تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     11-01-2017

فیصل صالح حیات کی نئی پارٹی، نئی فلاسفی

فیصل صالح حیات کی آصف علی زرداری کے ساتھ بلاول ہائوس کراچی میں دوبارہ پیپلز پارٹی میں شامل ہونے کے مناظر دیکھ کر مجھے اپنی کتاب ''ایک سیاست کئی کہانیاں‘‘ کا وہ باب یاد آیا جو میں نے فیصل پر لکھا تھا۔ فیصل صالح حیات نے پیپلز پارٹی 1977ء میں جوائن کی اور الیکشن جیتا، لیکن پارلیمنٹ نہ پہنچ سکے۔ نصرت بھٹو فیصل صالح حیات کو پسند کرتی تھیں کیونکہ وہ مرتضیٰ بھٹو کے کلاس فیلو تھے۔ فیصل کے انکل خالد خان کھرل کمشنر لاڑکانہ تھے اور وہ بھٹو صاحب کے ایک طرح سے فیملی فرینڈ تھے۔ یوں فیصل بھٹو فیملی کے بہتر قریب تھے۔ 
نصرت بھٹو کی پسندیدگی کی وجہ سے فیصل صالح کا ان کے گھر آنا جانا شروع ہوگیا۔ بیگم بھٹو ایک زبردست شخصیت کی مالک اور دل کی بہت اچھی تھیں۔ بینظیر بھٹو اور فیصل صالح تقریباً ایک دوسرے کے ہم عمر تھے، لہٰذا ان کی بھی جلد ہم آہنگی ہوگئی۔ دونوں نے سیاسی کیرئیر بھی ایک ہی پارٹی سے شروع کیا تھا جب یہ تاریخ کے بدترین بحران سے گزر رہی تھی۔ بینظیر بھٹو اور فیصل نے سیاست ایک ساتھ سیکھی خصوصاً جب جنرل ضیاء بندوق کی نوک پر حکومت کر رہے تھے۔ دونوں سیاسی گھرانوںکے تعلقات بہت جلد خاندانی تعلقات میں بدل گئے۔ تاہم ان کے تعلقات اس وقت ختم ہوئے جب فیصل صالح حیات نے 2002ء کے انتخابات کے بعد بینظیر بھٹو کے خلاف یہ کہہ کر بغاوت کی کہ وہ چھوٹے موٹے مفادات کے لیے اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں میں کھیل رہی تھیں۔ فیصل کے خیال میں ان کے اور بینظیر کے درمیان جو چیز مشترک تھی وہ جنرل ضیاء کے خلاف جدوجہد اور جمہوریت کی بحالی تھی۔ 
جب میں فیصل سے پہلی دفعہ 2003ء میں ملا تو انہیں دبنگ آدمی پایا۔ پارلیمنٹ میں جب پیپلز پارٹی ان پر جنرل مشرف کا ساتھ دینے پر حملے کرتی تو وہ سب کو ڈٹ کر جواب دیتے۔ پارلیمنٹ میں چاہے بیس لوگوں میں گھرے ہوں، سب سے لڑنے کی سکت رکھتے تھے۔ میری بھی ان سے دعا سلام لڑائی سے ہی شروع ہوئی، جب وہ بینظیر بھٹوکو دغا دے کر جنرل مشرف کی حکومت میں وزیرداخلہ بن گئے۔ میں نے ان کی سیاسی چھلانگ پر کچھ خبریں فائل کیں تو انہوں نے میرے انگریزی اخبار کے مالک کو فون کر کے شکایت کی۔کسی بھی اخبار کے مالک کے لیے وزیرداخلہ کی شکایت کو نظر انداز کرنے کی جرأت نہیں ہوتی۔ مجھے علم تھا کہ وہ مجھ سے ناخوش ہیں۔ میری ان سے پہلی ملاقات پارلیمنٹ کے کیفے ٹیریا میں ہوئی۔ مجھ سے تعارف ہوا تو کچھ ناراض ہوئے کہ میں ان کے خلاف خبریں فائل کرتا ہوں اور ان کا موقف نہیں لیتا۔ بولے، کسی وقت مل لیں اور بات بھی سن لیں۔ ایک دن ان سے ملاقات ہوگئی۔ انہوں نے بینظیر بھٹو کی نئی سیاسی فلاسفی پر شدید تنقید کی۔ ان کا خیال تھا کہ جنرل مشرف سے ڈیل نہ کر کے وہ بہت غلط کر رہی ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ اگر وہ جنرل مشرف سے ہاتھ نہ ملاتے اور پیپلز پارٹی پیٹریاٹ نہ بناتے تو شاید پاکستان میں جمہوریت نہ لوٹتی۔ ان کے خیال میں ان اٹھارہ ایم این ایز، جنہوں نے پیپلز پارٹی کو چھوڑا اور جنرل مشرف سے حلف لیا تھا وہ دراصل جمہوریت کے محسن تھے، ورنہ جنرل مشرف نے پاور ٹرانسفر نہیں کرنی تھی، وہ سب ہاتھ ملتے رہ جاتے۔ 
