ویسے تو ہر دور ہی میں تھوڑی بہت بے یقینی کی کیفیت ہوتی ہے مگر موجودہ دور میں بے یقینی کی صورتحال کچھ زیادہ ہی معلوم ہوتی ہے۔ اگر آپ دنیا کے بڑے بڑے اخباروں کے مبصرین کی آرا کا جائزہ لیں تو تب بھی آپ پر یہی تاثر مرتب ہو گا کہ کل کیا ہو جائے؟ کچھ کہا نہیں جا سکتا۔
مشرقِ وسطیٰ میں سیاسی طور پر جو اقدامات ہو رہے ہیں‘ وہ غیر متوقع ہونے کے ساتھ ساتھ مستقبل کی ناقابل فہم تصویر پیش کر رہے ہیں۔ شام میں حلب پر جس طرح قبضہ ہوا اور اس کے نتیجے میں مہاجرین جس بڑی تعداد میں اِدھر اُدھر پھیلے‘ یہ ایک ایسی المناک صورتحال ہے جس کا جتنا ماتم کیا جائے کم ہے۔ ترکی میں جو مہاجرین پہنچے‘ اُن کا احوال بیان نہیں ہو سکتا۔ ایک مفتی صاحب کا سمعی (Audio) پیغام میں نے وٹس ایپ پر سنا ہے۔ وہ صاحب ترکی میں ان مہاجرین کے حوالے سے کہتے ہیں کہ وہاں مہاجرین سے زیادہ انصار کی مدد کی ضرورت ہے۔ انصار سے ظاہر ہے اُن کی مراد ترکی کی حکومت ہے‘ جو ان لاتعداد مہاجرین کی دیکھ بھال تو کر رہی ہے‘ مگر مفتی صاحب کے بقول صورتحال یہ ہے کہ مہاجرین کو صرف زیتون کے تیل والی روٹیاں‘ جن میں چورن قسم کا کوئی مقامی مصالحہ شامل ہوتا ہے‘ مہیا کی جا رہی ہیں اور بس۔ اس پر بھی اخراجات اس قدر زیادہ ہیں کہ ان مہاجرین کی جس قدر مدد کی جائے کم ہے۔ اب خدشہ یہ ہے کہ Idlib کا بھی سقوط ہو گیا تو مہاجرین اور بھی بڑھ جائیں گے۔
جیسا کہ ہمارے باشعور قارئین کو معلوم ہے ترکی‘ مغرب کے نشانے پر ہے۔ فتح اللہ گولن کے ذریعے ترکی کی حکومت پر قبضہ تو نہ ہو سکا مگر اس بغاوت نے بظاہر ترکی کی کمر توڑ دی ہے۔ اس وقت ترکی کی کرنسی کی قدر تقریباً آدھی رہ گئی ہے۔ اس صورتحال میں صدر طیب اردوان کو ایک بے مثال بے یقینی کی کیفیت کا سامنا ہے۔
شروع میں معلوم ہوتا تھا کہ طیب اردوان اپنے آپ کو مضبوط کرنے کے لیے فتح اللہ گولن کے حامیوں کے خلاف بڑے پیمانے پر کریک ڈائون کر رہے ہیں مگر اب وہاں صورتحال اور بھی پیچیدہ ہو چکی ہے۔ گولن کے حامی اب بھی ترکی میں موجود ہیں اور وہاں حکومت مخالف کُرد بھی ہیں‘ لہٰذا اردوان کی طاقت ویسی نہیں ہے جیسی چند سال پہلے تھی۔
اِن حالات میں ترکی پر نظر ڈالیں تو سوائے بے یقینی کی کیفیت کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا۔
سعودی عرب میں ماضی میں بے یقینی کا نام و نشان نہیں تھا‘ لیکن اب یہ ملک اس قدر مسائل میں گھرا دکھائی دیتا ہے کہ کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ صرف یمن کا مسئلہ نہیں ہے‘ تیل کی قیمتیں کم ہونے سے معاشی مسائل پیدا ہو چکے ہیں۔ ایران کے ساتھ مخاصمت بھی کافی بڑھ چکی ہے اور امریکہ کے کبھی اِدھر کبھی اُدھر جانے کی پالیسی نے صورتحال اور بھی پیچیدہ کر رکھی ہے۔ سعودی عرب نے جو کثیرالملکی فوجی اتحاد بنا رکھا ہے وہ اپنی جگہ ایک مسئلہ ہے۔ اس اتحاد کا مستقبل کیا ہے؟ اسی طرح مصر کا بھی کچھ پتہ نہیں چلتا۔ صدر مرسی کے خلاف بغاوت کے بعد سعودی عرب نے اربوں ڈالر کی مدد دی مگر اب تعلقات میں بہت تبدیلی آ چکی ہے۔ مصر اب آئی ایم ایف سے امداد لے رہا ہے۔
عراق‘ لیبیا اور افغانستان تو پہلے ہی سے بے یقینی کی کیفیت کا مسلسل شکار ہیں۔ آج تک کسی مبصر کا تبصرہ ان ممالک کے بارے میں درست ثابت نہیں ہو سکا۔ افغان طالبان کیا کر گزریں گے کچھ معلوم نہیں۔ داعش کے پیچھے کون ہے؟ کچھ معلوم نہیں۔ القاعدہ کہاں ہے‘ کیا کر رہی ہے؟ کچھ معلوم نہیں۔ جب کوئی بڑا واقعہ ہوتا ہے تو تبصرے شروع ہو جاتے ہیں‘ جو چند دنوں بعد مزاحیہ کہانیاں معلوم ہوتے ہیں۔
یورپ اور امریکہ اپنے اپنے انداز میں اس عالمی بے یقینی کا شکار ہیں۔ پہلے Brexit والا معاملہ ہوا اور برطانیہ کے ووٹروں نے یورپی اتحاد میں دراڑ ڈال دی۔ یہ دراڑ اب ختم ہونے والی نہیں‘ بلکہ یہ ہر نئے دن کے ساتھ مزید بے یقینی کو جنم دے رہی ہے۔ ادھر امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ نے آ کر تو ایسی بے یقینی کی کیفیت پیدا کی ہے کہ امریکہ میں پورا پریس اب تک سنبھل نہیں پایا۔
رائے عامہ کے اندازے لگانے والے Pollster منہ چھپائے پھرتے ہیں اور امریکہ کی ڈیموکریٹک پارٹی کے بڑے بڑے لیڈروں کو پوری دنیا میں لوگوں نے براہ راست ٹی وی پروگراموں میں آنسوئوں سے روتے ہوئے دیکھا ہے۔ ہلری کلنٹن تو بیچاری لگتا ہے بالکل ختم ہو گئی ہے۔ امریکی عوام گزشتہ عشروں سے سوویت یونین اور بعدازاں روس کو اپنا دشمن سمجھتے چلے آ رہے ہیں۔ ایک دم سے حالات نے وہ پلٹا کھایا ہے کہ امریکہ کا منتخب صدر‘ روس کے صدر کا دوست ہو گیا ہے۔ چند دن بعد جب ڈونلڈ ٹرمپ صدرِ امریکہ کے عہدے کا حلف اٹھائیں گے تو کیا ہو گا‘ یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
اقوام متحدہ کو تبدیل کرنے کا ٹرمپ اعلان کر چکے ہیں۔ مراد اُن کی یہ تھی کہ اب وہ اقوام متحدہ کو اسرائیل کے خلاف کوئی قرارداد منظور نہیں کرنے دیں گے۔ مگر اس سے بھی زیادہ بے یقینی والی بات جو دیکھنے میں آئی وہ یہ تھی کہ اوباما انتظامیہ نے اسرائیل کے خلاف قرارداد ویٹو نہیں کی‘ انتہائی ناقابل یقین بات تھی۔ ایسا کبھی ماضی میں ہوا ہی نہیں۔
ٹرمپ ظاہر ہے سی آئی اے کو بھی سبق سکھائیں گے کیونکہ سی آئی اے ایسی رپورٹیں دے رہی ہے کہ روسی صدر پیوٹن نے ٹرمپ کو انتخاب جتوانے میں مدد دی ہے۔
پھر اوباما کی بعض پالیسیوں کو تو ٹرمپ پہلے دن میں ختم کرنے کا اعلان کر چکے ہیں۔ علاوہ ازیں میکسیکو سے غیر قانونی طور پر امریکہ آنے والوں کے خلاف دیوار بھی انہوں نے بنانی ہے۔ مسلمانوں کی مزید آمد کو بھی روکنا ہے اور جو موجود ہیں‘ اُن کی مکمل معلومات بھی رکھنا ہے اور اُن پر نظر بھی رکھنی ہے۔
اصل میں ان پالیسیوں کا نتیجہ کیا ہو گا؟ اس بارے میں پورے امریکہ میں بلکہ دنیا بھر میں ایک بے یقینی کی کیفیت موجود ہے۔ عوامی جمہوریہ چین بھی ٹرمپ کی وجہ سے گہری بے یقینی کا شکار ہو چکا ہے۔ چین‘ تائیوان کو اپنا حصہ سمجھتا ہے اور اس کی one china پالیسی سب کے علم میں ہے۔ ٹرمپ صاحب نے اس پالیسی کو تارپیڈو کر دیا ہے۔ چین ابھی تک اس ضمن میں سخت قسم کے بیانات ہی دے رہا ہے‘ مگر آگے کیا ہو گا اس بارے میں کچھ یقین سے نہیں کہا جا سکتا۔
پاکستان اور بھارت کے تعلقات کا ذکر میں نے قصداً نہیں کیا۔ ہم دونوں ملک تو دائمی بے یقینی کا شکار ہیں لیکن اب اپنے آپ کو چھوڑیں باقی دنیا کو دیکھیں۔ بے یقینی سے بھرپور آپ کو ایسے مناظر دکھائی دیں گے کہ آپ پاک بھارت کشیدگی بھول جائیں گے۔