تحریر : انجم نیاز تاریخ اشاعت     15-01-2017

پاکستانی جڑیں اور امریکی طرزِ معاشرت

ڈاکٹر خالد رحمن اور ان کی اہلیہ صبیحہ کوئی چوالیس برس قبل امریکہ گئے تھے۔ صبیحہ رحمٰن کہتی ہیں کہ وہ اپنی بیاہتا زندگی کے پہلے ہی روز اپنے شوہر کی محبت میں گرفتار ہو گئی تھیں، لہٰذا سامان باندھ کے وہ ان کے ساتھ امریکہ سدھارگئیں۔ ان کا خیال تھا کہ دوسالہ میڈیکل ریزیڈنسی ختم ہوتے ہی وہ پاکستان واپس لوٹ آئیںگی، لیکن آج چوالیس سال گزرنے کے بعد بھی وہ دونوں وہیں نیویارک میں مقیم ہیں۔ یہ شہر ان کو اب بے حد عزیز بھی ہے اور اسے یہ دونوں اپنا گھر کہہ کر پکارتے ہیں۔ 
صبیحہ رحمٰن نے امریکہ کے ساتھ اپنی محبت کی داستان اپنی کتاب Threading My Prayer Rug میں بڑے دلکش انداز میں رقم کی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ امریکہ کے لئے ان کی محبت پہلے احترام میں اور پھر ایک گہرے رشتے میں تبدیل ہوئی اور امریکہ کے باسی بھی ان کے لئے ''یہ امریکی لوگ‘‘ نہیں رہے بلکہ ''ہمارے امریکی ہم وطن‘‘ بن گئے۔ ان کی شادی نومبر 1971ء میں ہوئی تھی جب ان کی عمر بیس سال تھی۔ اپنی منگنی کی کہانی بھی انہوں نے کچھ ایسی معصومانہ دلکشی کے ساتھ بیان کی ہے کہ پڑھنے والا فی الفور خود کو ان کا قریبی دوست محسوس کرنے لگتا ہے۔ منگنی کے بعد ایک دن ان کے منگیتر نے امریکہ سے ان کے گھر ایک کارڈ بھیجا تھا۔ یہ کارڈ پورے خاندان میں ایک ہیجان برپا کر گیا۔اسے بڑے چائو سے آتش دان کے اوپر سجا دیاگیا تھا۔ شام ہوتے ہوتے شہر میں موجود ان کے تمام رشتہ دار اس کارڈ کی ''زیارت‘‘ کے لئے ان کے گھر پہنچ چکے تھے۔صبیحہ کو پیار سے بِیا کہا جاتا ہے۔ اپنی کتاب میں انہوں نے اپنی منگنی اور پھر شادی کی بھی کہانی بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کی ہے۔ اس زمانے میں ان کے والد فوج میں لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے پہ فائز تھے اور ان کی تعیناتی ان دنوں راولپنڈی میں تھی۔1971ء کی پاک بھارت جنگ چھڑنے ہی والی تھی۔ نیویارک جانے والی پین ایم کی جس پرواز میں یہ نیا نویلا شادی شدہ جوڑا ملک سے رخصت ہوا وہ یہاں سے جانے والی آخری پرواز تھی۔ امریکہ میں قدم رکھتے ہی انہیں شدید ثقافتی جھٹکے کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کے شوہرکے ایک کولیگ کی امریکن منگیتر نے جب ''ہائے‘‘ کہتے ہوئے ان کا خیر مقدم کیا تو جواباً وہ صرف ''ہیلو‘‘ ہی کہہ پائیں۔ پاکستان میں چونکہ انگریزی کے برطانوی لہجے کو رواج حاصل تھا اس لئے ''ہائے‘‘ انہیںکچھ زیادہ ہی امریکیت رکھنے والا لفظ محسوس ہوا۔ پھر انہیں معلوم ہوا کہ ان کے شوہرکے ایک پاکستانی کولیگ ہیں جن کی گرل فرینڈ اور ان کا بستر ایک ہی ہے۔ اس پہ وہ بہت ناراض ہوئی اور اپنے شوہر سے انہوں نے کہا کہ آخر ان کا کولیگ کیسے ایسا ہو سکتا ہے؟ پاکستانی لڑکے ایسا کچھ نہیں کر سکتے کیونکہ یہ تو ہماری ثقافت سے بغاوت ہے۔ ان کا خیال تھا کہ جب اچھے خاصے سمجھدار پاکستانی لڑکے یہاں آکر یوں بگڑ سکتے ہیں تو پھر ایسے ماحول میں وہ اپنے بچوں کی پرورش کیسے کر سکیں گی؟ معمر اور ضعیف افراد کے لئے الگ بنائی گئی اقامت گاہیں دیکھ کر انہیں رونا آگیا تھا۔ انہوں نے اپنے شوہر سے کہا کہ اس ملک میں وہ بوڑھی نہیں ہونا چاہتیں۔ اگر انہیں کینسر ہوا اور وہ اکیلی اپنے نیویارک والے اپارٹمنٹ میں رہتی ہوں تو پھر کیا ہوگا؟ پاکستان میں وہ ایک سیکولر گھرانے میں پلی بڑھی تھیں لیکن اب اپنے وجیہ و شکیل شوہرکے ساتھ ایک نئے وطن میں زندگی گزارتے ہوئے مذہب ان کے لئے اہمیت اختیارکر رہا تھا۔ جب ان کا پہلا بچہ ہونے والا تھا تو انہوں نے اپنی والدہ کے کہنے پہ قرآن پاک کا ایک نسخہ خریدا اور باقاعدگی سے تلاوت شروع کی۔ پھر رفتہ رفتہ مذہب ہی ان کے لئے ایک حقیقی طاقت بن گیا۔ امریکہ میں عید آئی تو ان کے قریب کوئی مسجد نہیں تھی؛ چنانچہ عید کی نماز پڑھنے انہیں ٹائم سکوائر میں واقع امیریکانہ ہوٹل جانا پڑا جسے اب شیریٹن کہا جاتا ہے۔
وقت گزرتا گیا اور ان کے دونوں بیٹے ثاقب اور عاصم بڑے ہونے لگے۔کرسمس کے تہوار کے موقع پہ ان لڑکوں نے کرسمس ٹری کی فرمائش کی جو دونوں میاں بیوی نے اپنی تمام تر امریکیت کے باوجود رد کر دی۔ صبیحہ رحمٰن نے بعد ازاں دو سالہ ہیلتھ سروسز ایڈمنسٹریشن کا کور س مکمل کرنے کے بعد ملازمت شروع کی جس پہ ان کی والدہ کو سخت اعتراض تھا کیونکہ وہ چاہتی تھیں کہ ان کی بیٹی گھریلو بیوی بن کر رہے۔ ان کے کام کا لباس بھی ان کی والدہ کو برانگیختہ کرنے کے لئے کافی تھا۔ انہیںکام پہ سکرٹ پہننا پڑتی تھی۔ پاکستانی کمیونٹی کی دیگر خواتین بھی انہیں سختی سے سکرٹ پہننے سے روکتی تھیں۔ یہی وہ وقت تھا جب وہ ایک دوہری زندگی آغاز کرنے پہ مجبور ہوئیں۔ پاکستانی تقریبات میں وہ شلوار قمیص پہنا کرتیں جبکہ کام پہ جاتے ہوئے ان کا لباس مغربی ہوتا۔ جب مرد دوست ان سے ہاتھ ملاتے، گلے ملتے اور بوسہ لیتے تو وہ خود کو سمجھاتیںکہ یہ بس ان لوگوں کے عمومی طور طریقے ہیں، اس سے زیادہ اورکچھ نہیں۔ شراب نوشی سے البتہ وہ اور ان کے شوہر کلی پرہیز کرتے۔ تاہم جہاں تک حلال گوشت کا تعلق ہے، یہ بات انہیں انتہا پسندی معلوم ہوتی تھی، اس لئے وہ پاتھ مارک کے کولر سے جا کر گوشت اٹھا لاتی تھیں۔ 
اس جوڑے نے مسلمانوں کی ایک کمیونٹی بنانے کا عزم کر رکھا تھا۔ وہ ایک مسجد تعمیر کرنا چاہتے تھے؛ چنانچہ انہوں نے اپنے اس خواب کو عملی جامہ پہنانے کی کاوشیں شروع کیں۔ وہ چاہتے ہیںکہ ہر اتوار کو ان کے بچے دینی تعلیم حاصل کرنے جایا کریں تاکہ دین کا علم اور اس پر عمل کے طریقوں کے بارے میں جان سکیں۔ انہیں عطیات ملنے لگے اور تین برس کے عرصے میں مسجد تیار ہو گئی۔ صبیحہ رحمٰن کہتی ہیں کہ کہانی ہم سبھی کی ہوتی ہے جو مختلف ہوتے ہوئے بھی یکساں رنگ رکھتی ہے۔ ہمیں بھی کئی ایک ناکامیاں دیکھنی پڑی تھیں لیکن آج اگر گننے بیٹھیں تو کامیابیوں کی تعداد ناکامیوں سے زیادہ ہوگی۔ ان کی مذکورہ کتاب گزشتہ برس جولائی میں چھپی۔ اشاعت کے بعد کئی ہفتوں تک ایمزون پہ ''ویمن ان اسلام‘‘ کے سیکشن میں یہ پہلے نمبر پہ رہی۔ Booklist نے اس پہ ایک اچھا تبصرہ کیا اور مذہب و روحانیت کے موضوع پہ لکھی جانے والی دس بہترین کتابوں کی فہرست میں اسے شامل کیا۔ Kirkus نے بھی اس پہ اچھا تبصرہ کیا ہے۔ حال ہی میں یہ کتاب پاکستان میں بھی ریلیزکر دی گئی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved