جسٹس سعیدالزمان صدیقی دو ماہ سندھ کے گورنر رہ کر اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ انہیں اپنے نئے دفتر میں ایک دن بھی جم کر بیٹھنا نصیب نہ ہو سکا۔ محاورے کے مطابق تو گورنر کا عہدہ سنبھالا لیکن عملاً اسے سنبھالنا تو کیا تھا، تھام بھی نہیں پائے۔ جب یہ ذمہ داری قبول کی تھی تو شاید ان کو بھی اندازہ نہیں تھا کہ جو مرض لاحق ہوا ہے، وہ مرض الموت ثابت ہو گا۔ سمجھا یہی جا رہا تھا کہ سینے کی انفیکشن چند روز میں درست ہو جائے گی۔ لشٹم پشٹم حلف تو اٹھا لیا لیکن مزارِ قائد پر حاضری تک نہ دے سکے۔ ایک بار پھر ہسپتال داخل ہونا پڑا۔ اب اگرچہ گورنر ہائوس منتقل ہو چکے تھے اور دفتر میں جھانک بھی لیتے تھے لیکن طبیعت بحال نہ ہو پائی۔ یہاں تک کہ آخری وقت آ پہنچا۔ ان کی نماز جنازہ البتہ گورنر ہائوس میں پورے اعزاز کے ساتھ ادا ہوئی اور انہیں پورے پروٹوکول کے ساتھ سفر آخرت پر روانہ کر دیا گیا۔ ؎
موت اک ماندگی کا وقفہ ہے
یعنی، آگے چلیں گے دم لے کر
صدیقی صاحب نے کم و بیش 79 سال اس جہانِ رنگ و بو میں گزارے۔ لکھنو کے ایک سفید پوش گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔ ہجرت کی لذت سے آشنا ہو کر ڈھاکہ پہنچے، یہیں سے میٹرک کیا، کچھ دیر کچھ کام بھی کرتے رہے۔ پھر کراچی کا رخ کیا، قانون کی تعلیم حاصل کرکے پریکٹس شروع کر دی۔ وکالت میں نام پیدا کیا، سندھ ہائی کورٹ کے جج بنے، چیف جسٹس رہے۔ سپریم کورٹ میں رفعت پائی۔ پاکستان کے پندرہویں چیف جسٹس بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔ وہ قانون کے سانچے میں ڈھلے ہوئے تھے، ایک جج کے طور پر بھی اپنے آپ کو منوایا۔ جلد معاملے کی تہہ تک پہنچ جاتے اور کھٹ سے فیصلہ سنا دیتے۔ سپریم کورٹ میں ان کی زندگی ہنگامہ خیز رہی۔ جسٹس سجاد علی شاہ کو بے نظیر بھٹو کی
نگاہ انتخاب نے چیف جسٹس چنا تو وہ سینئر ترین جج نہیں تھے۔ اس وقت دستور میں قائم مقام چیف جسٹس کے لئے سنیارٹی کی شرط لکھی ہوئی بھی نہیں تھی۔ وزیر اعظم کو اختیار تھا کہ وہ کسی بھی جج کو چیف بنانے کا فیصلہ کرکے صدر کو لکھ بھیجے، گویا عدلیہ کا معاملہ بھی فوج کی طرح تھا۔ جسٹس سعد سعود جان کو نظر انداز کرکے سجاد علی شاہ پاکستانی عدلیہ کے سب سے بڑے منصب پر بٹھا ڈالے گئے۔ 1993ء میں صدر غلام اسحاق خان نے قومی اسمبلی تحلیل کرکے وزیر اعظم نواز شریف کو ایوان اقتدار سے نکال باہر کیا تھا تو وہ سپریم کورٹ میں درخواست گزار ہو گئے تھے۔ تاریخ میں پہلی بار کسی معزول وزیر اعظم نے براہ راست سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا‘ اور اپنی اسمبلی کی تحلیل کو دستور کی شق نمبر184 کے تحت بنیادی حقوق کی پامالی کا سوال بنایا تھا۔ جب وزیر اعظم جونیجو کے ساتھ صدر جنرل محمد ضیاء الحق نے یہ حرکت کی تھی تو نیم دلی کے ساتھ ان کا مقدمہ ہائی کورٹ کی سطح پر دائر کیا گیا تھا، جب تک وہ (بطور اپیل) سپریم کورٹ پہنچا، انتخابی مہم بہت آگے بڑھ چکی تھی اور جنرل مرزا اسلم بیگ کو سپریم کورٹ تک یہ پیغام پہنچانے کا حوصلہ بھی پیدا ہو چکا تھا کہ قومی مفاد کا تقاضا ہے اسمبلی بحال نہ ہونے پائے۔ یہ دلچسپ فیصلہ صادر ہوا کہ اسمبلی کی تحلیل تو غلط تھی لیکن اس کی بحالی درست نہیں ہو گی کہ یوم انتخاب قریب آ چکا ہے۔ 1990ء میں صدر غلام اسحاق نے یہی کھیل بے نظیر بھٹو کے ساتھ کھیلا تو اس وقت بھی فیصلہ بے نظیر بھٹو کے خلاف آیا۔
وزیر اعظم نواز شریف کی درخواست کی سماعت 11 رکنی فل کورٹ نے کی، جسٹس نسیم حسن شاہ اس کے سربراہ تھے۔ 10 ججوں نے قومی اسمبلی کی تحلیل کے خلاف فیصلہ دیا، لیکن گیارہویں سجاد علی شاہ نے ان کے خلاف رائے کا اظہار کیا اور اس طرح کی بات بھی لکھ ڈالی کہ سندھ سے تعلق رکھنے والی وزیر اعظم کے ساتھ انصاف نہیں کیا گیا تھا۔ اس پر شاہ صاحب محترمہ کے دل میں جگہ حاصل کر بیٹھے۔ وہ دوبارہ وزیر اعظم بنیں تو سپریم کورٹ کی سربراہی کا منصب خالی ہوا۔ انہوں نے شاہ صاحب کو جیالا سمجھ کر وہاں متمکن کر دیا۔ وہ اپنی ڈھب کے آدمی تھے۔ انہیں اقتدار اپنے سانچے میں نہیں ڈھال سکتا تھا۔ ان کی جلد ہی محترمہ اور ان کے شوہر نامدار سے ٹھن گئی۔ انہوں نے اپنی مرضی کی بھرتی اعلیٰ عدالتوں میں شروع کر دی، اس پر 1996ء میں جسٹس سجاد علی شاہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ نے وہ معرکۃ الآرا فیصلہ دیا جس کے تحت چیف جسٹس کی مشاورت کو بامعنی، بامقصد اور نتیجہ خیز بنا دیا گیا اور یوں وزیر اعظم کے ''اختیارات‘‘ سلب کر لئے گئے۔ بعدازاں جسٹس سجاد علی شاہ وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف صف آرا ہو گئے۔ انہوں نے اپنا نام ہی سپریم کورٹ رکھ لیا تھا۔ ایک دو جونیئر ججوں کو ساتھ ملا کر سینئر ججوں کو نظر انداز کرنے کی روش اپنا لی اور دستور کی دفعات تک کو کچی پیشیوں پر اڑایا جانے لگا۔ سپریم کورٹ کے ججوں کی اکثریت نے جسٹس صدیقی کی سربراہی میں سجاد علی شاہ کے خلاف بغاوت کر دی۔ سنیارٹی کا جو اصول ججز کیس میں سپریم کورٹ نے جسٹس شاہ کے زیر قیادت طے کیا تھا، اسے شاہ صاحب ہی پر لاگو کر دیا گیا۔ یوں تاریخ میں پہلی بار سپریم کورٹ کے ججوں نے اپنے ہی چیف جسٹس کو معزول کر دیا۔ جسٹس سعیدالزمان صدیقی اور ان کے رفقاء کا یہ فیصلہ اپنی انفرادیت کے باعث آج بھی دلچسپی کا سامان رکھتا ہے۔
جسٹس سجاد علی شاہ کی معزولی کے بعد سینئر ترین جج اجمل میاں چیف جسٹس بنے۔ ان کی ریٹائرمنٹ پر جسٹس سعیدالزمان صدیقی کے سر پر تاج رکھ دیا گیا۔ ان کے عہد ہی میں جنرل پرویز مشرف نے دوسری بار وزیر اعظم بننے والے نواز شریف کا تختہ الٹا۔ مسلم لیگی رہنما سید ظفر علی شاہ نے اس قدام کو چیلنج کر دیا۔ سپریم کورٹ میں سماعت کی نوبت ہی نہ آنے پائی تھی کہ جنرل مشرف نے شب خون مارا اور سعیدالزمان صدیقی کو گھر میں محصور کرکے سپریم کورٹ کا حلیہ بدل ڈالا۔ اس واردات سے چند روز پہلے راقم الحروف کو جسٹس صدیقی کی خدمت میں حاضر ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ معاملہ کچھ یوں تھا کہ ہمارا اخبار جنرل مشرف کے سامنے سرنگوں ہونے پر تیار نہیں تھا۔ ہمیں حکومت کے شدید دبائو کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ عزیزم عمر شامی نے تجویز دی کہ اخبار کی سالگرہ کی تقریب میں صدر مملکت رفیق تارڑ صاحب کو بطور مہمان خصوصی مدعو کر لیا جائے تو ارباب اختیار نفسیاتی دبائو میں آ جائیں گے اور ہمیں سنبھلنے کا موقع مل سکے گا۔ میں اسلام آباد میں تھا، تارڑ صاحب سے بالواسطہ رابطہ کیا گیا تو انہوں نے معذرت کا اظہار کر دیا کہ حالات کی بے یقینی اور سنگینی احتیاط کا تقاضا کر رہی تھی۔ اس پر
تجویز سامنے آئی کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سعیدالزمان
صدیقی صاحب کو دعوت دی جائے، شاید وہ تیار ہو جائیں اور ہمارا بھرم رہ جائے۔ جسٹس صدیقی کے دفتر فون کرکے ملاقات کے لئے وقت مانگ لیا گیا۔ میرے ان سے کوئی قریبی مراسم تو نہیں تھے، لیکن سجاد علی شاہ کی حرکات و سکنات پر بطور اخبار نویس میری نظر رہی تھی، ٹیلی ویژن اور اپنے ہفت روزے کے ذریعے میں شدت سے اپنی رائے کا اظہار کرتا رہا تھا، اس لئے صدیقی صاحب کی نگاہ سے اوجھل نہیں تھا... کچھ ہی دیر بعد ان کے سیکرٹری کا فون آیا اور اگلے روز بعد دوپہر کا وقت دے دیا گیا۔ ان کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض مدعا کیا تو انہوں نے یہ کہہ کر معذرت کر لی کہ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ جج حضرات اس طرح کی تقریبات میں شریک نہیں ہوں گے، اس کی خلاف ورزی ممکن نہیں۔ ان کی بات اصولی تھی۔ اس لئے اسے خوش دلی سے قبول کرنا پڑا۔ چائے کی پیالی پی کر اجازت طلب کر لی۔ اگلے روز اسلام آباد کے ایک موقر اخبار میں یہ خبر چھپی (یا چھپوائی گئی) کہ میں معزول وزیر اعظم نواز شریف کا خصوصی پیغام لے کر چیف جسٹس سے ملا ہوں۔ اس پر اقتدار کے ایوانوں میں کھلبلی مچ گئی اور چند ہی روز کے اندر پی سی او جاری کرکے ججوں سے نیا حلف لینے کا فیصلہ کر لیا گیا... صدیقی صاحب کو جب یہ جرنیلی پیغام پہنچایا گیا تو وہ اس کے لئے تیار نہیں تھے۔ نیا حلف اٹھانا دستور کے تحت اٹھائے گئے حلف کی خلاف ورزی تھا، جو ان کو قبول نہیں تھا۔ جرنیلی دبائو کے سامنے وہ ڈٹ کر کھڑے ہو گئے۔ اس پر انہیں گھر میں محصور کرکے مشرف بہ اطاعت ہونے والوں سے نیا حلف لے کر نئی سپریم کورٹ کی تشکیل کر ڈالی گئی۔
اس اقدام سے جسٹس صدیقی (اور ان کے رفقاء کہ سپریم کورٹ کے کئی سینئر جج ان کے ساتھ تھے) کا قد آسمان کو چھونے لگا، اور وہ ہر اس شخص کے دل میں گھر کر گئے جو دستور کی حاکمیت کو اولیت دیتا تھا۔ اس واقعے نے ان کے ساتھ تعلقات کی ایک مضبوط بنیاد فراہم کر دی... انہوں نے منصب کھو کر جو رفعت پائی تھی، وہ مجھے اس میں شراکت دار سمجھتے تھے، اور ہمیشہ پُرجوش مسکراہٹ سے ملتے تھے۔ 2008ء میں مسلم لیگ (ن) نے آصف علی زرداری صاحب کے مقابلے میں انہیں صدارتی امیدوار بنایا، لیکن 2013ء میں جناب ممنون حسین کو اس کا مستحق گردانا گیا... جب ہار یقینی تھی تو امیدواری کا ہار ان کو پہنا دیا گیا، جب جیت صاف نظر آ رہی تھی تو نگاہ کسی اور طرف اٹھ گئی... اس کی کچھ نہ کچھ خلش تو ان کو ہو گی اور کچھ نہ کچھ خلش وزیر اعظم نواز شریف اور صدر ممنون حسین کو بھی تھی کہ جب سندھ کی گورنری کا منصب خالی ہوا تو ان کا تقرر عمل میں لایا گیا۔ یہ ان کے لئے کوئی اعزاز نہیں تھا، لیکن اسلام آباد کا بوجھ ضرور ہلکا ہو گیا تھا۔...
[یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے۔]