تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     10-01-2017

سردی کا ستم!

مملکتِ خداداد کا موسم بھی اب سیاسی موسم ثابت ہونے پر تُلا ہوا ہے یعنی پلک جھپکتے میں دھوکا دے جاتا ہے، آن کی آن میں کچھ کا کچھ ہو جاتا ہے۔ موسمِ سرما کب کا وارد ہوچکا ہے مگر سردی ہے کہ اسٹارٹ لینے کا نام نہیں لے رہی۔ جن علاقوں میں شدید سردی پڑا کرتی ہے وہاں بھی سردی نے خاصی تاخیر سے زور پکڑا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ملک کے دیگر معاملات کی طرح سردی کا زمانہ بھی ٹھنڈا ٹھار چل رہا ہے۔ 
نیا سال بہت کچھ لے کے آیا ہے۔ نئے آرمی چیف آچکے ہیں۔ چیف جسٹس بھی نئے نئے ہیں۔ لوگ آس لگائے بیٹھے ہیں کہ دو اہم عہدوں پر نئے چہرے آئے ہیں تو کچھ الگ سے ہوگا، کوئی نہ کوئی بات ضرور بنے گی۔ تھوڑی بہت ''تبدیلی‘‘ سابق صدر مملکت آصف علی زرداری نے بھی پیدا کرنے کی کوشش کی یعنی خاصی مدت کے بعد وطن واپس آئے۔ اُن کی آمد سے تبدیلی واقع تو ہوئی مگر بہت کم ع 
یعنی بہ قدرِ اشکِ بلبل! 
قوم کسی بڑی خوش خبری کی منتظر تھی۔ آصف زرداری نے قوم کو مایوس کرنا مناسب نہ جانا اور ضمنی انتخاب کے ذریعے بیٹے سمیت قومی اسمبلی میں جا بیٹھنے کا ''مژدۂ جاں فزا‘‘ سناکر قوم پر ایک عظیم احسان فرمایا! سوچتے والے اب سوچتے رہیں کہ اُن کے نہ ہونے سے کیا فرق پڑا تھا جو اب ایوان میں ان کے ہونے سے پڑ جائے گا۔ اور خود ایوان کے ہونے نہ ہونے سے اب کیا فرق پڑتا ہے! 
عمران خان کہتے ہیں کہ ملک کا موسم خوشگوار ہوچلا ہے، اب بہت جلد سیاسی موسم بھی خوشگوار ہوجائے گا۔ ہم کیسے یقین کرلیں؟ اِس طرح کے دلاسے وہ ''صدیوں‘‘ سے دیتے آئے ہیں۔ ویسے سیاسی موسم کے خوشگوار ہو جانے سے اُن کی مراد اگر یہ ہے کہ وہ ایوان میں جانے کا ارادہ رکھتے ہیں تو ہمارے کچھ تحفظات ہیں۔ قومی اسمبلی میں اُن کے نہ جانے سے وہاں کا موسم تھوڑا بہت تو خوشگوار چل ہی رہا ہے۔ اب اسے مزید ''خوشگوار‘‘ بنانے کی کوشش سے احتراز فرمائیں تو مہربانی ہوگی۔ 
میڈیا کے محاذ پر بھی موسم ٹھنڈا ٹھار چل رہا ہے۔ سبب اس کا یہ ہے کہ راولپنڈی اور شان اور میڈیا کی جان نے آج کل زیادہ بولنے سے پرہیز کیا ہوا ہے۔ شیخ رشید ماشاء اللہ خوش شکل ہیں مگر چپ بیٹھے ہوں تو ذرا بھی اچھے نہیں لگتے۔ اور سچ تو یہ ہے کہ جب لوگ اُنہیں سُن رہے ہوتے ہیں تب اُنہیں دیکھنا بھول جاتے ہیں! اُن کے چپ سادھ لینے سے میڈیا والے بھی پریشان ہیں کہ وقت کو کس طور ''قتل‘‘ کریں! روزانہ پرائم ٹائم کے چار پانچ گھنٹے ہاتھی کے مانند ہوتے ہیں جنہیں ٹھکانے لگانے کے لیے کئی ہتھیار چاہئیں۔ ان ہتھیاروں میں شیخ رشید ''سالارِ آلہ‘‘ کا درجہ رکھتے ہیں! 
میڈیا پر شیخ رشید سمیت بہت سے ''اہلِ بیان‘‘ کی کم گوئی کا ایک بڑا سبب یہ بھی ہے کہ مخدوم جاوید ہاشمی بول پڑے ہیں۔ ان کا زبان کھولنا بہت سوں کی زباں بندی کا وسیلہ ثابت ہوا ہے۔ عمران خان سمجھ نہیں پارہے کہ جاوید ہاشمی کے کھولے ہوئے پوٹلے کو کس طور دوبارہ باندھیں۔ دماغی توازن کے حوالے سے غیر متوازن بیان داغ کر عمران خان نے جاوید ہاشمی کی آتشِ شوق کو مزید ہوا دی ہے! 
ایک طرف موسم کی بے رُخی اور دوسری طرف سیاسی موسم کی بے فیضی۔ اِن دونوں کے درمیان قوم ''دو پاٹن کے بیچ میں باقی بچا نہ کوئے‘‘ کی تصویر بن گئی ہے۔ ہم بھی کیا قسمت لے کر پیدا ہوئے ہیں کہ کسی طرف سے کچھ ملتا ہی نہیں۔ آرزوؤں اور امنگوں کی گرم بازاری بھی اب خیال و خواب ہوئی۔ ایسے میں جو ہے بس اُسی پر گزارا ہے۔ 
سیاسی موسم کی بے فیضی کا اِس سے بڑا ثبوت کیا ہوگا کہ ایک مدت کے بعد وطن واپس آنے پر آصف زرداری نے قوم کو حکومت مخالف تحریک کا ''مژدہ‘‘ سنایا۔ قوم کو حیرانی میں مبتلا کرنے کی یہ بھی ایک صورت ہے۔ لوگ سوچ رہے ہیں کہ آخر اب ایسا کیا ہوگیا ہے کہ حکومت کے خلاف جایا جائے۔ اگر کوئی تحریک چلانے کا ارادہ تھا تو ڈیڑھ دو سال قبل چلائی جاتی۔ تب کچھ سیاسی گرما گرمی بھی پیدا ہوسکتی تھی۔ اب تو حکومت میعاد ختم کرنے کی طرف گامزن ہے۔ اب کون سی تحریک، کہاں کی تحریک؟ کیا اِسے بھی میثاقِ جمہوریت کے اسکرپٹ کا کوئی سین سمجھا جائے؟ بادی النظر میں تو معاملہ کچھ ایسا ہی ہے۔ 
جب ہر معاملہ ٹھنڈا ٹھار چلنے پر بضد ہے تو پاناما لیکس کی تحقیقات بھلا کیوں گرم بازاری کا مظاہرہ کرے اور زور پکڑے؟ اس حوالے سے جو دھرنا دینے کی تیاری کی گئی تھی وہ لیبر روم ہی میں دم توڑ گیا۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے پہلے ہی اپنی راہ الگ کرلی تھی۔ اور اب تو وہ وطن واپسی سے بھی گریزاں سے ہیں۔ یعنی پاناما لیکس اور سانحۂ ماڈل ٹاؤن میں سے کسی ایک پر بھی پیش رفت کا فی الحال کوئی امکان نہیں۔ 
پاناما لیکس سے متعلق عدالتی کارروائی طُول پکڑتے پکڑتے اب الف لیلیٰ میں تبدیل ہوتی رہی ہے۔ عدالت کو لایعنی باتوں میں الجھانے کا عمل تیز ہوگیا ہے۔ ثبوتوں اور شواہد کے نام پر اخباری تراشے اور کتب کے اقتباسات پیش کرکے معاملات پہلے بھی الجھائے گئے تھے۔ ایک حکمرانوں کو کیا روئیے، یہاں تو آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے۔ احتساب برحق سہی مگر کس کس کا احتساب کیجیے۔ ایسا ہوا تو کوئی نہ بچے گا اور سسٹم کیا، پورا معاشرہ داؤ پر لگ جائے گا۔ یارانِ وطن احتساب احتساب چیختے رہتے ہیں مگر احتساب کا چُھرا خود اُن کی گردن تک آنے لگتا ہے تو بھاگ کھڑے ہوتے ہیں! 
قوم حیران ہے کہ اُس کے تمام بنیادی مسائل بھول کر یارانِ وطن بے مصرف کی بحث میں الجھے ہوئے ہیں۔ اب یہ تو اللہ ہی جانے کہ وہ قوم یا ایک دوسرے کو بے وقوف بنانے کی کوشش کر رہے ہیں یا اپنے آپ کو دھوکا دے رہے ہیں۔ عام آدمی کو اس بات سے کیا غرض کہ کس نے دولت کس طور حاصل کی اور ملک سے باہر کیا بھیجا یا نہیں بھیجا۔ وہ تو اپنے بنیادی مسائل کو حل ہوتا ہوا دیکھنا چاہتا ہے۔ اُسے ڈھنگ سے زندگی بسر کرنے کا حق چاہیے۔ ایک یہی کام نہیں ہو رہا، اور تو پتا نہیں کیا کیا ہو رہا ہے۔ 
ملک کے لیے اندرونی اور بیرونی چیلنج اور بحران بڑھتے ہی جارہے ہیں۔ لائن آف کنٹرول پر توپیں خاموش ہیں مگر دوسرے بہت سے محاذوں پر الگ طرح کی توپیں خوب دَغ رہی ہیں۔ پاک چین راہداراری سے متعلق منصوبوں پر کام تیز ہونے سے اُن کی سرگرمیاں بھی تیز ہوگئی ہیں جو اس راہداری کو اپنے آنگن میں مِٹّی کے ڈھیر سے تعبیر کر رہے ہیں۔ طاقت کے مرکز کو ایشیا کی طرف منتقل ہوتا ہوا دیکھ کر مغرب کے پیٹ کا مروڑ بڑھ گیا ہے۔ ایسے میں بہت سے ناخوشگوار واقعات غیر متوقع نہیں۔ ترکی میں روسی سفیر کے قتل، فائرنگ کے واقعات اور دھماکوں کو اِسی تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ پاکستان بھی اس عظیم منصوبے کا اہم حصہ ہے۔ دشمن ہم پر بھی متوجہ ہے۔ ایسے میں بہت سے چھوٹے اور بظاہر غیر متعلق معاملات میں الجھ کر توانائیاں ضائع کرنے سے کہیں بہتر یہ کہ وقت کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے قومی وجود کو زیادہ سے زیادہ مستحکم کیا جائے۔ 
ملک کو درپیش تمام چیلنجز کا تقاضا ہے کہ تمام موسم ایک طرف ہٹاکر سنجیدگی کے موسم کو راہ دی جائے۔ جن معاملات پر ملک کی سلامتی اور قوم کی بقاء کا مدار ہے وہ انتہائی سنجیدگی کا تقاضا کر رہے ہیں مگر مسئلہ یہ ہے کہ جنہیں کچھ کرنا ہے وہ لایعنی بحثوں میں الجھے ہوئے ہیں اور غیر متعلق سوچ کے ساتھ میدان میں اُترے ہوئے ہیں۔ 
یہ جو کچھ چل رہا ہے آخر کب تک چلے گا؟ اگر یہ سب کچھ یونہی چلتا رہا تو ملک کیسے چلے گا؟ سردی میں بھی پوری سردی نہیں پڑ رہی۔ پڑے بھی تو کیسے؟ سردی کے دنوں کے ساری ٹھنڈک تو دیگر تمام معاملات اور بالخصوص رموزِ مملکت میں گھس کر انہیں ٹھنڈا ٹھار کرنے پر تُلی ہوئی ہے! ایسے میں ہم بھی صرف اتنا کہنے پر اکتفا کریں گے کہ نہ جانے کب ختم ہو گا سردی کا یہ ستم! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved