس کو درندہ صفت ہندو دھرم کے ماننے والوں نے مکوں اور لاتوں سے مارنا شروع کیا۔ اس بری طرح سے مارا گیا کہ وہ اپنا جسمانی کنٹرول بھی برقرار نہ رکھ سکا۔ پٹائی کے دوران ہی اس کا پیشاب پاخانہ نکل گیا اور اسے اس کی اپنی غلاظت میں ہی پلٹے دیئے جانے لگے۔ وہ اپنے ہی پیشاب پاخانے میں لت پت تھا۔ آخر میں اس کے سر پر چوٹ لگا کے اس کی جان نکال دی گئی۔اوم پوری کو جس عبرتناک انجام سے دوچار کیا گیا‘ وہ دوسروں کو عبرت سکھانے کے لئے بھی تھا۔ سلمان خان‘ گروہ کا نامزد ہدف ہے۔ خدا کرے اس کا پٹھان والد اور اس کے دوست و پرستار اس کی مدد کو آ جائیں۔ ورنہ خونریزی کا جو منصوبہ شیوسینا نے بنا رکھا ہے‘ اس کا پہلا ہدف اوم پوری تھا۔ آگے دیکھئے کس کس کا نام آتا ہے؟ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved