کسی بحث میں اُلجھے بغیر ہم ''تسلیم‘‘ کر لیتے ہیں کہ جنرل ضیاء الحق کی مارشل لا حکومت میں شرکت سیاسی گناہ تھا‘ لیکن کیا اس کا ارتکاب صرف جاوید ہاشمی نے کیا؟ اُس دور کی مسلم لیگ‘ مفتی محمود صاحب کی جمعیت علمائے اسلام‘ ہاشمی کو طعنہ دینے والے فاضل کالم نگار کی (اور ہماری بھی) ممدوح جماعت اسلامی اور بابائے جمہوریت نوابزادہ نصراللہ خان کی پاکستان جمہوری پارٹی بھی اس میں شامل تھی‘ پھر تنہا ہاشمی گردن زدنی کیوں؟
خوف اور لالچ تو اسے چُھو کر بھی نہیں گزرا۔ شہ سواری بھی اس کی فطرت میں تھی۔ بچپن میں کئی بار گھوڑے سے گرا‘ مگر خطرۂ افتاد کے باعث شہ سواری ترک نہ کی۔ شاید قدرت اسے ان بڑے معرکوں کے لیے تیار کر رہی تھی جن میں اسے شہ سوار کا کردار ادا کرنا تھا۔ 1971ء میں جب مشرقی پاکستان فوجی ایکشن کے ہاتھوں لہولہان تھا‘ وہ پنجاب یونیورسٹی سٹوڈنٹس یونین کا سیکرٹری جنرل تھا۔ اس نے اپنے ساتھیوں کو مشرقی پاکستان جانے کے لیے قائل کر لیا تاکہ خود اپنی آنکھوں سے یارانِ وطن کا حال دیکھ سکیں اور وہاں اس نے جو کچھ دیکھا‘ جو کچھ سنا‘ اس نے اس کی روح تک کو جھنجھوڑ کے رکھ دیا۔ مشرقی پاکستان آخری سانس لے رہا تھا لیکن ''نجات دہندوں‘‘ کو اس کی کوئی فکر نہ تھی۔ وہ اپنی مستیوں اور خرمستیوں میں سرمست تھے۔ اسے کہا گیا کہ یہاں عام گھومنا پھرنا اپنی جان کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہے لیکن اس نے ایک نہ سنی۔ وہ اپنے وطن کے اِس حصے میں سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتا تھا اور جو کچھ وہ دیکھ رہا تھا‘ جو کچھ سُن رہا تھا‘ وہ چشم کشا بھی تھا اور روح فرسا بھی۔
زمینی حقائق اعلیٰ افسران کی بریفنگز سے بہت مختلف تھے‘ بالکل متضاد اور پھر سوال‘ جواب کا سلسلہ یہ کہہ کر ختم کر دیا جاتا کہ کھانا آپ کا انتظار کر رہا ہے۔ ہمارے پاس بنگالنیں بہت اچھا کھانا بناتی ہیں۔ وہ راج شاہی کے لیے پا بہ رکاب تھے کہ حکام نے اطلاع دی‘ وہاں کے وائس چانسلر بھاگ کر ڈھاکہ پہنچے ہوئے ہیں‘ مزید خطرہ مول نہ لیں۔ اس کا اصرار تھا‘ ہماری لاشیں مغربی پاکستان جائیں گی تو انہیں احساس ہو گا کہ مشرقی پاکستان میں آگ اور خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے۔ صرف ڈیڑھ ماہ بعد مشرقی پاکستان دنیا کے نقشے سے مٹ گیا‘ اب اس کی جگہ بنگلہ دیش تھا اور اِدھر بھٹو کا نیا پاکستان۔
اس نے دنیا کی سب سے بڑی مسلمان مملکت کو اپنی آنکھوں کے سامنے ٹوٹتے دیکھا تھا‘ اس بے خوف شخص کے دل و دماغ میں تب سے ایک خوف‘ ایک وہم سا بیٹھ گیا۔ آئین کی کارفرمائی اور سلطانیٔ جمہور کی عملداری اس کے نزدیک انسانی عزوشرف ہی کا تقاضا نہیں‘ مختلف نسلی و لسانی اکائیوں پر مشتمل پاکستان کے استحکام اور بقا کی ضمانت بھی ہے۔ اس کے لیے وہ سول آمریت سے بھی لڑا اور فوجی حکمرانی سے بھی۔ وہ کتنی بار جیل گیا‘ اس کے خلاف کتنے مقدمے بنے‘ اس کی تفصیل شاید اسے بھی یاد نہ ہو۔ نومبر 2003ء (مشرف ڈکٹیٹرشپ) میں اس کی گرفتاری کو اخبارات نے 30ویں گرفتاری لکھا تھا۔
پیرزادہ قاسم یاد آئے ؎
اک سزا اور اسیروں کو سنا دی جائے
یعنی اب جرمِ اسیری کی سزا دی جائے
نواز شریف جلاوطنی کے سفر پر روانہ ہوتے ہوئے‘ اپنا سیاسی اثاثہ‘ ڈکٹیٹر کی دست برد سے بچی کھچی مسلم لیگ ہاشمی کے سپرد کر گئے تھے اور اس نے اس امانت کا حق ادا کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ ڈکٹیٹرشپ کی کڑی دھوپ میں‘ جب میاں صاحب کے بہت سے جانثار سایۂ دیوار کی طرف لپک رہے تھے‘ ہاشمی نے تپتے ہوئے صحرا کا انتخاب کیا۔ یاد آیا‘ جس مشترکہ پریس کانفرنس میں‘ ایک ''باغیانہ‘‘ خط لہرانے پر ہاشمی کو غداری کے الزام میں 23 سال کی سزا ہوئی‘ اس میں جناب اعتزاز احسن اور لیاقت بلوچ بھی اس کے دائیں بائیں موجود تھے لیکن عتاب صرف ہاشمی پر ٹوٹا۔ یہ رتبۂ بلند ملا‘ جس کو مل گیا۔
بھٹو دور میں آتش جواں تھا۔ تب لاہور کی چونا منڈی اور شاہی قلعے کی اذیتیں‘ کڑکڑاتے جاڑے میں برف کا بستر اور اعصاب شکنی کے جملہ حربے بھی کچھ کم نہ تھے لیکن اب اس عمر میں وہ نانا بن چکا تھا‘ تین بار وفاقی وزیر رہ چکا تھا‘ زندگی کی نصف صدی سے زائد گزار چکا تھا‘ جب قویٰ مضحمل ہونے لگتے ہیں‘ لیکن جمہور کی حکمرانی کے لیے اس کی تڑپ میں کوئی کمی نہیں آئی تھی‘ 12 اکتوبر 1999ء کے بعد آزمائش کے نئے دور میں بھی اس کا بانکپن وہی تھا۔ وہی دشت نوردی‘ وہی پائوں‘ وہی خارِ مغیلاں... اب اس کے ہم سفروں میں خواجہ رفیق شہید کا جواں ہمت بیٹا بھی تھا۔ سرما کی ایک رات‘ لاہور میں ان کی ننگی پیٹھوں پر جو بید برسے‘ اسے سہہ جانا‘ انہی کا کام ہے یہ‘ جن کے حوصلے ہیں زیاد... میڈیا سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا‘ ہماری پیٹھوں پر حمودالرحمن کمشن رپورٹ لکھی گئی۔ (فوجی ڈکٹیٹرشپ کے دور میں اس فقرے کی اپنی معنویت تھی)
9 اکتوبر 2006ء کو سپریم کورٹ میں اس کی درخواست مسترد ہو گئی تھی لیکن اس پر اسے ملال کی بجائے یک گونہ آسودگی تھی۔ سید یوسف رضا گیلانی کی رہائی چند روز قبل عمل میں آئی تھی۔ اِن دنوں ڈکٹیٹر اور محترمہ کے درمیان سیاسی رابطوں کی خبریں زوروں پر تھیں؛ چنانچہ ''مردِ حُر‘‘ کی رہائی کی طرح‘ گیلانی صاحب کی رہائی کو بھی یار لوگوں نے ڈیل کے لیے ''سی بی ایم‘‘ کا نام دے دیا تھا۔ سپریم کورٹ سے درخواست مسترد ہونے پر ہاشمی کا کہنا تھا‘ میں اس پر بہت خوش ہوں۔ ''ڈیل‘‘ کی ہوائیں چل رہی ہیں‘ ہو سکتا تھا‘ بعض مہربان میرٹ پر میری رہائی کو بھی کسی ''ڈیل‘‘ کا شاخسانہ قرار دے دیتے۔
جیل کو اس نے ہمیشہ اپنا دوسرا گھر سمجھا۔ اس کی چالیس سالہ سیاسی جدوجہد کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے اس کے چاہنے والوں کو ایک اور بہانہ مل گیا تھا۔ جنوری 1966ء (ایوب آمریت) میں معاہدہ تاشقند کے خلاف تحریک میں وہ پہلی بار جیل گیا تھا۔ چالیس سال بعد‘ 2006ء میں وہ پھر جیل میں تھا۔ برصغیر کے سیاسی قیدیوں میں‘ شاید یہ ایک منفرد اعزاز تھا‘ جس پر ہاشمی کے قدر دانوں نے تقریبات کا اہتمام کیا۔
مشرف آمریت میں 6 سالہ قید و بند کے بعد‘ اگست 2007ء میں سپریم کورٹ کے حکم پر اس کی رہائی عمل میں آ گئی۔ اس میں سال بھر کا عرصہ اس نے راولپنڈی کی اڈیالہ جیل کے اس سیل میں گزارا جو گوانتانامو سے رہائی پانے والوں کے لیے مخصوص تھا۔ پھر اسے لاہور کی کوٹ لکھپت جیل منتقل کر دیا گیا۔ رہائی کے بعد زرداری صاحب کی لاہور آمد پر پیپلز پارٹی کے بہت سے کارکن بھی اسی جیل میں بند تھے۔ جیل میں اس نے کسی طور موبائل فون کا بندوبست کر لیا تھا جس پر وہ رات گئے دستیاب ہوتا۔ میں نے جدہ سے کال کی‘ ان دنوں تو خوب موج میلہ ہو گا۔ اس نے بتایا‘ میں تو قید تنہائی میں ہوں‘ اس سیل میں جہاں بھٹو کو رکھا گیا تھا لیکن اس کا فائدہ یہ ہے کہ لکھنے پڑھنے کا موقع مل جاتا ہے‘ تزکیۂ نفس کے لیے‘ اپنے محاسبے کے لیے‘ Soul Searching کے لیے۔ اسی موبائل پر ہاشمی کا میاں صاحب سے بھی جدے میں رابطہ رہتا۔ ہم بھی اپنی دفتری مصروفیات سے فرصت پا کر سرور پیلس آتے جاتے رہتے تھے۔ ہمیں یاد ہے‘ پاکستان میں مسلم لیگی قائدین میں بعض کے متعلق حرفِ شکایت پر میاں صاحب سو‘ سو طرح سے ہاشمی کی دل جوئی کرتے‘ کبھی کبھی یہ دل جوئی ناز برداری میں ڈھل جاتی۔ وہ نثار علی خان کو تاکید کرتے کہ جیل جائیں اور اپنے زیر حراست ساتھی سے ملاقات کریں۔ پارٹی قیادت کو میاں صاحب کی ہدایت تھی کہ میمونہ کو جاوید ہاشمی والا پروٹوکول دیا جائے۔ جاوید ہاشمی کی علیل اہلیہ اور ان کی صاحبزادیوں کی نیب کورٹ میں پیشی کی خبر اور تصویر پر میاں صاحب اپنی افسردگی چھپا نہ پائے تھے۔ 2005ء کے اوائل میں میمونہ عمرے پر آئیں تو میاں صاحب اور بیگم صاحبہ سے ملاقات کے لیے سرور پیلس بھی تشریف لائیں‘ جہاں ان کی پذیرائی اور محبت و الفت کا اظہار مریم اور اسما سے کم نہ تھا۔ جیل میں لکھی گئی ہاشمی کی پہلی کتاب ''ہاں میں باغی ہوں‘‘ کا مسودہ بھی میمونہ ساتھ لائی تھیں۔ تین صفحات پر مشتمل میاں صاحب کے تاثرات سے چند سطور: ''جاوید ہاشمی میرے اچھے اور بُرے دنوں کے ساتھی ہیں۔ میں اقتدار میں تھا‘ تب بھی اور عتاب میں تھا‘ تب بھی وہ میرے شانہ بشانہ رہے۔ سچی بات یہ ہے کہ میں نے اسے کبھی اقتدار کے لیے حریص نہ پایا۔ اس حوالے سے وہ اکثر بے رغبتی اور بے نیازی کا مظاہرہ کرتا۔ کابینہ کے اجلاسوں میں بھی وہ ہمیشہ اپنے دل کی بات کہتا۔ کسی مسئلے پر اختلاف ہوتا تو برملا اس کا اظہار کرتا۔ جسے درست سمجھتا‘ اس کے اظہار میں کبھی لکنت کا شکار نہ ہوتا۔ 12 اکتوبر کے بعد کی آزمائشیں اس نے جس خندہ پیشانی سے برداشت کیں‘ بلکہ زیادہ صحیح الفاظ میں اس نے ان آزمائشوں کو جس طرح خود دعوت دی اور ہزیمت کی بجائے عزیمت کا راستہ اختیار کیا‘ اس پر وہ ملک کی تمام جمہوری قوتوں کی طرف سے تشکر اور تحسین کا مستحق ہے۔ مجھے اس کی رفاقت پر ناز ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ ہم سب کے لیے فخر اور اعزاز کی علامت بن گیا ہے‘ مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں۔
"Javed Hashmi! Nawaz Sharif is proud of you, Muslim League is proud of you, Pakistan is proud of you"