تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     13-01-2017

ایک باپ کا دکھ....!

لکھنے بیٹھا تو کئی موضوع ذہن میں تھے۔ ابھی بیٹھا سوچ ہی رہا تھا کہ کس پر لکھا جائے کہ لاہور سے ایک صحافی آفتاب خٹک کا ٹیکسٹ میسج ملا ہے جس کے بعد ایک عجیب سی اداسی نے گرفت میں لے لیا۔کچھ نہیں لکھا جارہا ۔ انہوں نے لکھا، میرا بیٹا جس کے جگر کی تبدیلی کے لیے آپ کو کچھ دن پہلے میسج کیا تھا کہ ایک بھائی کی طرح کسی سے بات کر کے مدد کریں، وہ آج فوت ہوگیا ہے۔بیٹے حسنین کے لیے بہت بے عزتی برداشت کی۔ لکھتے ہیں ،آج اپنے بچے کے ساتھ میں بھی مرگیا ہوں ۔ ان کا چند دن پہلے میسج ملا تھا۔ وہ پشاور سے تعلق رکھتے ہیں۔ لاہور میں بیٹے کا علاج کرارہے ہیں ۔ بیٹے کا جگر فیل ہوگیا ہے اور ڈاکٹر فوری تبدیلی کے لیے چالیس لاکھ روپے مانگ رہے ہیں۔ شاید میں کسی سے بات کر کے مدد کراسکتا ہوں۔ ملاقات نہ ہونے کے باوجود میں نے پورا فرض محسوس کیا کہ انہوںنے اپنے بیٹے کی جان بچانے کے لیے مجھ سے مدد مانگی تو مجھے مدد کرنی چاہیے۔ اب میں خود کو بھی کسی حد تک ان کے بیٹے کی موت کا ذمہ دار سمجھ رہا ہوں کہ شاید میں نے زیادہ بھاگ دوڑ نہیں کی ۔میرا اپنا بیٹا ہوتا تو سب کچھ دائو پر لگا دیتا لیکن کسی اور کے بچے کا سوال تھا لہٰذا پیغام پڑھ کر سوچا چلیں کچھ کرتے ہیں!
یہ نہیں ہے میں اس پیغام کو بھول گیا تھا یا میں نے نظر انداز کیا تھا ۔ دو تین دن سے سوچ رہا تھا کس سے بات کروں؟ پہلے ڈاکٹر ظفرالطاف ہوتے تھے۔ ہم دونوں مل کر لوگوں کی مدد کر لیتے، وہ بھی اب نہیں رہے۔ شہر میں کسی اور سے ملنا بھی نہیں رہا۔ ان کے بعد کہیں جانے کو دل نہیں کرتا ۔ رہ سہہ کر اب میجر عامر رہ جاتے ہیں جن کے پاس چلا جاتا ہوں کیونکہ ان کے پاس بھی رازوں کا خزانہ ہے۔ بابر اعوان سے مل لیتا ہوں۔ ورنہ سارا دن گھر، کتابیں یا خبروں کی تلاش اور رات کو ٹی وی شو۔ جب آفتاب خٹک کا پیغام ملا تو میرے ذہن میں ایک ہی نام آیا کہ میجر عامر سے بات کروں۔ ان کی ملک ریاض سے اچھی دعا سلام ہے اور وہ اس طرح کے کام کرتے ہیں ۔ لیکن پھر یاد آیا ایک دفعہ فیصل آباد کے نوجوان ضیاء کے لیے بھی ملک ریاض نے گردوں کے ڈائلیسز کے لیے مدد کی تھی ‘وہ کچھ دن بعد فوت ہوگیا۔ اس کی موت بھی دکھی کر گئی تھی کیونکہ ضیاء ایک اچھا لڑکا ، دو چھوٹے بچوں کا باپ تھا۔خیر کسی پروگرام میں ملک صاحب کا ذکر کسی خبر کے حوالے سے کیا تو وہ ناراض ہوئے کہ ان سے مشکل میں گرفتار لوگوں کی مدد بھی کراتا ہوں اورخبر بھی کرتا ہوں ۔ 
اب بیٹھا سوچ رہا ہوں کیا میری انا نے مجھے میجر عامر سے بات نہیں کرنے دی کہ کہیں دوبارہ کسی مرحلے پر پروفیشنل ازم پر کمپرومائز نہ کرنا پڑے۔ یا طعنہ نہ سننا پڑے؟ تو کیا میری خودغرضی تھی دو تین دن سوچتا رہا کہ بات کروں یا نہ کروں اور آج ایک باپ کا پیغام ملا کہ بیٹا فوت ہوگیا تھا۔ کروڑ لیہ کے اپنے پرانے دوست بندو خان کی بچیوں کا پیغام ملا ہے کہ ان کے باپ کا جگر بھی ناکام ہوچکا ہے۔ ڈاکٹر جواب دے چکے ہیں۔ خیر ان بچیوں کو ابھی یہ نہیں پتہ کہ جگر کی پیوندکاری بھی ہوتی ہے اس لیے انہوں نے کبھی یہ نہیں کہا ان کے باپ کی جان بچانے کے لیے کسی کو کہہ کر چالیس لاکھ روپے ہسپتال کو ادا کر کے نیا جگر لگوادیں۔ اپنے گائوں کی حسینہ بی بی جو کینسر کا شکار تھی وہ بھی بے چاری زندہ نہ رہ سکی حالانکہ اس کے لیے بھی چند نیک لوگوں نے مدد کی تھی۔ لیہ کے ڈرائیو ر کے بچے بھی یتیم ہوئے۔ کوششیں کیں، رنگ نہ لائیں۔ لیکن مجھے دکھ ہے جو کوششیں حسینہ بی بی، ڈرائیور اور ضیاء کے لیے کی تھیں، وہ شاید میں آفتاب خٹک کے بیٹے کے لیے نہیں کرسکا۔ میرا خیال تھا کہ اتنی جلدی کچھ نہیں ہوگا اور کچھ کرتے ہیں ۔ شاید میں ٹال رہا تھا ممکن ہے آفتاب خود کوئی راستہ ڈھونڈ لے۔ یہ طویل راستہ اس کے بیٹے کو قبرستان لے گیا ۔ 
سوچ رہا ہوں خدا جنہیں اختیار، طاقت اور اقتدار دیتا ہے انہیں حساس دل دے کر ان کی زندگیاں بے قرار کیوں نہیں کردیتا۔؟کیا فرق پڑجاتا اگر نواز شریف لندن سے پی آئی اے کے خصوصی جہاز پر دو کروڑ تیس لاکھ روپے خرچ کرنے کی بجائے وہ پیسے بندو خان، آفتاب خٹک کے بیٹے جیسے لوگوں کے جگر کی پیوندکاری کے لیے رکھ چھوڑتے؟ کتنے نام گنواسکتا ہوں جن کے بیرون ملک علاج پر کروڑوں روپے نقد ڈالروں میں ادائیگیاں کی گئیں ۔ سابق صدر فاروق لغاری غریب تو نہیں تھے ان کے دل کے آپریشن پربھی ڈالروں میں ہمارے ٹیکسوں سے امریکہ علاج کے لیے ادائیگی کی گئی تھی ۔ سپیکر فہمیدہ مرزا نے ہمارے پیسوں سے تیس لاکھ روپے کا علاج امریکہ سے کرایا اور چوراسی کروڑ روپے بنک قرضہ بھی معاف کرایا ۔ زرداری نے فیصل صالح حیات کو خصوصی طیارے پر بلا کر ان سے حلف وفاداری لیا ۔ اس طیارے کے پیسے بھی شاید آفتاب خٹک کے بیٹے کی جان بچا سکتے تھے۔ ویسے فیصل صالح حیات سے یاد آیا اب پتہ نہیں یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف کیا محسوس کررہے ہوں جن کی کرپشن کے خلاف وہ سپریم کورٹ گئے اور راجہ رینٹل کا خطاب بھی دلوایا۔ زرداری نے جھوٹے منہ بھی اپنے دونوں سابق وزرائے اعظم سے نہیں پوچھا ہوگا کہ جناب آپ کیا فرماتے ہیں کیونکہ آپ دونوں کو کرپٹ کہلوانے میں جھنگ کے اس مخدوم نے بھی اپنا حصہ ڈالا ہوا ہے۔ عابدہ حسین کا بھی کچھ علم نہیں جو پیپلز پارٹی میں اس لیے شامل ہوگئی تھیں کہ جنرل مشرف نے ان کی جگہ فیصل صالح کو اہمیت دی تھی۔ اب پتہ نہیں عابدہ حسین پیپلز پارٹی سے کہاں جائیں گی یا پھر گیلانی اور راجہ پرویز اشرف کی طرح پرانی تنخواہ پر کام کریں گی۔ 
پچھلے دنوں دبئی میں اربوں روپوں کی جائیداد کی تفصیلات چھاپیں کہ کیسے پاکستان سے لوٹ مار کر کے وہاں پلازے اور فلیٹس خریدے گئے ہیں اور خریدنے والے سیاستدان، وزیر، اور سول ملٹری بیوروکریٹس ہیں۔ ان سب نے پاکستان سے مال بنایا ہے ایک ایسے ملک سے جہاں آفتاب خٹک اپنے بیٹے حسنین تو بندو خان کی بچیاں اپنے باپ کے جگر فیل ہونے پر دربدر ہورہی ہیں ۔ جب ملک کے وزیراعظم اور اس کے بچوں کی بیرون ملک اربوں کی جائیدادیں ہوں گی تو پھر خٹک کی مدد کہاں سے ہوگی ۔ رحمن ملک دور کی ایف آئی اے کی انکوائری رپورٹ پڑھ لیں کہ شریف خاندان نے کیسے منی لانڈرنگ کی تھی اور صرف ایک سال انیس سو اٹھاسی میں اس وقت 78 لاکھ ڈالرز کی منی لانڈرنگ کی گئی اور پیسہ پاکستان سے ہنڈی کے ذریعے باہر بھیجا گیا اور دوبارہ زرمبادلہ کے نام پر پاکستان بھیج کر اسے وائٹ کر لیا گیا ۔
شریف خاندان کی سکیورٹی پر آٹھ ارب روپے خرچ ہوچکے ہیں۔آفتاب خٹک کو صرف چالیس لاکھ روپے کی ضرورت تھی۔ ایک سابق وزیرداخلہ نے کرائسز سیل سے دو کروڑ روپے سیکرٹ فنڈ کے نکلوا کر اپنے پرائیویٹ سیکرٹری کو دلوا کر خود رکھ لیے۔ لندن میں اپنے گھر اور کاروبار کی دیکھ بھال کے لیے دو کروڑ روپے کی ٹکٹیں بھی اسی سیکرٹ فنڈز سے لیں۔ کسی کو تحفہ دینے کے لیے پنڈی کے جیولر سے زیورات بھی اس سیکرٹ فنڈ سے خریدے، اور تو اور شعیب سڈل کے پاس پوری کہانی موجود ہے کہ کیسے چالیس کروڑ روپے آئی بی کے سیکرٹ فنڈ سے نکلوا کر وہی وزیر صاحب ڈکار گئے۔ 
سندھ کے سابق گورنر عشرت العباد نے جس طرح اپنے بچوں کی شادی دوبئی میں کی اس کے بعد بندہ کس سے مدد کی اپیل کرتا؟ ایک گورنر کی کتنی تنخواہ ہوتی ہے؟ کل پرسوں ایک کالم نگار کی شادی کا کارڈ ملا تو میں اور عامر متین کارڈ کو دیکھ کر افسردہ ہوئے کہ واقعی لوگوں کے پاس کتنا پیسہ ہے کہ ایک کارڈ پر کم از کم تین سے چار ہزار روپے خرچ ہوں گے۔ ایسا کارڈ زندگی میں نہیں دیکھا ہوگا ۔ کیا ایسا ملک جہاں طیبہ بچی کو تین ہزار روپے پر جج کے گھر چوبیس گھنٹے کام کے علاوہ تشدد کا سامنا کرنا پڑے وہاں اس طرح شادی کارڈ پر لاکھوں روپے خرچ کرنا جائز ہے؟ بعض دفعہ مجھے لگتا ہے ہماری اشرافیہ کریمنل ہے۔ ایک دفعہ کراچی گیا تو دوست کے پاس ٹھہرا، اس کا ڈرائیور میرے پاس آیا بولا میں پانچ برس سے ان کے پاس ہوں، دس ہزار روپے ماہانہ ملتے ہیں۔ پچھلے دن کہا مہنگائی ہوگئی ہے، بچے سکول جانے کے قابل ہوگئے ہیں ایک ہزار روپے بڑھا دیں تو جواب دیا کوئی اور نوکری ڈھونڈ لو۔ اسی شام وہ دوست مجھے ایک ریسٹورنٹ لے گیا اور میرے سامنے اس نے پانچ ہزار روپے کا بل دیا ، مجھے لگا میں نے حرام کھایا ۔ بڑی دفعہ اس دوست نے کہا جب کراچی آیا کرو میرے عظیم الشان بنگلے پر ٹھہرا کرو، اس کے بعد کبھی فون پر بات تک نہیں کی۔ مجھے پانچ ہزار روپے کا کھانا کھلا دیا اپنے ڈرائیور کو ایک ہزار روپے دینے کو تیار نہیں۔میں سوشل ویب سائٹس پر گھریلو ملازموں کی ریسٹورنٹس میں اشرافیہ کے بچوں کے ساتھ تصویریں دیکھ کر سمجھتا تھا کہ شاید غلط ہوں، خود بچوں سمیت کھانے کھا رہے ہوتے ہیں اور وہ بچی منہ تک رہی ہوتی ہے۔ پچھلے دنوں خود اسلام آباد کے ایک ریسٹورنٹ اپنے بچوں کے ساتھ گیا تو یہی منظر دیکھا۔ خاصی اچھی فیملی لگ رہی تھی، سب کھا رہے تھے اور بچی کونے میںبیٹھی تک رہی تھی،جو ڈرائیور کی ایک ہزار روپے تنخواہ نہیں بڑھا سکتی، ایک بچی جو ان کے بچوں کا خیال رکھتی ہے اسے کھانا نہیں دے سکتی یا تشدد کرتی ہے اسے اشرافیہ نہیں مجرم کہنا چاہیے۔اشرافیہ نہ صرف ظالم ہے بلکہ کریمنل بھی ہے۔
خٹک صاحب سے معذرت کرنی تھی کہ ان کے بیٹے کے لیے وہ بھاگ دوڑ نہیں کر سکا جو میں اپنے بیٹے کے لیے کرتا ۔ میں سوچتا ہی رہ گیا ۔ ایک دکھی باپ کی تکلیف ایک باپ ہی سمجھ سکتا ہے۔ مجھے نہیں پتہ اپنے بیٹے کی زندگی بچانے کے لیے انہیں کس کس سے بے عزت ہونا پڑا ،کس کس در پر دستک دی۔ صبح سے دوپہر اور اب شام کے سائے ڈھلنے لگے ہیں لیکن اس سرد اور اداس موسم میں ایک باپ کا میسیج دل سے نہیں اتر رہا کہ اپنے بیٹے کی موت کے ساتھ میں بھی مرگیا ہوں ۔ ! 
ٹالسٹائی یاد آیا کہ سب سکھی گھر ایک جیسے ہوتے ہیں اور ہر دکھی گھر کی کہانی مختلف ہوتی ہے! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved