تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     15-01-2017

کراچی سے ٹرمپ تک۔۔۔۔!

کراچی میں ہوں۔ عامر متین اور اکبر چوہدری ساتھ ہیں۔ اکبر چوہدری امریکہ سے آئے ہیں۔ اگرچہ وہ پچھلے چھ ماہ سے مجھے اور عامر متین کو امریکہ سے فون پر ایک ہی بات کر رہے تھے کہ ڈارلنگ صرف آپ سے ملنے آرہا ہوں، لیکن جب اسلام آباد پہنچے تو مشکل سے ایک ہی رات عامر متین کے گھر گزاری۔ میں نے صبح فون کیا تو پتا چلا وہ ایک اور پارٹی کے ساتھ اوکاڑہ نکل گئے ہیں۔ اب بارہ روز بعد واپس اسلام آباد پہنچے ہیں۔ جب وہ امریکہ سے اسلام آباد پہنچے تو وہ نیوایئر نائٹ تھی اور عامر متین کے ڈیرے پر دعوت تھی۔ 
عامر متین کا دل بڑا ہے اور جیب بھی۔ ڈاکٹر ظفر الطاف اور میجر عامر کی طرح ان کی میز پر چند لوگ نہ ہوں تو وہ بھی کھانا نہیں کھا سکتے۔ انور عزیز چوہدری صاحب بھی شکرگڑھ سے تشریف لائے ہوئے تھے، ان کی موجودگی میں محفل میں جان پڑ جاتی ہے۔ ان کے پاس بھی علم کا خزانہ ہے۔ شکر گڑھ کے اس سمجھدار گجر کی عمر چوراسی برس ہے، ہر زمانے کا رنگ ان پر چڑھا ہوا ہے۔ بھٹو صاحب سے لے کر جنرل ضیاء تک سب ادوار دیکھے ہیں اور اب بھی پیچھے بیٹھ کر تاریں ہلاتے رہتے ہیں۔ علاقے میں عزت ہے۔ بڑے چھوٹے، عورت مرد سبھی سے محبت اور پیار سے ملتے ہیں۔ اسلام آباد آئیں تو دوستوں کے لیے دیہاتی چیزیں ضرور لاتے ہیں۔ چوہدری انور عزیز کی ادب، تاریخ، فلاسفی اور سیاست پر گرفت ہے۔ کتنے خوبصورت انداز میں وہ میاں محمد بخش کا کلام مخصوص ترنم کے ساتھ سناتے ہیں۔ انہوں نے پنجابی شاعری بھی سنائی۔ وہ نیو ایئر نائٹ تھی۔ اکبر چوہدری کو موقع مل گیا،کہا ڈارلنگ دیکھو، لوگ لندن، دبئی اور نیویارک جاتے ہیں اور ایک میں ہوں کہ آپ لوگوں کی محبت میں یہاں نیو ایئر نائٹ کے لیے آگیا ہوں۔ سب متاثر ہوئے اوراکبر چوہدری صاحب کا سر فخر سے مزید بلند ہوگیا۔ عامر متین کے گھر دعوت ہو تو آسلام آباد کا ہر طرح کا کرائوڈ مل جاتا ہے۔ کچھ اچھے کھانے اور اچھی کمپنی کے چکر میں اورکچھ عامرمتین کے خوف کی وجہ سے آتے ہیں کیونکہ عامر کا یہ مسئلہ ہے کہ آپ اس اس کے دوست ہیں یا پھر نہیں اور بہتر ہے عامر متین آپ کا دوست ہو دشمن نہ ہو۔ ان کے گھر بعض تو ایسے لوگ بھی مل جاتے ہیں جن سے آپ نہیں ملنا چاہتے لیکن عامر متین کی وجہ سے انہیں برداشت کرنا پڑتا ہے۔ شاید وہ لوگ بھی میرے بارے میں یہی جذبات رکھتے ہوں اور وہ بھی مجھے وہاں برداشت ہی کرتے ہوں۔ 
ارشد شریف کے بارے میں عامر متین کا جملہ بہت مشہور ہے کہ وہ کسی بھی محفل میں گھنٹوں خاموش بیٹھ کر ہر طرح کی باتیں سنتا رہتا ہے۔ مجال ہے کہ وہ سر ہلائے یا ہوں ہاں کرنے کے علاوہ کوئی بات کرے۔ ارشد شریف لوگوں کو گھنٹوں چپ چاپ سننے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان کی اس خوبی پر رشک آتا ہے۔ لیکن جونہی ارشد شریف سٹوڈیو میں کیمرے کے سامنے آتے ہیں تو ان میں ایسی انرجی بھر جاتی ہے کہ وہ پھر کسی کے قابو میں نہیں آتے اور پہچانے نہیں جاتے۔ عامر متین کہتے ہیں کہ ارشد شریف ایک سمجھدار اور پروفیشنل انسان بن گئے ہیں۔ اب وہ لفظ ضائع نہیں کرتے، ایک ایک لفظ کی قیمت وصول کرتے ہیں۔کیمرے کے سامنے وہ بولتے ہیں اور بہت خوبصورت بولتے ہیں۔ 
ہما علی اس نیو ایئر پارٹی میں نہیں تھے۔ ان کے ساتھ اپنا بہت پرانا رومانس ہے۔ کیا خوبصورت انسان ہیں۔ سوا چھ فٹ قد کا خوبصورت انسان! وہ ان چند لوگوں میں سے ہیں جنہیں تھوڑا سا موٹاپا اچھا لگتا ہے۔ طویل قامت ہونے کی وجہ سے وہ موٹے نہیں لگتے۔ درمیان میں ہما علی نے سمارٹ ہونے کی کوشش کی اور ہو بھی گئے، لیکن میں ان کے پیروں میں گر گیا کہ شاہ جی آپ کس چکر میں پڑگئے ہیں۔ شاہ جی نے میری لاج رکھ لی اور دوبارہ ان کی پرانی خوبصورتی لوٹ آئی۔ 
عامر متین کے گھر جائیں تو ہما علی آنکھیں موند کر دھیمی رومانوی روشنی میں خاموشی سے لاطینی میوزک سن رہے ہوتے ہیں۔ اُس وقت وہ سری نگر سے آکر لاہور میں رچ بس جانے والے کشمیری نہیں لگتے، بلکہ اٹلی مافیا کے کوئی ڈان لگتے ہیں۔ اس وقت وہ کسی اور دنیا کے انسان لگتے ہیں۔ آپ انہیں بلانے کی کوشش کریں تو نیم وا آنکھوں سے آپ کو محبت سے گھورتے ہیں اور ہونٹوں پر انگلی رکھ کر اشارہ کرتے ہیں کہ کتنے بدتہذیب ہو کہ میوزک انجوائے کرنے کی بجائے شور کرنے لگے ہو۔
ہما علی ہر ایک کو پیار سے ڈارلنگ یا مائی لو کہتے ہیں۔ اپنے دور میں وہ لاہور کی صحافت کے بادشاہ مانے جاتے تھے۔ وہ 1990ء کی دہائی میں پریس کلب لاہور کے کئی بار صدر رہے۔ ایک دن وہ خود تھک گئے، بھریا میلہ چھوڑ دیا اور چپکے سے لاہور چھوڑ کر اسلام آباد آ بسے۔ ان کی شخصیت میں ایک عجیب کشش ہے۔ ہر وقت لاطینی میوزک میں کھوئے رہیں گے۔ پچھلے برس لاہور پریس کلب کے گروپس میں اختلافات پیدا ہوگئے۔ کلب کے کچھ بڑوں نے ہما علی سے کہا، شاہ جی آپ ہی کچھ کریں۔ وہ ٹھہرے من موجی، دوسرے ان برسوں میں ایک نئی نسل صحافت میں آگئی ہے۔ ہما علی کچھ ہچکچاہٹ کا شکار تھے۔ عامر متین نے کہا شاہ جی چلے جائیں۔ لاہور پریس کلب سے ان سب کا رومانس تھا۔ ہما علی گئے اور انتخابی کمیٹی کا چارج سنبھالا۔ بڑے اچھے انتخابات ہوئے۔ گڑبڑ نہیں ہوئی۔ شاہ جی ایک طرف پرانے دوستوں کے ساتھ بیٹھ کر اپنے محبوب انداز میں سگریٹ پیتے رہے۔ الیکشن ختم ہوئے تو دوسرے دن پھر اسلام آباد میں رات کو آنکھیں بند کیے لاطینی میوزک سن رہے تھے۔ 
خیر کراچی آنے کی بات ہورہی تھی۔ کراچی سے معذرت کے ساتھ، اس شہر میں آنا اور ٹھہرنا کبھی ترجیحات میں نہیں رہا۔ لیکن ایک ایسی شادی تھی جس کے لیے مجھے اور عامر متین کو آنا تھا۔ انکار کی کوشش کی لیکن گنجائش نہ نکل سکی۔ اکبر چوہدری اسی رات اوکاڑہ، ملتان اور لاہور پھرنے کے بعد لوٹے تھے، انہیں بھی ساتھ لے لیا کہ چلیں کراچی میں کمپنی رہے گی۔ 
کراچی سے دشمنی نہیں بلکہ شکیل عادل زادہ جیسے لوگوں کی وجہ سے یہ شہر پیارا لگتا ہے، لیکن جو حشر کراچی کا کردیا گیا ہے اس کے بعد یہاں آنے کے لیے کئی دفعہ سوچنا پڑتا ہے۔ کراچی شہر کی گندگی ایئرپورٹ سے باہر نکلتے ہی آپ کا استقبال کرتی ہے۔ شاید اسلام آباد سے جانے کا اثر ہوتا ہے کہ لگتا ہے آپ کسی اور جہان میں پہنچ گئے ہیں۔ ایئرپورٹ کے بعد سڑکوں پر جو گندگی دیکھی الامان والحفیظ! اس کی اذیت کراچی کے شہری سہتے ہیں۔ ایک چوک کا نام پرفیوم چوک پڑھ کر ہم سب مسکرا دیے کیونکہ سب سے زیادہ بدبو اسی چوک سے اٹھ رہی تھی۔ پہلے ایم کیو ایم نے جنرل مشرف کے ساتھ مل کر راج کیا۔ اب پیپلز پارٹی کے آٹھ برس کی باری لے رہی ہے۔ پیپلزپارٹی نے سندھ پر آٹھ برس حکومت کرکے جو حشر اس شہر کا کیا ہے اس پر بہت تکلیف ہوتی ہے۔ دس ہزار سے زیادہ افراد پچھلے چند برسوں میں کراچی میں مارے گئے۔ اگرچہ آپریشن کے بعد صورت حال بہت بدل گئی ہے لیکن شہر کی جو حالت ہو چکی ہے اسے دیکھنے کے بعد میں نے عامر متین سے کہا، لگتا ہے سولہویں صدی کا ہندوستان بھی اس شہر سے بہتر ہوگا۔ لگتا ہے جو شہر پورے ملک کی شہ رگ سمجھا جاتا تھا اسے سب نے لوٹ مار اور قتل و غارت کے لیے استعمال کیا ہے۔ لاشیں گرتی رہیں اور یہاں سے دولت لوٹ کر دبئی میں جائیدادیں بنالی گئیں۔ اب بھی جو پیسہ کراچی اور سندھ کے دیگر شہروں پر لگنا تھا وہ دبئی میں لگ رہا ہے۔ لگتا ہے پیپلز پارٹی نے کراچی کو ترک کر دیا ہے اور اسے بہتر کرنے کی بجائے دبئی کو ہی سندھ کا دارالخلافہ بنا دیا ہے۔ ذوالفقار مرزا نے سب کو ننگا کیا کہ کس کس نے اس صوبے اور شہر کو لوٹا۔کراچی جو روشنیوں کا شہر تھا اس کا نُور بیچ کر دبئی میں رنگ لگائے گئے۔ اس وقت تقریباً ہر دوسرے وزیر کا دبئی میں محل ہے۔ یہ لوگ سارا پیسہ لوٹ کر دبئی لے گئے ہیں۔ جو پیسہ کراچی پر خرچ ہونا تھا وہ دبئی اور لندن لے گئے۔ ایم کیو ایم کراچی کا پیسہ لندن بھیجتی رہی تو پیپلز پارٹی دبئی لے گئی۔ 
سندھ کے نوجوان سیاسی ورکر اور سولہ اہم کتابوں کے مصنف ذوالفقار ہالیپوٹو سے کراچی اور سندھ کی سیاست پر کئی گھنٹے بات چیت ہوئی۔کیا ذہین انسان ہیں، لیکن حیران ہوتا ہوں کہ ایسے سندھی نوجوانوں کے لیے صوبے کے لوگوں میں کوئی قدر نہیں۔ یا پھر وہی بات کہ پانچ سال زرداری اور پیپلز پارٹی کو برا بھلا کہتے رہیں گے لیکن ووٹ کے دن وہ ٹھپہ تیر پر لگائیں گے۔ معذرت کے ساتھ، سندھیوں کے نزدیک کرپشن اور لوٹ مار کوئی ایشو نہیں۔ بھٹو کی قبر کے نام پر ووٹ آج بھی مل رہا ہے تو پھر پیپلز پارٹی کیوں لوٹ مار نہ کرے اور کیوں محنت کرے۔ ذوالفقار ہالیپوٹو سے گھنٹوں کی گفتگو سے لگتا ہے کہ سندھ میں کوئی جلد تبدیلی نہیں آنیوالی کیونکہ تحریک انصاف کراچی اور اندورن سندھ میں اس خلا کو پر کرنے کی کوشش نہیں کر پائی جوکرنی چاہیے تھی۔ عمران خان کو ذوالفقار ہالیپوٹو جیسے سمجھدار سندھی نوجوانوں کی مزید حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔
اسلام آباد واپسی کے لیے ایئرپورٹ کی طرف جا رہے ہیں۔ شہر میں جاری بارش نے سب کو مزید ایکسپوز کردیا ہے۔ شہر مزید خراب لگ رہا ہے۔ اکبر چوہدری کو فکر ہے کہ کہیں ان کی امریکہ واپسی کے لئے اسلام آباد سے اتوار کی صبح کی فلائٹ مس نہ ہوجائے۔ ان کی پریشانی دیکھ کر لگ رہا ہے کہ وہ ہر قیمت پر ٹرمپ کی بیس جنوری کی حلف برداری سے پہلے امریکہ پہنچنا چاہتے ہیںکہ کیا پتا وہ وائٹ ہائوس پہنچ کر پہلا حکم یہ نہ جاری کردیں کہ جو پاکستان رہ گیا اسے واپس مت آنے دیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved