آج سے آٹھ سال قبل ان دنوں امریکہ کے عوام شدید اشتیاق سے ایک آس اور تبدیلی کی امید لیے بارک اوباما کے صدارت کا حلف اٹھانے کے لمحوں کا انتظار کررہے تھے ۔ امریکہ کے دنیا کی بڑی طاقت ہونے کے ناتے دنیا بھر میں دلچسپی ،کسی بہتری یا قدرے تبدیلی کی امید بھی پائی جارہی تھی۔ لیکن یہ جذبے اور رجحانات بیرونی دنیا میں سماجوں کی درمیانی پرتوں اور خصوصاًسول سوسائٹی میں زیادہ پائے جارہے تھے ۔ پاکستان میں سابقہ بائیں بازو کے بے شمار افراد، جوبیجنگ اور ماسکو کی پیروی وہاں کے انہدام اور سرمایہ دارانہ استواری کی وجہ سے اب اپنے قبلے واشنگٹن کی جانب موڑ چکے تھے، اس اصلاح پسند اعلیٰ مقرر میں ہر کسی کی امیدیں اپنی خوش فہمیوں کی طرح مبذول کروانے میں سرگرم تھے۔
جس روز امریکہ کی تاریخ کے پہلے نیم سیاہ فام صدر کے طور پر اوباما نے انتخاب جیتا تھا تو اس شام اپنی فتح کی تقریر میں اس نے کہا تھا کہ'' وہ نہ جھکنے والی امیدبن کر آیا ہے‘‘۔ لیکن اپنی صدارت کے آخری سالوں میں اس نے اپنی کتاب میں یہ اعتراف کیا کہ ''یسے معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ اپنے مقدر کو اپنے اختیار میں نہیں کرسکتا ہے‘‘۔ اوباما کی8سالہ صدارت میں خارجہ اور داخلی میدانوں میں ہمیں اس آس کی نراش کا ایک سلسلہ نظر آتا ہے جو آرزوئیں اور ارمان کروڑوں یا اربوں انسانوں نے اس کی صدارت سے منسوب کیے تھے ۔ اس نے اپنی مہم کے دوران کیے گئے اہم وعدوں اور اقدامات سے گریز بھی کیا اور بیشتر اوقات اس نے اس کے برعکس پالیسیاں جاری کیں۔ مثلاً کیوبا کے ایک چھوٹے سے خطے گوانتاناموبے میں بلند سکیورٹی کا جیل خانہ بند کرنے کا دعویٰ، اس کے اہم ترین وعدوں میں سے تھا۔ یہ جیل خانہ اپنے تشدد اوراذیتوں کے ساتھ آج بھی قائم ہے۔ اوباما نے خارجہ پالیسی کے بارے میں اپنی صدارت کے آغاز پر یہ بیا ن دیاتھا کہ ''اگر آپ اپنی مٹھی کھولنے کے لیے ہی مان جائوتو ہم اپنا کھلا ہاتھ پہلے ہی آپ کی طرف بڑھا چکے ہوں گے‘‘۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ اس کے دور صدارت میں زیادہ جارحیت ہی سامنے آئی۔ امن کا نوبل انعام حاصل کرنے کے بعد اس نے اپنے دوسری مرتبہ صدر بننے پرتقریر میں کہا تھا کہ ''جنگوں کی ایک پوری دہائی کا خاتمہ ہورہا ہے‘‘ جبکہ اس کی ساری حکمرانی کے دوران امریکہ مسلسل اور لگاتار جنگوں کو جاری ہی کرتا رہا۔عراق سے اس نے فوجیں واپس بلوائیں لیکن جس طرح امریکی سامراج نے اس معاشرے کی بنیادوں کو مجروح اور توڑ پھوڑ کا شکار کیاتھا، امریکہ کی فوجی مداخلت کو اس کا خلا دوبارہ کھینچ کے لے گیا۔سامراجی مفادات کے تقاضے اوباما کی سول سوسائٹی سوچ سے کہیں زیادہ طاقتور اور ''پاورپالیٹکس‘‘ پربھاری تھے ۔ افغانستان سے انخلا اور دوبار ہ فوجی جارحیت کا سلسلہ جاری رہا۔ 2016ء میں امریکہ سات ممالک میں اوباما کے پسندیدہ ہتھیار''ڈرون‘‘ کے ذریعے متواتر بمباری کرتا رہا ہے۔ شام میں ''سرخ لکیر‘‘ کا الٹی میٹم دینے کے بعد جب امریکی بحری بیڑہ گولہ باری کرنے والا تھا تو اوباما ڈگمگا گیاکیونکہ اس کے بعد بری فوجی مداخلت ناگزیر ہوجاتی، اور پہلی جنگوں سے تباہ حال معیشت کسی نئے محاذ کی متحمل نہ تھی۔
لیکن پھر مختلف ناکام،کرپٹ اور درندہ صفت مذہبی جنونی پراکسیوں کے ذریعے شام میں امریکی مالی اور فوجی امداد کے ساتھ مداخلت جاری رہی۔ لیبیا میں اوباما نے معمر قذافی کو تو معزول اور بے دردی سے قتل کروا دیا لیکن لیبیا میں جو خونی خلفشار پیدا ہوگیا ہے وہ کسی طرح شام کی خونریزی سے کم نہیںہے۔ شام میں اوباما کی پالیسیوں کے بارے میں اس کے لگائے ہوئے سی آئی اے کے سربراہ اور وزیر دفاع لیون پنیٹا نے اعتراف کیا ہے کہ''مشرقِ وسطیٰ میں واقعات کے سلسلے اور پالیسی نے اس سوال کو ابھاردیا کہ کیا امریکہ کبھی اپنی زبان پر قائم رہ سکتا ہے؟‘‘ چین کے ساتھ امریکہ کے متضاد تعلقات مزید خراب ہوئے۔ جس نریندر مودی پرامریکی ویزے کی پابندی تھی اس کو امریکہ میں کسی بھی بھارتی لیڈر سے زیادہ استقبال اوراحترام سے نوازا گیا۔ بھارتی ایٹمی پروگرام میں شراکت فوجی نوعیت کی کم اور امریکی سرمایہ دارانہ اجارہ داریوں کے مفادات اور منافع خوری کے لیے زیادہ کی گئی۔ اوباما اور امریکی میڈیا نے جس پیوٹن کو ایک درندہ بنا کر پیش کیا، اس کی دشمنی مولی لی وہ امریکی پالیسیوں کی وجہ سے ہی آخر کار''فوربز‘‘ کے مطابق دنیا کا سب سے طاقتور ترین مرد بن گیا۔ایک طرف ایران سے معاہدہ کیا جبکہ دوسری جانب اس نے اپنے پرانے حلیف خلیجی ممالک کو اپنے بارے میں مشکوک اور ناقابل اعتبار کرلیا ہے۔ اسرائیل کے ساتھ ایران اور دوسری نیم دلانہ پالیسیوں کی وجہ سے اوباما کی دوستی‘ دشمنی بن گئی ۔جبکہ اسرائیل کی امریکی لابی کا غم وغصہ بھی جھیلنا پڑا اور اسرائیل سے تعلقات خراب کرکے بھی فلسطینیوں کی ذرابھر مدد اور بہتر ی کرنے میں اوباما انتظامیہ ناکام ہی رہی ہے۔ عوام کی فلاح وبہبود اور تبدیلی کے وعدے کرکے صدر بننے والے اوباما نے آتے ساتھ ہی سب سے پہلا کام یہ کیا کہ امریکی خونخوار بینکوں ، کاروں اوردوسری بھاری صنعتوں کے مالکان کے خساروں کو امریکی عوام کے خزانے سے کھربوں ڈالر کے ''بیل آئوٹ‘‘ دیے جس سے امریکہ دنیا کا سب سے مقروض ترین ملک بن گیا۔ اس سے سماجی فلاح کے اخراجات میں شدید کٹوتیاں ہوئیں اور امریکہ میں غربت اور محرومی اذیت ناک حد تک سماج میں پھیلتی چلی گئی۔ وائٹ ہائوس میں ایک سیاہ فام صدارتی جوڑا آ جانے سے امریکہ میں سیاہ فام آبادی کا نسلی امتیاز سے ریاستی قتل ، غربت اور ذلت میں مزید اضافہ ہی ہوتا چلا گیا ہے۔ اوباما کئیر کو ایک جارحانہ نیولبرل سرمایہ دارانہ نظام میںلانے کا انجام یہی ہونا تھا کہ نجی کمپنیاں علاج کے انشورنش کے پیسے ریاست سے زیادہ مہنگے اور تیز رفتاری سے حاصل کرنے لگیں۔ 35 کروڑ میں سے صرف 2کروڑ کو یہ علاج کی سہولت حاصل ہو سکی اور علاج کی کمپنیوں نے ریاست کو بے پناہ لوٹا۔ اسی طرح تعلیم کے شعبے میں بھی حالات بد سے بدتر ہوتے چلے گئے ہیں۔2001ء سے2014ء کے عرصے میں وہ سکول جن میں90 فیصد غریب ترین بچے داخل ہیں ان کی تعداد دوگنا ہوگئی ۔ اوباما کے دور میں سکولوں میں بچوں کے پاس اسلحہ اور قتل کی وار داتیں پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئیں۔اوباما نے اپنے آپ کو تبدیلی کی علامت اور ذریعے کے طور پرپیش کیا تھا۔ لیکن جو تبدیلیاں آئی ہیں وہ ہمارے سامنے ہیں ۔ سب کچھ بدلا ہے لیکن غریبوں کی زندگی اگر بدلی ہے تو وہ بہتری کے لیے نہیں بلکہ بدتری کے لیے! حقیقت یہ ہے کہ اس کے د ور اقتدار میں نہ صرف صدارت کی طاقت اندر سے کھرچی گئی ہے بلکہ امریکی سامراج کی قوت بھی کھوکھلی ہوگئی ہے۔ اصلاح پسندوں کا المیہ یہ ہوتا ہے کہ نظام چاہے کتنا ہی گل سڑچکا ہو وہ اسی کو ٹھیک اور درست کرنے سے باز نہیں آتے۔ مسئلہ یہ ہے نظام میں اصلاح کی گنجائش ختم ہوچکی ہے۔ امریکی سرمایہ داری کا اقتصادی اور سماجی نظام اس حد تک زوال پذیر ہوچکا ہے کہ اس میں سماجی ترقی کرنے کی صلاحیت ختم ہوچکی ہے۔ اقتصادی اور سماجی بحران کے خلاف بغاوت پہلے وال سٹریٹ پر قبضے کی تحریک کی شکل میں2011ء کے عرصے میں ابھری پھرسیاسی میدان میں ایک مثبت رجحان ‘جو سوشلزم کے نعرے کے ساتھ سامنے آیا اور بے پناہ مقبولیت خصوصاً نوجوانوں میں حاصل کرگیا،جس کا تشخص برنی سینڈرز بنالیکن صدارتی امیدواری اس کی جگہ ہلری کو دی گئی۔
اس پس منظرمیںڈونلڈ ٹرمپ جیسا بڑبولا سٹاک مارکیٹ کا جواری اور پراپرٹی ٹائیکون سامنے آگیا ۔ ریپبلکن کے قدامت پرستوں نے گویا ''بندر کے ہاتھ میں استرا‘‘ ہی قرار دیا۔ لیکن امریکی بحران کا یہ ایک غماز ہے کہ ہر قسم کی روایتی سیاست اور معیشت سے اتنی بیزاری ہے کہ امریکی عوام ایسے مسخروں کو بھی صدر بنا دیتے ہیں لیکن نعرہ اس کا بھی بنیادی طور پر تبدیلی کا ہی ہے۔ اگر اوباما امریکہ میںکوئی مثبت تبدیلی نہیں لاسکا تو ٹرمپ کو نسی تبدیلی لانی ہے۔بس انتشار اورعدم استحکام اور بین الاقوامی تعلقات میں مزید شدت اختیار کر جائیں گے۔ پہلے تو امریکی صدارتی انتخابات کا طریقہ انتخاب ہی دھاندلی زدہ ہے۔ پھر اس کے ادارے، ریاست اور ایجنسیاں تمام کی تمام اسی بوسیدہ سرمایہ دارانہ نظام کے تحفظ کے لیے بہت سخت گیر اور طویل وقت سے تعمیر کردہ ہیں۔ اس لیے امریکہ میں ان انتخابات کے ذریعے تو تبدیلی آ نہیں سکتی۔ میڈیا تو بالکل نہیں آنے دے گا۔ یہاں نوجوانوں اورمحنت کشوں کی تحریک درکار ہے جو ایک انقلابی سرکشی کے ذریعے امریکی ریاست اور سماج کو یکسر بدل سکتی ہے ۔ امریکہ میں ایسی سوشلسٹ تبدیلی نسلِ انسانی کے درخشاں مستقبل کا سب سے بڑا آغاز بنے گی۔