سعودی قیادت‘ وزیر اعظم پاکستان اور نیک نام جنرل راحیل شریف صورتِ حال کو پڑھ نہ سکے۔ سامنے کی اس حقیقت کو وہ پا نہ سکے کہ ہیرو نوکری نہیں کیا کرتا۔کچھ اور تدابیرکرنا ہوں گی۔
خواجہ آصف صاحب مکر گئے۔ خود ہی اعلان کیا کہ جنرل اسلامی اتحاد ی فوج کا سربراہ بننے والا ہے ۔ تازہ کلام یہ ہے کہ حکومت سے سرٹیفکیٹ ابھی حاصل نہیں کیا۔ کون سا سرٹیفکیٹ؟۔ نون لیگ کی وفاقی حکومت نواز شریف کا نام ہے۔ ان کی اجازت سے وہ ریاض گئے۔ نون لیگ کے باطن کی خبر رکھنے والے اخبار نویس کہتے ہیں کہ اب بھی وزیر اعظم کی حمایت انہیں حاصل ہے۔
ہنگامہ سینیٹ کے چیئرمین رضا ربانی نے اٹھایا۔خود ہی یہ فیصلہ وہ نہ کر سکتے تھے۔ اوّل یہ کہ پیپلز پارٹی کی قیادت ان کی پشت پہ کھڑی ہے۔ ثانیاً سینیٹ کے علاوہ بھی‘ اپنی موثر حمایت کی امید وہ رکھتے تھے۔ سعودی عرب اور ایران سے پاکستانی معاشرہ مختلف ہے۔ کثیر المسلکی ۔دوست ملک کی حیثیت سے سعودی عرب کا احترام بے حد ہے۔20لاکھ پاکستانی اسی دیار میں رزق پاتے ہیں۔ کچھ کم‘ خلیج کی ان ریاستوں میں‘ ریاض کا رسوخ جن پر گہرا ہے۔ زلزلے‘ طوفان اور آفات‘ ہر کڑے وقت میں ہمارے ساتھ وہ کھڑے ہوئے۔ 1999ء میں پاکستان نے ایٹمی دھماکے کئے تو پٹرول کی بڑی مقدار فراہم کرتے رہے۔
آصف علی زرداری پہ عربوں کے تحفظات تھے‘ کئی طرح کے تحفظات۔ اس دور میں‘ پاکستانی معیشت زبوں حال ہوئی تو شاہی خاندان نے جنرل اشفاق پرویز کیانی سے رابطہ کر کے ایک ارب ڈالر کی پیشکش کی؛ اگرچہ جنرل نے انکار کر دیا۔ وہ اپنا دامن صاف رکھنے کے آرزو مند تھے۔
میاں محمد نواز شریف نے اقتدار سنبھالا تو ڈیڑھ ارب ڈالر کی امداد آن پہنچی؛ اگرچہ جیسا کہ ان کا مزاج ہے‘ اسحق ڈار سے چھپانے کی کوشش کرتے رہے۔ اتنی بڑی رقم مگر چھپائی کیسے جا سکتی ہے ‘ جبکہ قومی بجٹ کا حصہ ہو۔
خرابی اسی سے جنم لیتی اور کبھی ناقابل اندمال ہو جاتی ہے۔ موقع پاتے ہی میاں محمد نواز شریف ایک بادشاہ کی طرح بروئے کار آنے کی کوشش کرتے ہیں۔یا فرض کو اٹھا رکھتے ہیں‘ جس طرح کہ فوجی عدالتوں کے معاملے میں۔ عسکری قیادت میں تبدیلیوں کے ہنگام ان کے ہاتھ کچھ مضبوط ہوئے تو من مانی کی کوشش کی۔ نتیجہ سامنے ہے۔ اگر ایران کو خاموشی سے اعتماد میں لیا ہوتا۔؟ وعدہ کیا جاتا کہ پاکستان اس کے خلاف کبھی استعمال نہ ہو گا۔ اگر ممتاز اپوزیشن لیڈروں کے ساتھ پہلے سے بات کر لی جاتی؟۔ کیا آصف علی زرداری کی مرضی و منشا کے خلاف‘ رضا ربانی ڈٹ کر کھڑے ہو سکتے ہیں؟۔
پاکستان بریلوی اکثریت ‘ شیعہ‘ دیو بندی اور اہلحدیث مسالک پر مشتمل آبادی کا وطن ہے۔ پھروہ نام نہاد سیکولر اور لبرل ہیں‘ جو تعداد میں کم ہیں لیکن شور بہت مچا سکتے ہیں۔ انگریزی اخبارات اور ٹی وی چینلوں میں وہ نمایاںہیں۔
شاید ایک اور طرح سے منصوبہ تشکیل دیا جا سکتا۔ قوم کو بتایا جاتا کہ یہ ایک عالمی اسلامی فوج کی ابتدا ہے۔ بعدازاں دوسرے ممالک بھی اس میں شامل ہو سکتے ہیں۔ معاملے کی نوعیت تب کچھ مختلف ہوتی۔ خاص طور پر‘ اس صورت میں کہ ترکوں کی اعلانیہ اور پرجوش حمایت اگر حاصل ہوسکتی۔ نازک فیصلوں کے لیے فضا ہموار کرنا پڑتی ہے۔ بند کمروں کے اقدامات کی پذیرائی کا امکان کم ہوتا ہے۔ معلوم نہیں‘ کہاں تک اس میں صداقت ہے کہ سوشل میڈیا پر96فیصد پیغامات مخالفت میں آئے۔ محض یہ کہہ کر‘ یہ دعویٰ مسترد نہیں کیا جا سکتا کہ کچھ خاص مسالک اور مکاتب فکر کے لیے لوگ‘ ایک شدت اور جنون کے ساتھ سرگرمِ عمل ہو گئے۔ آخر دوسرے لوگ بھی تو موجود ہیں۔ سعودی عرب سے والہانہ محبت کرنے والے ۔دل و جان سے نواز شریف کے حامی۔ وہ خاموش کیوں ہیں؟
ایک اور جہت سوچ بچار کی مستحق ہے۔ حال ہی میں ماسکو میں منعقد ہونے والا ‘ روس‘ چین اور پاکستان کا اجلاس۔ بنیادی طور پر یہ داعش کے بڑھتے پھیلتے خطرے پر غور کرنے کے لیے برپا ہوا۔ ڈیڑھ دو برس سے اس پر‘ روسی پریشان ہیں۔ تاجکستان کی حکومت کو بڑے پیمانے پر مالی امداد انہوں نے فراہم کی ہے۔ دہشت گردوں کے خلاف مسلسل وہاںآپریشن کئے گئے۔ عربی بولنے والوں کے علاوہ‘ جو ایک خاص مسلک سے تعلق رکھتے ہیں‘ داعش میںسب سے بڑی تعداد روسی بولنے والوں کی ہے‘ چیچنیا سے تعلق رکھنے والے‘ نمایاں ہیں۔ چین بھی متوّحش ہے کہ اس کے مغرب سے تعلق رکھنے والے یغور مسلمان ‘ افغانستان کی داعش میں شامل و شریک ہورہے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ القاعدہ اور طالبان سے نمٹنے کے خواہاں انکل سام کے علاوہ‘ بھارت کی حمایت اسے حاصل ہے۔ چین اور روس نے شاید اسی لیے طالبان کو امن مذاکرات کا حصہ بنانے کی حمایت کی۔
اس پس منظر کے ساتھ‘ ایران سے کیاثمر خیز رابطے کے امکانات نہ تھے‘ داعش کے حوالے سے‘ مستقبل کے خطرات سے وہ لرزاں ہے۔ عالم اسلام سے کٹا ہوا۔ سعودی عرب کا حریف اور دہشت گرد تنظیموں کی آنکھ میں کھٹکنے والا۔ اس پہلو کو ملحوظ رکھ کر وزیر اعظم ایران سے بات کرتے تو کیا امکانات کاایک نیا دروازہ کھل نہ سکتا تھا؟۔ظاہر ہے کہ آسانی سے نہیں۔ اس طرح کی مہمات مگر مشکلات کو ملحوظ رکھ کر ہی انجام دی جاتی ہیں۔ ایسے خطرناک مراحل میں ایک حکمت کار‘ سب سے پہلے مضمرات کو جانچتا ہے ۔ مخالفت کا طوفان‘ جہاں سے اٹھنے کا اندیشہ ہو‘ سب سے بڑھ کر‘ اسی کو رفع کرنے کی تدبیر کرتا ہے۔
فوج پیچھے ہٹ گئی ہے۔ وزیر اعظم کی وہ مزاحمت نہیں کرنا چاہتی۔ انہیں بتا دیا گیا ہے کہ اقتدار میں تبدیلی کا عمل‘ اگر انجام پایا تو آئینی طریقے سے پائے گا۔ وزیر اعظم کو وزارت خارجہ کے بہترین دماغوں کے علاوہ‘ وزیر دفاع اور جہاندیدہ مشیر خارجہ سے بات کرنا چاہیے تھی۔قابل اعتماد راوی یہ کہتے ہیں کہ مکمل طور پر اخفا سے کام لیا گیا۔ سوچھ سمجھ کر‘ عواقب و نتائج کا تخمینہ لگا کر فیصلہ کر لیا جائے تو ڈٹ کر اس کی حمایت کرنی چاہیے۔ قدم پھر پیچھے نہ ہٹانا چاہیے۔ پہلے مرحلے ہی میں حکومت پسپا ہو گئی۔ اب کیسے قدم آگے بڑھائے گی؟۔
سعودی عرب مشکلات میں گھرا ہے۔ ایران سے امریکی مراسم بہتر ہونے کے بعد‘ بلیک میلنگ کا شکار ہے۔ اس پر دبائو ہے کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات بہتر بنائے۔ اطلاعات یہ ہیں کہ کچھ پیش رفت بھی ہو گئی ہے۔ بعض خبریں توتشویشناک آئی ہیں؛ اگرچہ ابھی ان کی تصدیق نہیں ہو سکی۔ امریکہ بہادر پہ مکمل انحصار کے سنگین نتائج کا بہرحال سامنا ہے۔
پاکستانی فوج سے سعودی لیڈر شپ کے مراسم ہمیشہ پرتپاک رہے۔اس ہولناک اندیشے میں کسی وقت بھی جو متشکّل ہو سکتا ہے‘ دو ملکوںکی افواج ہی عربوں کی مدد کر سکتی ہیں‘ ترکی یا پاکستان۔ ترکوں سے سرد مہری ہے اور ایک تاریخی پس منظر رکھتی ہے۔ اصل خطرہ اسرائیل سے ہے ‘ گزری صدیوں میں اگرچہ ایران بھی حجاز کا خواب دیکھتا رہا۔ موصل کی ہولناک جنگ تاریخ کا حصہ ہے‘ جب عالم اسلام سے متعدد وفود استنبول پہنچے تھے۔ عثمانی ترکوں نے جب فیصلہ کن اقدام کیا تھا۔
سعودی عرب سے‘ پاکستان بے نیاز نہیں رہ سکتا۔ اس کا عدم استحکام‘ عالم اسلام کا عدم استحکام ہو گا۔ صہیونیوں کی نگاہ مدینہ منورہ پہ ہے‘ جہاں سے پامال اور رسوا کر کے وہ نکالے گئے تھے۔ آخر کار اپنی سرحدوں سے انہیں باہر نکلنا اور اس جنگ کا آغاز ہونا ہے‘ چودہ سو سال پہلے جس کی پیش گوئی کی گئی تھی۔ پاکستانیوں اور ترکوں کو‘ جس میں فیصلہ کن کردار ادا کرنا ہے۔ ''ارضی حقائق‘‘ کے مارے‘ زمین سے چمٹے رہنے والوں کی بات دوسری ہے۔ سامنے کا سوال یہ ہے کہ چودہ سو سال پہلے‘ کائنات کے سب سے سچے انسان نے‘ یہ خبر کیسے دی تھی۔ جن کے بارے میں اللہ کی کتاب یہ کہتی ہے کہ اپنی مرضی سے کبھی کچھ نہیں کہتے‘ فقط وہی بات جو ان پر اتاری جاتی ہے۔ کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ عالمِ اسلام کے رہنما‘ اس دن کے بارے میں غورو فکر کا آغاز کریں؟۔
سعودی قیادت‘ وزیر اعظم پاکستان اور نیک نام جنرل راحیل شریف صورتِ حال کو پڑھ نہ سکے۔ سامنے کی اس حقیقت کو وہ پا نہ سکے کہ ہیرو نوکری نہیں کیا کرتا۔کچھ اور تدابیر کرنا ہوں گی۔