پارٹی چھوڑنے سے پہلے دبئی میں ایک اجلاس ہوا، جس میں فیصل صالح نے دیگر کے ساتھ مل کر یہ بات کہی تھی کہ اگر جنرل مشرف امین فہیم کو وزیراعظم بنانے کو تیار ہیں تو انہیں بننے دینا چاہیے، اس میں پارٹی کا فائدہ ہے۔ اس پر بی بی نے طنزاًکہا: You all Makhdooms (Faisal & Faheem) feel and think alike میں نے فیصل سے پوچھا تھا کہ انہوں نے پارٹی کیوں چھوڑی۔ فیصل نے ایک نئی کہانی سنائی۔ ان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی میں بیک وقت دوکام چل رہے تھے۔ ایک طرف پارٹی، اصولوں کی بات کر رہی تھی، میڈیا اور عوام کو یہ تاثر دیا جارہا تھا کہ پارٹی سے بڑا اصول پسند اورکوئی نہیں جبکہ دوسری طرف امین فہیم کو بینظیر بھٹو نے یہ ٹاسک دیا ہوا تھا کہ وہ جنرل مشرف سے ڈیل کریں۔ مولوی صاحبان کی متحدہ مجلس عمل سے بھی بات چیت جاری تھی۔ فیصل صالح کے بقول وہ جنرل مشرف سے ملنے والے پیپلز پارٹی کے پہلے یا آخری سیاستدان نہیں تھے۔ پیپلز پارٹی کے یہی لیڈرز جنرل وحید کاکڑ اور جنرل آصف نواز سے بھی ملتے تھے تاکہ نواز شریف حکومت ختم کرائی جا سکے۔ اور یہی پارٹی لیڈرز جنرل جہانگیر کرامت سے بھی ملتے تھے۔ فیصل کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی اب منافقوں کی جماعت بن چکی ہے۔ بینظیر بھٹو کو پہلے جنرل مشرف کی وردی کا کوئی ڈر نہیں تھا، اب تو وہ پارلیمنٹ جمہوریت کے بڑے دوست بن کر ابھرے ہیں۔ 
فیصل نے مجھ سے پوچھا کہ اگر بینظیر بھٹو اصول پسند ہونے کا دعویٰ کرتی تھیں تو انہوں نے پی پی پی کے آگے ایک اور پی کیوں لگایا اور اپنی پارٹی کو انتخابات سے قبل الیکشن کمشن میں اس کا نام 
بدل کر رجسٹرکرایا۔ فیصل نے کہاایک بات بتائیں کہ اگر پی پی پی نے 1985ء کے الیکشن میں اس لیے حصہ نہیں لیا تھاکہ وہ ایک آمر جنرل ضیاء کے نیچے الیکشن نہیں لڑنا چاہتے تھے تو اب 2002ء میں بھی تو ایک آمر ہی بیٹھا تھا، پھر جنرل مشرف کے نیچے الیکشن میں حصہ کیوں لیا؟ فیصل نے تسلیم کیا کہ انہوں نے جنرل مشرف سے کمپرومائزکرنے کے بعد ہی پیپلز پارٹی کو چھوڑا تھا۔ وہ کمپرومائزکرنے والے پہلے اور آخری لیڈر نہیں تھے، پوری کی پوری پیپلز پارٹی کمپرومائزکرتی رہی ہے۔ فیصل کا کہنا تھا کہ اگر ماضی میں پیپلز پارٹی ایک سو کمپرومائز کر چکی ہے تو ایک اورکمپرومائز کرنے میں کیا حرج تھا۔ مطلب یہ کہ جنرل مشرف کو وردی کے ساتھ تسلیم کر کے اپنی مرضی کا وزیراعظم لگوانے میں کیا مسئلہ تھا؟ اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کے لیے فیصل صالح نے کہا، پارٹی لیڈروںکو ایسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کمپرومائز کرنا خود بینظیر بھٹو نے سکھایا تھا۔ یہ بات سننے کے بعد میں نے مایوس ہوکر کہا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان میں سیاسی اخلاقیات کی موت واقع ہو رہی تھی۔ فیصل نے کہا ہم سیاسی اخلاقیات کی کیا بات کریں، جب ماضی میں ایک دوسرے کے دشمن یعنی پیپلز پارٹی، پی ایم ایل کیو، پی ایم ایل نواز، پیٹریاٹ ایک ہی الائنس میں بیٹھی ہوئی ہیں۔ 
میں نے ان سے پوچھا کہ جب فاروق لغاری نے بینظیر بھٹو کی حکومت توڑی تو کرپشن کی کہانیوں میں کتنا سچ تھا۔ فیصل نے جواب دیا، اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں تھی کیونکہ کرپشن کی ان تمام کہانیوں میں زرداری فیکٹر موجود تھا۔ سب کو علم تھا کہ وزیراعظم ہائوس میں کیا ہو رہا ہے۔ فیصل کے بقول بینظیر بھٹو کو آصف زرداری کے خلاف کرپشن الزامات کو سنجیدگی سے لینا چاہیے تھا۔ اس وقت ممکن تھا کہ یہ سب کرپشن کہانیاں جھوٹ نکلتیں، لیکن ان رپورٹس پر ایکشن ہونا چاہیے تھا۔ فیصل کو زرداری سے ملاقات کرتے ہوئے ایک بات یاد آئی کہ وہ یہ تو مانتے ہیں کہ سیاست میں کمپرومائز کرنے پڑتے ہیں، لیکن ایک اچھے سیاستدان کو ایک سیاسی کمپرومائز اور اندھا دھند کمپرومائز میں لکیرکھینچنی پڑتی ہے۔ ہم سیاست میں ساری عمر ان دونوں کمپرومائزز کے درمیان بیلنس کرتے رہتے ہیں۔ لیڈرزکو کبھی اپنے بنیادی اصولوں اور پالیسوں پر کمپرومائز نہیںکرنا چاہیے۔ 
2003ء کی اس دوپہرکو جب میں نے جنرل مشرف کے وزیرداخلہ سے انٹرویو کے اختتام پر پوچھا تھا کہ کیا وہ دوبارہ اُس پیپلز پارٹی میں شامل ہونا پسند کریںگے جس کے لیے انہوں نے شاہی قلعہ میں کئی برس گزارے اور اپنی جوانی اس پارٹی کو دی تھی تو جنرل مشرف کے اس پُر اعتماد وزیر نے جواب دیا تھا:اب میں کبھی بینظیر بھٹو کی پارٹی میں نہیں جائوں گا۔ اب میری اپنی پارٹی ہے۔ اپنی سیاسی پارٹی ہے۔ شاید فیصل صالح حیات درست کہتے ہیں کہ وہ بینظیر بھٹو کی پارٹی میں شامل نہیں ہوئے، وہ زرداری کی پارٹی میں شامل ہوئے ہیں، جس کی فلاسفی فیصل صالح حیات سے ملتی جلتی ہے، جس میں سیاسی اخلاقیات نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ 
سیاست کیسے کیسے لوگوں کی عزت نفس کو چاٹ جاتی ہے۔ سیاست میں زندہ رہنے کے لیے فیصل صالح حیات کو بھی زرداری کی وفاداری کا حلف اٹھانے کی ضرورت پڑگئی ہے۔ کرپشن سکینڈلز میں زرداری فیکٹر‘‘ ٹرم کے خالق فیصل صالح، جنرل مشرف کے بعد اب ماشاء اللہ اپنے نئے باس اور گرو آصف علی زرداری سے کمپرومائزکر چکے ہیں۔ اگر کبھی وہ مجھے ملے تو پوچھوں گا، اپنی بقا کے لیے اب انہوں نے کون سا کمپرومائز کیا ہے۔۔۔۔ اندھا دھند یا سیاسی؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved