ایسا لگتا ہے کہ حالات نے نریندر مودی کو یکسر حواس باختہ کردیا ہے۔ ایک طرف تو وہ معیشت کو سُدھارنے پر تُلے ہوئے ہیں اور دوسری طرف سفارتی محاذ پر ایسے الل ٹپ اقدامات کر رہے ہیں جن کے نتیجے میں صرف خرابیاں پیدا ہو رہی ہیں۔ مگر شاید قدرت نے اُنہیں اِسی ''مشن‘‘ پر بھیجا ہے کہ زیادہ سے زیادہ خرابیاں پیدا کریں۔ ع
پاؤں رکھتا ہوں کہیں ... اور کہیں پڑتا ہے!
والی کیفیت برپا ہے۔ جو کچھ دشمنوں سے نہ ہوسکا وہ اب نریندر مودی بھارت کے ساتھ کر رہے ہیں۔ اپوزیشن والے ٹھیک ہی کہتے ہیں کہ مودی کے ہوتے ہوئے بھارت کو کسی دشمن کی ضرورت نہیں۔
مودی سرکار نے ''نوٹ بدل سرکار‘‘ ہونے کا اعزاز حاصل کیا اور وہ بھی کچھ ایسے انوکھے انداز سے کہ بھارت واسیوں کی چیخیں نکل گئیں۔ کسی کی سمجھ میں اب تک نہیں آیا کہ نریندر مودی نے 500 اور 1000 کی مالیت والے کرنسی نوٹ کسی خوشی میں تبدیل کرائے ہیں۔ اگر معاملہ کالے دھن کو منظر عام پر لانے کا تھا تو عرض ہے کہ ایسا تو کچھ ہوا ہی نہیں۔ اگر مقصود صرف یہ تھا کہ عوام پریشان ہوں اور ان کی زندگی میں مزید عدم توازن پیدا ہو تو ماننا پڑے گا کہ مودی اور ان کے رفقاء کامیاب رہے۔ بھارت میں کروڑوں افراد اپنی جمع پونجی بینکوں کے ذریعے تبدیل کرانے کے عمل میں جس عذاب ناک مرحلے سے گزرے ہیں وہ واقعی اپنی مثال آپ تھا۔
آل انڈیا مینوفیکچررز آرگنائزیشن نے ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ 11 نومبر سے 31 دسمبر تک (یعنی پرانے کرنسی نوٹوں کے بدلے نئے نوٹ حاصل کرنے کی مہلت کے دوران) ملک بھر میں کاروباری سرگرمیاں خطرناک حد تک متاثر ہوئیں۔ ان پچاس دنوں میں ملک بھر کے کروڑوں افراد کو روزمرہ لین دین میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ دوسری طرف صنعتی اور تجارتی سرگرمیاں بھی مُضر اثرات سے محفوظ نہ رہ سکیں۔ درمیانے اور چھوٹے حجم کے صنعتی اداروں میں بہت کچھ داؤ پر لگ گیا۔ کسی کو کچھ ادا کرنا اور کسی سے کچھ وصول کرنا دونوں ہی معاملات عدم توازن کا شکار ہوئے۔ درمیانے اور چھوٹے حجم کے لاکھوں اداروں کو بیٹھے بٹھائے کساد بازاری کا سامنا کرنا پڑا۔ 35 فیصد سے زائد ملازمتیں ختم ہوگئیں۔ 50 فیصد سے زائد آمدن گھٹ گئی۔ حالات اتنے خراب ہوئے کہ اُن کے حقیقی اثرات کا درست اندازہ لگانے کے لیے آل انڈیا مینوفیکچررز آرگنائزیشن کو ایک ماہ میں تین مرتبہ اسٹڈی رپورٹ تیار کرانا پڑی۔ تیسری رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بہت بڑے صنعتی اور تجارتی اداروں نے تو کرنسی نوٹ کے بحران کا سامنا کسی نہ کسی طور کرلیا مگر چھوٹے اور درمیانے حجم کے اداروں میں سرگرمیاں بہت حد تک تھم کر رہ گئیں۔ اندازہ ہے کہ درمیانے اور چھوٹے حجم کے صنعتی اور تجارتی اداروں میں 40 فیصد سے بھی زائد ملازمتیں داؤ پر لگ گئیں۔ ملک بھر میں بے روزگاری کی ایسی لہر آئی جس کے بارے میں کسی نے سوچا بھی نہیں تھا اور جس کا کوئی جواز بھی نہیں تھا۔
نریندر مودی فخریہ بتایا کرتے ہیں کہ وہ چائے کا کھوکھا (کیبن) چلاتے تھے۔ چائے کا کھوکھا چلانے کی ذہنیت اُن کی کھوپڑی سے شاید اب تک نہیں نکل سکی۔ اُنہوں نے ایک ارب سے بھی زائد آبادی والے ملک کی معیشت کو بھی چائے کا کھوکھا سمجھ لیا! جس ملک میں آج بھی کم و بیش ساٹھ کروڑ افراد خطِ افلاس سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں وہاں نوٹ تبدیل کرنے کی مہم چلانا اور اِس کے لیے صرف پچاس دن کی مہلت دینا معاشی سطح پر قتلِ عام نہیں تو پھر کیا ہے؟
مسئلہ کیا ہے؟ صرف یہ کہ کسی نہ کسی طور خود کو بڑا ثابت کرنا ہے۔ اور یہ مسئلہ صرف نریندر مودی کا نہیں۔ بھارت کی سیاسی اور سفارتی قیادت اپنے ملک کو بڑا ثابت کرنے کی کوشش میں مصروف رہتی ہیں۔ بڑا بننا مشکل ضرور ہے، ناممکن نہیں۔ مگر اِس کے لیے بہت پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں۔ جن ممالک نے کچھ کر دکھایا ہے اُنہوں نے پہلے کچھ کر دکھانے کی صلاحیت اور سکت اپنے اندر پیدا کی۔ جب یہ معاملہ خیریت کے ساتھ انجام کو پہنچا تب اُنہوں نے بیرونی امور کی فضاؤں میں اونچی اڑان کا سوچا۔ تب کسی کے پاس یہ کہنے کی گنجائش نہ رہی کہ ع
تجھ کو پرائی کیا پڑی، اپنی نبیڑ تُو!
بھارتی قیادت نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ بہت بڑا بننا ہے تو پہلے اندرونی استحکام یقینی بنانا ہوگا۔ اِس مرحلے سے گزرنے کے بعد پڑوسیوں سے تعلقات بہتر رکھنا ہوں گے۔ خطے میں بھارت سب سے بڑا ملک ہے۔ یہ حقیقت اُس کی ذمہ داریاں مزید بڑھا دیتی ہے مگر اُس نے اب تک بڑا بن کر دکھایا ہے نہ ایسا کرنے کا بظاہر ارادہ رکھتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ بھارت کے معاملے میں خطے کے بیشتر ممالک کی متعدد شکایات ہیں۔ ملک بڑے حجم کا ہے تو ذمہ داریاں بھی بڑے حجم کی ہیں۔
اور اب نئے آرمی چیف جنرل بپن راوت نے دعوٰی کیا ہے کہ کچھ عرصہ قبل آزاد کشمیر میں سرجیکل اسٹرائیک کی گئی تھی! اِس دعوے کو غلط ثابت کرنے کے لیے ہمیں کچھ نہیں کرنا پڑے گا۔ کچھ ہی دن کی بات ہے، بھارت کے اعلٰی حلقوں میں سے کوئی اٹھے گا اور اپنے آرمی چیف کے دعوے کو محض بڑھک قرار دے بیٹھے گا۔ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے اور یہ جھوٹ بھی دو قدم چل کر منہ کے بل گر جائے گا۔
مسئلہ کیا ہے؟ صرف یہ کہ بھارتی قیادت بھرپور تیاری کے بغیر ملک کو بامِ عروج پر دیکھنا چاہتی ہے۔ بڑی طاقتوں کی دیکھا دیکھی ایسا بہت کیا جارہا ہے جس کے کرنے کی بھارت میں صلاحیت ہے نہ سکت۔ ایک طرف تو پچاس کروڑ سے زائد افراد پینے کے صاف پانی تک سے محروم ہیں اور دوسری طرف نئی دہلی کے بزرجمہر مریخ پر کمند ڈالنے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ ع
دامن کو ذرا دیکھ، ذرا بندِ قبا دیکھ!
بھارت کی فوج کو کسی بڑے کردار کے لیے تیار کیا جارہا ہے مگر یہ بڑا کردار ادا کرنے کی صلاحیت اور سکت میں اضافے کے حوالے سے کچھ نہیں سوچا جارہا۔ بارڈر سیکیورٹی فورس کے سپاہی تیج بہادر یادو نے فیس بک پر وڈیو اپ لوڈ کرکے بہت کچھ بے نقاب کردیا ہے۔ تیج بہادر کا کہنا ہے کہ اعلٰی افسران سپاہیوں کے حصے کی خوراک بھی بیچ ڈالتے ہیں۔ اس نے وڈیو کے ذریعے بتایا کہ اُسے اور دیگر سپاہیوں کو سرحد پر تعیناتی کے باوجود کس طرح کی خوراک دی جارہی ہے اور یہ کہ کبھی کبھی تو رات کو بھوکا سونا پڑتا ہے۔ تیج بہادر کا کہنا ہے کہ سچ کہنے کی پاداش میں اس کے خلاف کارروائی بھی کی جاسکتی ہے مگر اُسے پروا نہیں کیونکہ اوپر والوں کو بھی اُس کی پروا نہیں۔
تیج بہادر نے فیس بک کے ذریعے بہت کچھ بیان اور بھارتی فوج کے اعلٰی افسران کا چہرہ بے نقاب کردیا ہے۔ ایک طرف کنٹرول لائن سے ملحق علاقے یا آزاد کشمیر میں سرجیکل اسٹرائیک کے دعوے ہیں اور دوسری طرف سپاہیوں کے حصے کی خوراک بیچ کھانے والے فوجی افسران۔ اندازہ لگانے والے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ بھارتی فوج کہاں کھڑی ہے۔ جو حال سیاسی قیادت کا ہے وہی عسکری قیادت کا بھی ہے۔ ع
اِک شاخ کے ہم پھول ہیں، تم اور نہ ہم اور
امریکا کے بارے میں کہا جاتا ہے وہ بہت ہی تنگ سے اور سامان سے بھرے ہوئے کمرے میں بیٹھا ہوا کتا ہے۔ اگر دم بھی ہلائے تو کچھ نہ کچھ گر پڑتا ہے۔ مودی بھی اب اِسی روش پر گامزن ہونے کے خواہش مند ہیں۔ بھارت ایک چائنا شاپ ہے اور مودی اُس کے لیے بیل کا کردار ادا کرنے کی کوشش فرما رہے ہیں۔ ہماری دعا ہے کہ وہ ایسے تمام ارادوں میں کامیابی سے ہم کنار ہوں!