تحریر : رؤف طاہر تاریخ اشاعت     15-01-2017

جسٹس سعیدالزماں صدیقی کی کہانی (1)

جسٹس سعیدالزماں صدیقی اپنے رب کے حضور پیش ہو گئے۔ 79 سالہ قانون دان صرف دو ماہ قبل گورنر سندھ بنائے گئے تھے‘ اور یوں سندھ کے 31 گورنروں میں مختصر ترین عرصے کے لیے اس منصب پر فائز رہنے کا ریکارڈ اِن کے حصے میں آیا۔ دلچسپ بات یہ کہ ان کے پیش رو ڈاکٹر عشرت العباد نے 14 سالہ گورنری کے ساتھ اس منصب پر رہنے کا طویل ترین ریکارڈ قائم کیا تھا۔ سعیدالزماں صدیقی سندھ کے پہلے گورنر ہیں‘ جو اس منصب کے ساتھ راہیٔ ملک عدم ہوئے۔ پنجاب میں یہ معاملہ بے نظیر بھٹو کے دوسرے دور میں چودھری الطاف حسین کے ساتھ پیش آیا تھا‘ وہ بھی پنجاب کے گورنر ہائوس کے مکین تھے کہ بُلاوا آ گیا۔
جناب سعیدالزماں صدیقی ججوں کی اس کھیپ میں تھے‘ جو ضیاء الحق کے پی سی او (1981ئ) کے بعد اعلیٰ عدلیہ میں آئے۔ سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے منصب سے وہ سپریم کورٹ میں آ گئے۔ انہوں نے کئی فیصلے کئے لیکن دو مواقع پر ان کے کردار نے انہیں عدلیہ کی تاریخ کے تابناک باب میں جگہ دے دی۔ پہلا موقع وہ تھا جب وہ منتخب وزیر اعظم (اور پارلیمنٹ) کے خلاف صدر اور چیف جسٹس کی سازش کے مقابل ڈٹ گئے‘ جس میں ''برادر ججوں‘‘ کی اکثریت بھی ان کے ساتھ آ کھڑی ہوئی تھی۔ 
صدر فاروق لغاری اور چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے اپنے اپنے دکھ تھے‘ جو وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف ان کے گٹھ جوڑ کا سبب بن گئے۔ فاروق لغاری نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی (دوسری) حکومت کو رخصت کیا تو ان کا خیال تھا‘ اب وہ طویل عرصہ تک ''کنگ‘‘ اور ''کِنگ میکر‘‘ کا کردار ادا کریں گے لیکن قسمت نے یاوری نہ کی۔ اس کے لیے کیا کیا منصوبے بنے اور کہاں کہاں کالی بلی راستہ کاٹ گئی‘ یہ ایک الگ (اور طویل) کہانی ہے۔ 
پسِ پردہ کھیل سے خود میاں صاحب بھی آ گاہ تھے۔ انتخابی مہم کے لیے اس روز انہیں گجرات جانا تھا۔ ہیلی کاپٹر والٹن ایئرپورٹ پر پرواز کے لیے تیار تھا۔ اس جلسے کی رپورٹنگ ٹیم میں ہم بھی تھے۔ گجرات میں اس شب زوردار بارش ہوئی تھی اور سٹیڈیم میں جلسے کے انتظامات درہم برہم ہو گئے تھے۔ اس وقت بھی اُدھر بوندا باندی ہو رہی تھی۔ میاں صاحب چودھری برادران کی طرف سے کلیئرنس کے منتظر تھے۔ اس دوران صحافیوں سے غیر رسمی گپ شپ بھی جاری تھی۔ ہم میں سے ایک نے انتخابی نتائج کے حوالے سے میاں صاحب کی پیش گوئی چاہی‘ میاں صاحب کا جواب تھا‘ پہلے تو ''ان‘‘ کی خواہش اور کوشش تھی کہ انتخابات کم از کم اڑھائی‘ تین سال کے لیے ملتوی ہو جائیں۔ اس کے لیے احتساب‘ فیئر اینڈ فری الیکشن کے لیے نئی کمپیوٹرائزڈ ووٹرز لسٹوں کی تیاری اور دیگر انتظامات کے نام پر سپریم کورٹ سے منظوری حاصل کر لی جائے۔ یہ ممکن نظر نہ آیا تو دوسرا منصوبہ ہمیں الیکشن سے باہر کرنے کا تھا۔ یہ بیل بھی منڈھے نہ چڑھ سکی تو اب آخری کوشش ہمیں Curtail کرنے کی ہے۔ اب بھی اللہ خیر کرے گا اور اللہ نے خیر یوں کی کہ پیپلز پارٹی قومی اسمبلی میں صرف 18 سیٹوں تک محدود ہو گئی اور میاں صاحب دو تہائی اکثریت لے گئے۔ یہ صورتِ حال ایوانِ صدر کے لیے سخت حیرت اور مایوسی کا باعث تھی۔ لیکن وہ جو کہتے ہیں‘ مصیبت تنہا نہیں آتی۔ ایوانِ صدر کے لیے ایک اور صدمہ آئین میں 13ویں ترمیم تھی‘ اتفاق رائے سے جس کی منظوری کے لیے وزیر اعظم نے قائد حزب اختلاف بے نظیر بھٹو کی تائید بھی حاصل کر لی تھی کہ وہ بھی آٹھویں ترمیم کے آرٹیکل 58/2 B کا دو بار شکار ہو چکی تھیں۔ سردار فاروق لغاری اب چودھری فضل الٰہی بن گئے تھے۔ پارلیمنٹ کے اتفاق رائے سے منظور ہونے والی ترمیم کی توثیق کے سوا ان کے لیے کوئی چارۂ کار نہ تھا لیکن یہ زخم ان کے سینے میں بہت گہرا اتر گیا تھا۔
ادھر انسدادِ دہشت گردی کی خصوصی عدالتوں کے قیام پر حکومت اور چیف جسٹس سجاد علی شاہ میں بدمزگی کا آغاز ہو گیا۔ حکومت کے پاس پارلیمنٹ میں بھاری اکثریت کی وجہ سے‘ کسی بھی قانون سازی کی طاقت موجود تھی لیکن وزیر اعظم نے اس پر چیف جسٹس سے مشاورت ضروری سمجھی‘ ان کی رائے مختلف تھی۔ اپنی ضد اور انا میں کوئی بھی حد عبور کر جانے والے چیف جسٹس کا کہنا تھا‘ وزیر اعظم یا تو مشورہ نہ کرتے‘ کیا تھا تو میری بات مان لیتے۔ اب چیف صاحب نے نیا پتہ پھینکا۔ سپریم کورٹ میں پانچ خالی اسامیوں کے لیے نام بھیج دیے اور ان کی فوری منظوری پر اصرار کرنے لگے۔ حکومت پانچوں جج یک مشت دینے کی بجائے پہلے مرحلے میں دو‘ تین جج دینے کی بات کر رہی تھی۔ اس دوران یہ بحث بھی چل نکلی کہ سپریم کورٹ کے لیے 17 ججوں کی کیا واقعی ضرورت ہے؟ آخرکار حکومت نے نہ صرف پانچ جج دیدیے بلکہ پارلیمنٹ میں ایک متفقہ ایکٹ کے ذریعے ججوں کی تعداد (17) کو قانونی تحفظ بھی فراہم کر دیا۔ چیف صاحب کے ''حکم‘‘ کے سامنے سر تسلیم خم کرنا حکومت کی طرف سے عدلیہ کے احترام کا واشگاف اظہار تھا۔
خیال تھا کہ اس کے بعد ''بحران‘‘ ختم ہو جائے گا‘ لیکن ایوانِ صدر کی ملی بھگت کے ساتھ سپریم کورٹ میں نئے کھیل کا آغاز ہو گیا تھا۔ چیف جسٹس نے فلور کراسنگ پر پابندی والی چودھویں آئینی ترمیم معطل کر دی (13ویں کی طرح یہ ترمیم بھی اتفاق رائے سے منظور ہوئی تھی) یہ برسرِ اقتدار جماعت کی پارلیمانی طاقت میں نقب لگانے کی کوشش تھی کہ خوف اور لالچ کے مختلف حربوں کے ذریعے وزیر اعظم کو اسمبلی میں اکثریت سے محروم کر دیا جائے۔ اس دوران ''ایک فرد‘‘ کو قربان کرکے اسمبلی کو بچا لینے اور پورے سسٹم کو دائو پر نہ لگانے کے مشورے بھی سامنے آئے لیکن یہ دائو کارگر ہونے کی بجائے الٹا پڑ گیا۔ پارلیمنٹ اپنے منتخب وزیر اعظم کی پشت پر (محاورے والی) سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئی تھی۔ پارلیمنٹ میں اس پر تند و تیز تقاریر ہوئیں۔
وزیر اعظم چیف جسٹس کے اس فیصلے کو ''لوٹا ازم‘‘ کی بحالی کا نام دے رہے تھے‘ جس پر چیف صاحب نے انہیں توہینِ عدالت کے الزام میں طلب کر لیا۔ جج صاحبان وہ کیس خود نہیں سنتے‘ جس میں کسی بھی طور پر خود Involve ہوں۔ انہی دنوں جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال (مرحوم) نے ہمیں بتایا تھا کہ وہ لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس تھے تو اپنی توہین کا کیس خود سننے کی بجائے‘ اسے جسٹس افضل لون کو مارک کر دیا تھا۔ وزیر اعظم نے توہین عدالت کے کیس میں اپنے وکیل کو بھیجنے کی بجائے خود پیش ہونے کا فیصلہ کیا۔ وزیر اعظم کمرہء عدالت میں موجود تھے‘ لیکن چیف جسٹس انہیں سننے میں تاخیر کرتے رہے۔ اس دوران وقفہ ہو گیا۔ وزیر اعظم دوبارہ کمرۂ عدالت میں تھے۔ چیف جسٹس نے وزیر اعظم کی وضاحت قبول کرنے کی بجائے کیس آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے آئندہ پیشی پر وزیر اعظم کو حاضری سے مستثنیٰ کرنے کی درخواست بھی مسترد کر دی تھی۔
مارچ 1996ء میں ججز کیس میں چیف جسٹس سجاد علی شاہ نے چیف جسٹس حضرات کے تقرر کے لیے سنیارٹی کو بنیاد بنانے کا حکم جاری کیا تھا‘ لیکن خود اپنے لیے انہوں نے گنجائش نکال لی تھی۔ نواز شریف کی پہلی حکومت کی بحالی کا فیصلہ دینے والے چیف جسٹس نسیم حسن شاہ کی ریٹائرمنٹ کے بعد‘ 18 اپریل 1994ء کو جناب سعد سعود جان قائم مقام چیف جسٹس بنے۔ یہ بے نظیر بھٹو کا دوسرا دورِ اقتدار تھا‘ ان کا تقاضا تھا کہ وہ شاہد حامد اور ایس ایم مسعود کو سپریم کورٹ کا (براہ راست) جج بنانے سے اتفاق کر لیں۔ اس کے جواب میں جناب سعد سعود جان نے وزیر اعظم کو لکھا کہ سپریم کورٹ میں براہِ راست تقرر کے لیے جسٹس منظور قادر اور جسٹس طفیل علی عبدالرحمن جیسی حکمت اور طہارت ناگزیر ہے۔ جناب سعد سعود جان کے خیال میں حکومت کے تجویز کردہ یہ دونوں نام اس معیار پر پورے نہیں اترتے تھے۔ یہ جواب محترمہ کو بہت ناگوار گزرا‘ چند روز بعد قائم مقام چیف جسٹس سعد سعود جان کی جگہ سید سجاد علی شاہ کو چیف جسٹس مقرر کر دیا گیا۔ پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ اس منصب کے لیے سنیارٹی کے اصول کو نظر انداز کیا گیا‘ جس سے تین جج جناب سعد سعود جان‘ جناب عبدالقدیر اور جناب اجمل میاں متاثر ہوئے۔ متحرمہ نے جناب عبدالقدیر اور اجمل میاں کو بھی اس منصب کے لیے پیشکش کی تھی لیکن وہ اپنے سینئر کو پھلانگنے پر آمادہ نہ ہوئے جبکہ جناب سجاد علی شاہ کو اس میں کوئی عار نہ تھی۔ (جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved