تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     13-01-2017

فوجی عدالتیں ،خصوصی عدالتیں اور اعلیٰ عدلیہ

نواز شریف انیس سو ستانوے میں دوسری بار پاکستان کے وزیراعظم بنے تو پنجاب میں فرقہ ورانہ دہشت گردی عروج پر پہنچنے کو تھی۔ تیرہ صدیوں سے ساتھ ساتھ رہنے والے مسلمانوں کے دو مختلف مکاتِب فکر نے اپنے اپنے خونخوار جتھے بنا رکھے تھے جو ایک دوسرے کے سرکردہ راہنماؤں کے ساتھ ساتھ ان پولیس افسروں کی گھات میں بھی رہتے جو ان کی دہشت گردی کی راہ میں رکاوٹ ڈال سکتے تھے۔ انیس سو ستانوے میں گوجرانوالہ میں اس وقت کے وزیرداخلہ چودھری شجاعت حسین کے برادرِ نسبتی ایس ایس پی اشرف مارتھ کا قتل بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا۔ پولیس اپنے طور پر جان توڑ کر ان دہشت گردوں کا مقابلہ کر رہی تھی مگر عدالتوں میں ان دہشت گردوں کو مختلف وجوہات کی بناء پر قرارواقعی سزانہیں مل پارہی تھی۔عدالتیں ضابطہء فوجداری اور قانونِ شہادت کے تانے بانے میں الجھی رہتی تھیں اور دہشت گرد بڑے آرام سے رہا ہوکراپنا کاروبار پھر سے شروع کردیتے تھے۔ اس صورتحال سے نکلنے کے دو راستے تھے، ایک پولیس مقابلہ اور دوسراکوئی نیا قانونی نظام۔حکومت نے ان دونوں راستوں پر بیک وقت چلنا شروع کردیا، فوری نتائج پولیس مقابلوں کے ذریعے حاصل ہونے لگے اورمستقل حل کے لیے دہشت گردی کے لیے نئے نظامِ انصاف کا ڈول ڈالا گیا۔حکومت نے بہت تیزی سے انسدادِ دہشت گردی کامسودہ تیار کیا اور اسے قومی اسمبلی میں پیش کردیا۔ اسمبلی میں اپوزیشن نے خوب شور مچایا لیکن حکومت نے اپنی غیرمعمولی اکثریت کے بل پر یہ قانون منظور کرا لیا اور انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالتیںوجود میں آگئیں۔ اس قانون کے حق اور خلاف جو کچھ کہا گیا وہ اپنی جگہ مگر ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ اس وقت اسمبلی میں ایک اپوزیشن رکن نے وزیراعظم نواز شریف کو مخاطب کرکے کہا، ''جناب وزیراعظم، یہ متوازی عدالتیں جو آپ بنانے جارہے ہیں ، ایک دن آپ کو خود ان میں پیش ہونا پڑے گا‘‘۔ اسمبلی میں کہا گیا یہ فقرہ صرف ڈھائی سال میں حقیقت بن گیا اور نواز شریف کراچی کی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں جنرل پرویزمشرف کا طیارہ اغوا کرنے کی سازش میں مجرم قرار پاگئے۔
انسدادِ دہشت گردی کی عدالتوں کے قیام کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ دہشت گردی کے مقدمات میں پولیس تیس دن کے اندر تفتیش کرے، عدالت سات دن میں فیصلہ سنائے، ہائیکورٹ کا سپیشل ٹریبیونل 15دن میں اپیل سنے اورسپریم کورٹ طے شدہ عرصے میں حتمی فیصلہ صادر کرکے کام ختم کرے۔ ان عدالتوں نے قانون میں دی گئی رفتار پر چلتے ہوئے لاہور کچہری میں بم دھماکے کے مجرم محرم علی کو سزائے موت سنادی ، لاہور ہائیکورٹ نے بھی وقت پر اپنا کام کرلیا اور سپریم کورٹ نے بھی اس کی اپیل تووقت پر نمٹا دی مگر اس اپیل میں اٹھائے گئے قانونی نکات کی ایسی تشریح کردی جس کے بعد عام عدالت اور انسدادِ دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں کوئی فرق ہی نہ رہا۔ رہی سہی کسر پولیس والوں نے نکال دی کہ عام نوعیت کے جرائم پر بھی دھڑا دھڑ انسدادِ دہشت گردی کے قانون کی دفعہ سات لگانا شروع کردی جس کی وجہ سے ان عدالتوں میں وقت کا زیاں دگنا اور کام کی 
رفتار آدھی ہوگئی ۔تحقیق ہے کہ دوہزار پانچ سے دوہزار دس کے دوران ان عدالتوں میں پیش ہونے والے مقدمات میں سے صرف ساڑھے چار فیصد مقدمات معروف معنوں میں دہشت گردی کے تھے اور باقی ساڑھے پچانوے فیصد میں کھینچ تان کر ہی دہشت گردی کی دفعہ لگائی گئی تھی۔ یہی سبب ہے کہ ان عدالتوں کاآدھا وقت یہ طے کرنے میں گزرجاتا ہے کہ مقدمہء زیرِ سماعت میں دہشت گردی کا ارتکاب ہوا بھی ہے یا نہیں۔ ظاہر ہے انسدادِ دہشت گردی کی خصوصی عدالتوں کا یہ حال ہو تو فوجی عدالتوں کا وجود میں آنا ناگزیر ہو جاتا ہے۔
دوہزار پندرہ میں دستوری ترمیم کے ذریعے فوجی عدالتوں کا قیام، انسدادِ دہشت گردی کی عدالتوں اور ہمارے نظامِ انصاف پر ایک بڑا سوالیہ نشان تھا۔فوجی عدالتوں کے عارضی بندوبست کے دوران دستور پسندوں کا خیال تھا کہ ہمارا نظامِ انصاف سنبھل جائے گا لیکن ہزار افسوس اور صد احترام کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ایسا نہیں ہوسکا۔ افسوس اس حکومت اور پارلیمنٹ پر جو فوجی عدالتیں بنانے کے لیے دستور میں ترمیم تو کرسکتی ہے مگرفوجداری قوانین کو بہترنہیں بنا سکتیں ، احترام بھراشکوہ صوبوں کی ہائیکورٹس سے جس کے ذمے ہمارے دستور کے آرٹیکل دوسو تین کے تحت براہ راست ذمہ داری ہے کہ وہ ماتحت عدلیہ پر نظر رکھیں گی اور کچھ زیادہ احترام بھری شکایت سپریم کورٹ سے جو دستور انتظامیہ اور عدلیہ کی علیحدگی کے بعد ملک بھر میں نظام انصاف کی واحدنگران ہے۔اعلیٰ عدالتی ایوانوں میں قانون کی عصری توضیح کی بجائے قدیمی تشریح پر زوراور ججوں کی حفاظت کے حد سے بڑھے ہوئے خیال نے نچلی عدالتوں میں ایسا ماحول پیدا کردیا ہے جس میں دلیرانہ فیصلے کرنا ممکن ہی نہیں رہا۔ پھر ہمیں اپنی عدالتوں سے مؤدب ہوکر پوچھنا ہے کہ ہمارے عدالتی نظام میں جج کی حفاظت پر غیر معمولی زور دینے کی بجائے انہیں بہادری اور اللہ پر بھروسے کا درس کیوں نہیں دیا جاتا؟ آخر ایسے شخص کو جج مقرر ہی کیوں کیا جاتا ہے جو فیصلہ کرتے ہوئے مجرم سے خوفزدہ ہوجاتا ہے ؟ معاف کیجیے گا، حفاظت ، حفاظت کا شور مچا کر ہم نے اپنے دستور کی خدمت نہیں کی بلکہ عوام کو خوف میں مبتلا کرکے فوجی عدالت کی کڑوی گولی ان کے حلق سے اتاری ہے۔ہم یہ بھی جاننا چاہتے ہیں کہ ہماری سپریم کورٹ فوجی عدالتوں کو گوارا کرلیتی ہے ، یہ بھی برداشت کرلیتی ہے کہ فوجی عدالت میں سزا پانے والے سے ہائیکورٹ میں اپیل کا حق لے لیا جائے تو انسدادِ دہشت گردی کی عدالتوں میں قانون کا فہم رکھنے والے پولیس اور فوج کے افسروں کو جج کے طور پر لگانے کی اجازت کیوں نہیں ملتی تاکہ اپنے قانونی نظام کے اندر رہتے ہوئے ہم دہشت گردی کا مقابلہ کرسکیں؟
فوجی عدالتوں کی پہلی بار تشکیل، پاکستان کے قانونی نظام پر ایک سوالیہ نشان تو تھی ہی اب ان کی توسیع پارلیمنٹ ، حکومت اور عدالتی نظام کی ناکامی کا واشگاف اعتراف ہے۔ اگر یہ توسیع ہوجاتی ہے تو پھر لوگ یہ پوچھنے میں حق بجانب ہوں گے کہ اگر فوجداری نظام کا بائی پاس کرکے جلد انصاف کا راستہ بنایا جاسکتا ہے تو پھر پاگل کردینے والے دیوانی نظام کو نظر انداز کرکے یہ معاملات بھی فوجی عدالتوں کے حوالے کیوں نہیں کردیے جاتے؟ اگر نا اہل پولیس کی جگہ فوج کو کام کرنا پڑتا ہے، خوف میں مبتلا منصفوں کی جگہ فوجیوں کو جج بننا پڑتا ہے تو پھر بددیانت محکمہ مال کی ذمہ داری بھی فوج کو کیوں نہ دی جائے تاکہ غریب آدمی پٹواری ، تحصیل دار اور ڈپٹی کمشنر کے جوتے کھانے کی بجائے عزت سے اپنا فیصلہ بروقت حاصل کرلے؟ ان سوالوں سے اگر حکومت اور عدلیہ کو بچنا ہے تو انہیں مل کر کچھ کرنا ہوگا۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ہرجرم کو دہشت گردی قرار دینے کی روش سے باز آئے اوردہشت گردی کے صرف وہی مقدمات انسدادِ دہشت گردی کی خصوصی عدالتوں میں بھیجے جائیں جن کی منظوری اعلیٰ سطح کے سول اور فوجی حکام مشترکہ طور پر دیں۔ عدلیہ کو سمجھنا ہوگا کہ جج صرف وکیلوں میں سے ہی نہیں بنتے بلکہ مخصوص حالات میں فوجی اور پولیس افسر بھی یہ کام کرسکتے ہیں۔ اس مشترکہ مقصد کے لیے حکومت کو انسدادِ دہشت گردی ایکٹ 1997ء کو اصل شکل میں بحال کرنا ہوگا اور عدلیہ کو محرم علی بنام وفاق مقدمے میں دیے ہوئے اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنا ہوگی۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو پھر ہمیں اپنے قانونی و دستوری نظام کی فاتحہ خوانی کا انتظام کرنا چاہیے کیونکہ دنیا میں ایسا کوئی دستور زیادہ دیر نہیں چل سکتا جو حکمران تو مسلط کر سکے مگر انصاف نہ دے سکے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved