ان دنوں بھارت میں پانچ صوبوں یا ریاستوں کے صوبائی انتخابات کی مہم شروع ہو رہی ہے۔ گزشتہ ہفتے سپریم کورٹ نے ایک درخواست پر انتخابی مہم میں مذہب‘ نسل‘ ذات یا زبان کی بنیاد پر ووٹ مانگنا غیرقانونی اور ناجائز قرار دے دیا۔ ملک گیر سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ ‘ لسانی اور مذہبی بنیادوں پر قائم سیاسی جماعتیں بھی اس انتخابی مہم میں شریک ہیں۔ جیسا کہ برصغیر میں عموماً ہوتا ہے کہ حکومتیں ہر مرتبہ انتخابات کے موقع پر‘ کوشش کرتی ہیں کہ لسانی‘ نسلی یا مذہبی بنیادوں پر انتخابی مہم نہ چلائی جا سکے۔ ایسے تمام گروہ اپنے اپنے محدود نظریات کی بنیاد پر انتخابی مہم چلاتے ہیں ۔ عدالتی اور آئینی پابندیوں کی مختلف بہانوں سے خلاف ورزیاں کی جاتی ہیں جن کا سلسلہ ان دنوں بھی جاری ہے۔ تمام سیکولر یا سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ مسلمان گروپوں نے بھی اس فیصلے کا خیرمقدم کیا اور اسے تاریخی قرار دیتے ہوئے امید ظاہر کی کہ اس سے مذہب اور ذات پات کے نام پر ووٹروں کا استحصال کر کے‘ سیاسی فائدہ حاصل کرنے والی جماعتوں کو اپنامخصوص کھیل کھیلنے کا موقع نہیں مل سکے گا۔ تاہم انہوں نے اس اندیشے کا بھی اظہار کیا کہ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ‘ سنگھ پریوار کے دوسرے گروپ اور مختلف بنیاد پرست عناصر شاید سپریم کورٹ کے اس حکم کی پابندی نہیں کر سکیں گے کیونکہ ان کی سیاست اور سرگرمیوں کا مرکز و محور ہندوتوا کے فروغ اور مسلمانوں کی مخالفت کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔ عدالت عظمیٰ نے انتخابات کے دوران مذہب کے استعمال پر پابندی عائد کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا تھا کہ الیکشن ایک سیکولر عمل ہے اور منتخب عوامی نمائندوں کو بھی سیکولر خطوط پر ہی کام کرنا ہو گا۔ ابھی اس عدالتی حکم کی ستائش کا سلسلہ جاری ہی تھا کہ وہی ہو گیا جس کا اندیشہ ظاہر کیا جا رہا تھا۔ بی جے پی کے ضعیف العمر ممبر پارلیمنٹ ‘ساکشی مہاراج‘ جنہوں نے اب تک غیرشادی شدہ زندگی گزاری ہے اور خود کو ہندو دھرم کی تبلیغ و اشاعت کے لئے وقف کر رکھا ہے، سپریم کورٹ کے حکم کی دھجیاں اڑاتے ہوئے‘ اپنا پرانا مسلم دشمنی کا راگ الاپنے لگے۔ ان کی نظروں میں مسلمانوں کی آبادی بری طرح کھٹکتی رہتی ہے۔
کسی ٹھوس تحقیق کے بغیر ان کا خیال یہ ہے کہ ملک میں مسلمانوں کی آبادی جس تیزی سے بڑھتی جا رہی ہے‘ اس کے پیش نظر آنے والے برسوں میں مسلمان اکثریت میں آ جائیں گے اور ہندو جو کم بچے پیدا کرتے ہیں‘ وہ اقلیت میں رہ جائیں گے۔ اترپردیش کے انائو سے بی جے پی کے منتخب ممبر پارلیمنٹ اور وضع قطع سے ہندو سادھو جیسے نظر آنے والے ساکشی مہاراج‘ اس غیر مدلل فکر میں لگاتار دبلے ہوتے رہتے ہیں۔ اترپردیش جہاں 11فروری سے 8 مارچ تک سات مرحلوں میں ووٹ ڈالے جائیں گے‘ تاریخی اہمیت کے حامل شہر میرٹھ میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے حسب سابق کہا کہ ملک کی آبادی میں اضافے کے لئے ہندو نہیں بلکہ وہ لوگ ذمہ دار ہیں جو چار بیویاں رکھتے ہیں اور چالیس بچے پیدا کرتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ عورت کوئی مشین نہیں ہوتی۔ چار بیویاں ‘ چالیس بچے اور تین طلاق یہ سب کچھ قابل قبول نہیں ہے۔ ممکن ہے مصلحت کے تحت دانستہ طور پر انہوں نے لفظ مسلمان استعمال نہیں کیا لیکن ظاہر ہے کہ ان کا واضح اشارہ یا نشانہ مسلمان ہی تھے۔
جب اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے‘ مسلمانوں کے خلاف ساکشی مہاراج کی اس ہرزہ سرائی کی سخت نکتہ چینی اور مذمت ہونے لگی‘ تو انہوں نے اپنے بیان کا دفاع کرنا شروع کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے مسلمانوں کے خلاف کچھ نہیں کہا بلکہ میرے موضوع کا تعلق خواتین کو اختیارات دینے سے تھا۔ ساکشی مہاراج اب خواہ کچھ بھی کہیں لیکن ان کا بیان حقائق سے دور ہونے کے ساتھ ساتھ گھٹیا اور احمقانہ تو ہے ہی‘ ساتھ ہی اس بیان کی مذمت اس لئے بھی کی جانی چاہیے کہ اس میں مسلمانوں کے خلاف ان کی نفرت صاف نظر آتی ہے اور یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے بلکہ انہوں نے اسی طرح کے بیانات دے کر اپنی مسلم مخالف شبیہ بنائی ہے اور اس پر وہ اکثر فخر بھی کرتے رہتے ہیں۔ ایسے سیاست دانوں کی موجودگی میں‘ سپریم کورٹ کے حکم پر باضابطہ عمل ہو پائے گا؟ اس کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ ساکشی مہاراج کے مطابق‘ ہندوستان کی آبادی کے مسئلہ کا اصل سبب مسلمان ہیں کیونکہ اسلام میں چار بیویاں رکھنے کی اجازت ہے‘ جن سے مسلمان چالیس بچے پیدا کر لیتے ہیں اور اس کے علاوہ تین طلاق بھی‘ جس کی وجہ سے مسلمان ایک بیوی سے کنارہ کش ہو کر دوسری عورت سے بہ آسانی شادی کر لیتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ اسلام نے چار شادیوں کی اجازت دے رکھی ہے لیکن اصل سوال یہ ہے کہ کیا عملاً ایسا ہو رہا ہے؟ کیا ہندوستانی مسلمانوں میں چار شادیاں کرنے کا چلن عام ہے؟ ظاہر ہے کہ جواب نفی میں ہے۔ ہندو مذہب ایک سے زائد شادی کرنے کی اجازت نہیں دیتا‘ اس کے باوجود ہندو ایک سے زائد شادیاں کیوں کرتے ہیں؟ ساکشی مہاراج کے لئے فکر کا اصل سبب‘ ہندوئوں میں دھرم کی اجازت کے بغیر ایک سے زائد شادی کرنے کا چلن ہونا چاہیے نہ کہ دوسروں کے دامن میں جھانکنے کی کوشش۔
اعداد و شمار کی روشنی میں بات کریں تو پتہ چلتا ہے کہ ہندوستان میں ایک سے زائد بیویاں رکھنے والے مسلمان کم اور ہندو زیادہ ہیں۔ 1961ء کی مردم شماری کے مطابق ہندوئوں میں ایک سے زائد شادیاں کرنے والوں کا فیصد 5.8 تھا جبکہ مسلمانوں میں اس کا فیصد 5.7 تھا۔ 0.1 فیصد کا یہ فرق معمولی معلوم ہوتا ہے لیکن حقیقت میں یہ فرق بہت زیادہ ہے کیونکہ اس وقت ہندوئوں کی 366 ملین آبادی کے مقابلے میں‘ مسلمانوں کی آبادی محض 47 ملین تھی۔ اس کے بعد 1974ء کے سروے سے بھی یہ حقیقت ایک بار پھر عیاں ہوئی کہ مسلمانوں کے مقابلے میں اعلیٰ ذات کے ہندوئوں کے یہاں ایک سے زائد بیویاں رکھنے کا چلن زیادہ تھا۔ لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ساکشی مہاراج کو مسلمانوں کا رونا رونے کی بجائے ہندوئوں کو تلقین کرنی چاہیے کہ وہ اپنے مذہب کی پیروی کریں اور ایک سے زائد بیویاں نہ رکھیں۔ یہی معاملہ طلاق کا بھی ہے۔ مسلمانوں میں مشروع طلاق کو موقع بموقع اعتراض و اشکال کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ حالانکہ اسلام نے طلاق کو انتہائی مجبوری کی حالت میں جائز قرار دیا ہے اور اسے حلال چیزوں میں سب سے ناپسندیدہ کہا گیا ہے۔ ہندوستان کے پس منظر میں ‘دوسرے مذاہب کے ماننے والوں میں‘ سیپریشن یا علیحدگی کا معاملہ اس سے کئی گنا زیادہ اور سنگین ہے جتنا کہ طلاق کے معاملہ کا مسلمانوں کے تعلق سے۔ لیکن افسوس ہے کہ اس کی جانب کسی کی نگاہ نہیں جاتی۔ ساکشی مہاراج نے اپنے بیان کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ وہ تو خواتین کو بااختیار بنانے کی باتیں کرتے ہیں اور عورت کو محض بچہ پیدا کرنے کی مشین نہیں سمجھا جانا چاہیے۔ گویا وہ یہ کہہ رہے تھے کہ مسلمان زیادہ بچے پیدا کرتے ہیں‘ اس لئے انہیں مسلمان عورتوں سے ہمدردی ہے کہ ان کا اس طرح استحصال کیا جا رہا ہے۔ لیکن ساکشی مہاراج بھول گئے کہ دو سال قبل انہوں نے خود ہندو عورتوں کو کم از کم چار بچے پیدا کرنے کی نصیحت کی تھی۔ اگر مسلمان عورت چار بچے پیدا کرے تو مشین اور ہندو عورت کو چار بچے پیدا کرنے کی تلقین۔آخر کس کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ساکشی مہاراج اور ان جیسی سوچ رکھنے والوں کا اصل مسئلہ مسلمانوں کا وجود ہے ‘جو ہر وقت ان کی آنکھوں میں کھٹکتا رہتا ہے۔ ایسے لوگ دراصل اس ملک کے آئین‘ یکجہتی اور سماجی و تہذیبی تنوع کے دشمن ہیں۔
ساکشی مہاراج کے مسلم مخالف بیان کا الیکشن کمیشن نے سخت نوٹس لیا ہے۔ ان کے خلاف ایک مقدمہ بھی درج کر لیا گیا ہے۔ لیکن صرف اتنا کافی نہیں ہے۔ بی جے پی نے سردست حالات کی نزاکت کے مدنظر ‘ساکشی مہاراج کے فرقہ واریت پر مبنی بیان سے پلہ جھاڑ لیا ہے۔ لیکن اس طرح عوام کو بیوقوف نہیں بنایا جا سکتا۔ الیکشن کمیشن اور مقامی انتظامیہ قانونی کارروائی کریں گے لیکن اس کے ساتھ ساتھ بی جے پی کو بھی چاہیے کہ وہ ساکشی مہاراج کے خلاف سخت کارروائی کرے اور انہیں اس جرم کی مناسب سزا دے۔ لیکن اس کا امکان معدوم ہی معلوم ہوتا ہے کیونکہ بی جے پی جس کے لئے یو پی کا الیکشن جیتنا موت و زیست کا سوال بنا ہوا ہے‘ جیت حاصل کرنے کے لئے فرقہ ورانہ اور مسلم دشمنی کا آزمودہ ہتھیار ایک بار پھر استعمال کر سکتی ہے اور ساکشی مہاراج جیسے لوگ اس موقع پر پارٹی کے لئے کافی مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