تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     15-01-2017

کرپشن کا رونا اور اقتدار جاوید کی نظم

خادمِ اعلیٰ پنجاب کا تازہ بیان ہے کہ صاف پانی کی فراہمی کے منصوبے میں اربوں روپے کی کرپشن ہوئی ہے اور یہ کہ ذمہ داروں کو سزا دیں گے۔ اور یہ کرپشن وہ ہے جس کا صاحبِ موصوف نے برملا اعتراف بھی کیا ہے اور یقین ہے کہ اس کے ذمہ داروں کو سزا بھی ملے گی کیونکہ الیکشن کی آمد آمد ہے‘ عمران خان نے شور مچا رکھا ہے اور سپریم کورٹ میں کرپشن ہی کے خلاف تاریخ کا پہلا اور اہم ترین مقدمہ زیرِ سماعت ہے۔ گزشتہ انتخابات کے موقع پر بھی آپ نے نام لے لے کر کرپٹ لوگوں کو چوراہوں میں لٹکانے‘ انہیں سڑکوں پر گھسیٹنے اور پیٹ پھاڑ کر لوٹی ہوئی دولت نکالنے کا بار بار دعویٰ کیا تھا گویا کرپشن کے سب سے بڑے مخالف آپ ہی ہیں۔ لیکن الیکشن ختم ہوتے ہی آپ برف میں لگ کر بیٹھ گئے۔ 
بارہا دعویٰ کیا گیا کہ اگر ایک دھیلے کی کرپشن بھی ثابت ہو جائے تو آپ اپنا نام بدل لیں گے۔ اگر اس فارمولے پر عمل کیا جاتا تو اسمِ گرامی سو ہزار مرتبہ تبدیل ہو چکا ہوتا کیونکہ سوال صرف یہ ہے کہ اگر آپ واقعی ایماندار ہیں تو آپ کے نیچے یہ اربوں کی کرپشن آئے دن کس خوشی میں ہو رہی ہے۔ جتنے سخت گیر وزیرِاعلیٰ آپ ہیں‘ آپ کے نیچے تو کسی کی مجال نہیں ہونی چاہیے کہ ایک پیسے کی کرپشن بھی کر جائے۔ چنانچہ ہر روز جو میگا کرپشن کے سکینڈل سامنے آ رہے ہیں اس کا ذمہ دار کسے ٹھہرایا جائے؟ مچھلی ہمیشہ سر سے خراب ہونا شروع ہوتی ہے اور کرپشن کا اصول بھی یہ ہے کہ یہ اُوپر سے نیچے آتی ہے۔ یہ پہلا وقوعہ ہے جس کا آپ نے اعتراف بھی کیا ہے اور اُن سینکڑوں وارداتوں کا کیا ہوا جو روزانہ آپ کے علم میں بھی آتی ہیں‘ جن کے لیے آپ کے پاس صرف چشم پوشی ہے۔
کبھی غور فرمایا کہ ڈی پی اوز سے منتھلیاں کون لیتا ہے اور 
تھانے کس نے ٹھیکے پر چڑھا رکھے ہیں؟ یہ صرف ایک محکمے کی بات ہے ورنہ حالت یہ ہے کہ' جیڑا بھنو لال اے‘ احتساب کے محکمے آپ نے ضرور بنا رکھے ہیں جن میں اینٹی کرپشن اور نیب بطور خاص شامل ہیں جبکہ ایک اطلاع کے مطابق سب سے زیادہ کرپشن‘ اینٹی کرپشن ہی میں ہوتی ہے۔ خود نیب کے افسران پر کرپشن کے الزامات ہیں اور جو پکڑتی ہے تو صرف پٹواریوں اور کلرکوں کو۔ کوئی بڑی مچھلی پھنس جائے تو پلی بارگین کے ذریعے لوٹے ہوئے مال سے ایک برائے نام حصہ وصول کر کے اُسے چھوڑ دیا جاتا ہے تاکہ کُھل کُھلا کر پھر اسی دھندے میں لگ جائے۔ احتساب کا کوئی فعال ادارہ بننے ہی نہیں دیا گیا‘ تاکہ اس بدعت سے مستقل چھٹکارا حاصل رہے۔ اگر ایمانداری برقرار نہیں رکھی جا سکتی تو کم از کم اس کا ڈھنڈورا ہی نہ پیٹا جائے حالانکہ سبھی خوب جانتے ہیں کہ دُنیا اسے کبھی تسلیم نہیں کر سکتی۔ ایک دعویٰ یہ بھی ہے کہ کرپشن کو ثابت کیا جائے۔ اس سے زیادہ مزاحیہ بات اور کوئی ہو ہی نہیں سکتی۔کسی کے کارندے اگر دن رات اس کار خیر میں لگے رہتے ہوں تو اُس پر ذاتی طور پر انگلی کون اٹھائے گا۔ معیشت سے لے کر انصاف تک‘ سب پر حکمرانوں کاقبضہ ہے۔ زیادہ محتاط چور جب واردات کرنے جاتے ہیں تو اُن کے جسم پر صرف ایک لنگوٹ ہوتا ہے اور بدن پر تیل کی مالش‘ تاکہ بھاگتے وقت کسی کے ہاتھ نہ آ سکیں۔ جہاں تک کرپشن ثابت کرنے کا تعلق ہے تو ریکارڈ کی بات یہ ہے کہ آج تک کسی عدالت نے 
شریف برادران کے خلاف فیصلہ نہیں دیا۔ اب اگر سپریم کورٹ یہ کر دے تو یہ ایک نیا ریکارڈ ہو گا۔ اس لیے حکمرانوںکو کسی سے ڈرنے یا گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ قیامت نے اگر آنا ہوتا تو کب کی آ چکی ہوتی۔
جہاں تک ہم جیسے لوگوں کا تعلق ہے تو ہمیں اس پر ہرگز کوئی اعتراض نہیں ہے اور اگر ہو بھی تو ہم کر کیا سکتے ہیں۔ کوئی بھی کچھ نہیں کر سکتا۔ ہماری دل سوزی اگر ہوتی ہے تو دیانتداری کے بلند بانگ دعووں پر۔ اگر اسی سے اجتناب کر لیا جائے تو یہ بھی ایک بہت بڑا احسان ہو گا۔ ہم اگر خود اچھے نہیں ہیں تو برائی کے خلاف احتجاج کیسے کر سکتے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ حکمرانوں کو اچھا بلکہ مثالی ہونا چاہیے‘ رعایا چاہے جیسی بھی ہو‘ ورنہ وہی کہاوت سامنے آئے گی کہ جیسا راجا ویسی پرجا‘ اور یہی وجہ ہے کہ لوگ بار بار منتخب ہو جاتے ہیں جبکہ یہ ساری برکتیں اس انتخابی نظام کی ہیں اور یہی ان کو سُوٹ بھی کرتا ہے۔ اسے تبدیل بھی حکمرانوں ہی نے کرنا ہے لیکن خدانخواستہ وہ کیوں کریں گے۔ اپنے پائوں پر کلہاڑی کون مارتا ہے۔ ایک اور فرمودہ یہ ہے کہ جیسے عوام ہوں اُن پر حکمران بھی ایسے ہی مسلط کر دیئے جاتے ہیں! اس لیے حکمرانوں کے ساتھ ہماری کوئی لڑائی نہیں کہ انہیں لانے کے ذمہ دار بھی ہم خود ہی ہیں۔
سُنا ہوا لطیفہ دوبارہ سننے پر مزہ تو نہیں دیتا لیکن ایک قندِ مکرّر بھی تو ہوتی ہے۔ تو ہوا یوں کہ کچھ لوگ ایک سیٹھ کے پاس گئے اور کہا کہ ہم ایک نیک مقصد کے لیے چندہ اکٹھا کر رہے ہیں‘ براہ کرم آپ بھی اس میں حصہ ڈالیں۔ سیٹھ بولا : ''میری چھوٹی بیٹی معذور ہے‘ کیا اس کی ضروریات کا خیال رکھنا اور اسے اس کی آسائش کی ہر چیز مہیا کرنا نیک کام نہیں ہے‘‘ لوگوں نے کہا کہ یقیناً یہ بہت بڑی نیکی ہے۔ اس کے بعد سیٹھ نے کہا : ''میری ایک بیوہ بہن ہے‘ اس کا کوئی روزگار نہیں ہے‘ کیا اُس کے اخراجات پورے کرنا اس کے بچوں کی فیسیں‘ وردیاں اور کتابیں مہیا کرنا اور نان و نفقہ میں اس کی مدد کرنا نیک کام نہیں؟‘‘انہوں نے کہا: یقینا۔سیٹھ صاحب پھر بولے‘ ''میرا باپ بوڑھا اور بیمار ہے‘ کیا اُسے علاج کی سہولتیں مہیا کرنا اور اس کی ضروریات کا خیال رکھنا نیک کام نہیں؟‘‘ وہ لوگ بولے کہ سبحان اللہ اپنے باپ کی خدمت کرنے سے بڑی نیکی اور کیا ہو سکتی ہے‘‘۔ اس پر سیٹھ صاحب بولے‘''میں جو یہ سارے کام نہیں کرتا تو تمہیں چندہ کس لیے دوں؟‘‘
اب پتا نہیں اس لطیفے کا کوئی موقع محل تھا بھی یا نہیں‘ اس کا اندازہ آپ خود لگا سکتے ہیں۔ ہمارا مقصد تو فضا کو ذرا خوشگوار بنانا تھا‘ جو کرپشن کے واویلا سے کافی مکدّر ہو گئی تھی۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ کرپشن کا ذکر ذرا خوش طبعی سے کیا جائے اور بس۔ اوراب فضا کو مزید خوشگوار بنانے کے لیے اقتدار جاوید کی یہ نظم
ماں جائے
ماں جائے چھتّہ ہیں/ اس شہد کے چھتّے سے/ جو بوند ٹپکتی ہے/ لذت میں خالص ہے/ رنگت میں یکتا ہے/ جو باغ کے پیڑوں کے/ زر پرور سایوں میں/ گرمی میں پکتا ہے/ جہاں بھائی ہوتے ہیں/ وہاں محفل جمتی ہے/ دُکّی پر دُکّی ہیں/ ستّے پرستاّ ہیں/ ماں جائے چھتّہ ہیں/ ماں جائے جو ملتے ہیں/ وہاں شہد ٹپکتا ہے/ حلوائی کی دُکانِ شیریں کے اندر اک / شیشے کی جالی ہے/ شیرے کی تھالی ہے/ ان دیکھا جلوہ ہے/ چُولہے کی گرمی ہے/ مُلتانی حلوہ ہے/ رنگوں کے ٹِکّے ہیں/ اک زر کی اکائی ہیں/ ٹکسال کی حُرمت ہیں/ ہر دور میں چلتے ہیں/ ماں جائے سکّے ہیں/ جہاں بہنیں ہوتی ہیں/ وہاں جُھمکے ہلتے ہیں/ وہاں مہندی چڑھتی ہے/ جب بھائی ہنستے ہیں/ خوشبوئیں اُٹھتی ہیں/ اک عطر سے پانی کا/ چھڑکائو ہوتا ہے/ رستے دُھل جاتے ہیں/ گملوں میں کھڑا پانی / تادیر چمکتا ہے/ ماں جائے رونق ہیں/ بازار میں جاتے ہیں/ تو مول بڑھاتے ہیں/ شکر کے بورے ہیں/ ویسے تو ماں جائے/ شیرے کے تھالوں میں/ ڈوبے آمیزے ہیں/ لیکن جب لڑتے ہیں/ تب دھک دھک سینے میں/ دل ڈر ڈر جاتا ہے/ یہ شیر کے پِتّے ہیں/ پچھواڑے کی سرسوں ہیں/ میدانی خطے ہیں/ ماں جائے جس کمرے/ ہوتے ہیں‘ سوتے ہیں/ ٹھنڈک سے بھرتا ہے/ وہاں پریاں آتی ہیں/ مہتاب اُترتے ہیں/ وہاں بارش ہوتی ہے/ آکاش دمکتا ہے!
آج کا مطلع
توڑ دیں ساری حدیں اور مسئلہ حل کر دیا
خود بھی سودائی ہوئے اس کو بھی پاگل کر دیا

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved