تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     16-01-2017

حکمران کہاں ہیں؟

حیرت اس پر بھی کہ وزیر اعظم‘ وزیراعلیٰ اور وزیر داخلہ یہ سب کچھ دیکھتے اور سنتے رہے۔ اس پر بھی بہت کہ لیڈر لوگ اِن بیچاروں کا مقدمہ تو لڑتے ہیں‘ امت کے زخموں سے بے نیاز ہیں‘ اپنے ہادیؐ و مولیٰؐ سے بھی بے نیاز؟
صرف انہی کا ذکر نہیں‘ ابھی جو غائب ہوئے‘ جن پر بہت واویلا ہے۔ جناب رضا ربانی اور فرحت اللہ بابر آزردہ ہیں۔ چیخ و پکار سے بعض نے آسمان سر پہ اٹھا لیا۔ یہ معلوم نہیں عالمی میڈیا کیوں اس قدر حساس ہو گیا؟ امریکی انتظامیہ کیوں دکھی ہے؟
کیا یہ کچھ خاص لوگ ہیں؟ اس سے پہلے بھی ستم ٹوٹے۔۔۔ بلوچستان‘ کراچی‘ پختونخوا اور قبائلی ایجنسیوں میں شور اس پر بھی مچا تھا۔کچھ کا یہ فرض ہے‘ کچھ کا روزگار۔ مگر اب کی بار فریاد کی لے بہت اونچی ہے۔
میڈیا میں تفصیلات سے گریز ہے۔ سوشل میڈیا پر کچھ سوالات اٹھائے گئے‘ جن کا جواب کوئی نہیں دیتا۔ کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ کھل کر بات کی جائے؟
سانحہ صرف یہ نہیں کہ جرم برپا ہے۔ المیہ شاید یہ بھی ہے کہ ہر چیز دُھند میں لپٹی ہے۔ کون سا معاشرہ ہے جرم سے جو پاک ہے۔ زمین فساد سے بھر گئی ہے۔ دنیا کتنی عجیب ہو گئی۔ جمہوریت کے جلَو میں نریندر مودی اور ڈونلڈ ٹرمپ ایسے لوگ حکمران ہو گئے۔ ان کے اپنے لوگ ہراساں ہیں۔ اس قماش کے لیڈر ہمیں کہاں لے جائیں گے۔
سرحدیں سمٹ گئی ہیں۔ ہر ملک دوسرے ملک کے اندر داخل ہو گیا ہے۔ خاص طور پر وہ جو خوف زدہ کرنے کے وسائل اور سازش کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
دہشت گردی نے دھرتی کو فساد سے بھر دیا۔ عجیب و غریب نظریات کے لوگ۔ دوسری طرف عالمگیر طاقتیں‘ خاص طور پر امریکہ بہادر اور ہندوتوا کی علمبردار‘ بھارتی سرکار۔ اس خطہ ارض میں غلبہ حاصل کرنے کے لیے ہر حربہ جو روا سمجھتی ہے۔ 
خود ہم نے بھی پہاڑ سی غلطیاں کیں۔ افواج پاکستان اور ہماری منتخب حکومتوں نے۔ ان سب نے جمہوریت کا علم جو اٹھائے رکھتے ہیں۔ مگر اندازِ فکر اور طرزِ عمل میں جمہوریت کا شائبہ تک نہیں۔ ہر قیمت اور ہر حال میں اقتدار سے چمٹے رہنے اور اپنی اگلی نسلوں کو منتقل کرنے کی بے باک اور بے قابو آرزُو۔ مذہبی جماعتیں‘ جن کے سائے میں انتہا پسند ہی نہیں‘ قاتلوں کے گروہ پنپتے ہیں۔ ان کے لیے وہ دلیل گانٹھتے اور تاویلات تراشتے ہیں۔ وہ جو انسانی حقوق کے نام پر ملک توڑنے پر تلے نظر آتے ہیں۔ معتبر اور جیِّد ادارے جو جرائم پیشہ لوگوں کی وکالت کرتے ہیں۔ علماء اور اہلِ قلم جو قرآن کریم کی مقدس آیات اور احادیث رسول ؐسے غدّاروںکے لیے جواز ڈھونڈتے ہیں۔ انتہا یہ کہ دشمن ملک کے ساتھ ساز باز کر کے‘ برسوں اور عشروں تک اپنے لوگوں کو ہلاک کرنے والے‘ درندوں کا دفاع کرنے والے۔
کوئی حد بھی ہے آخر۔ کہیں یہ فساد جا کر رکے گا؟ یا اسی طرح ہم روتے اور بسورتے رہیں گے؟ حکمرانوں سے فریاد کرتے رہیں گے‘ اپنے لیے جو موم کی طرح پگھلتے ہیں۔ مجبوروں اور لاچاروں کے لیے‘ جن کے کان پتھر کے ہو جاتے ہیں‘ آنکھیں بھی‘ دل و دماغ بھی۔
ابھی کچھ دیر پہلے‘ ایک ممتاز سرکاری شخصیت کا فون آیا۔ بولے: اس بے رحمی سے مجھ پر تم نکتہ چینی کرتے ہو‘ ایک فون تک کے بھی روادار نہیں۔ دیر تک سنتا رہا۔ عرض کیا ‘ بے شک میری کوتاہی ہے۔ آپ کا موقف معلوم کرنا چاہیے تھا۔ عرض کیا‘ عسکری قیادت راہ دینے پر آمادہ ہے‘ پھر بھی آپ لوگوں کے لہجوں کی تلخی کم نہیں ہوتی۔ قابلِ قبول استدلال کے ساتھ گفتگو کی۔ آخر کار خود ہی بولے: ایک غلطی ہم سے سرزد ہوئی۔ دہشت گردوں سے نمٹنے کے لیے موزوں عدالتیں ہم بنا نہ سکے۔
رونا تو یہی ہے۔ ایک موزوں‘ موثر بلکہ فیصلہ کن عدالتی نظام کے بغیر‘ کسی سے جو رُو رعایت نہ کرے‘ ان خطرناک حالات میں ملک کیسے چلایا جا سکتا ہے؟ ہر کوئی اپنی خواہشات کے گرداب میں ہے۔ ذاتی اور گروہی ترجیحات کے لیے‘ ہر ایک حریف کو روندتا ہوا۔ دولت کے لیے اندھے‘ اقتدار کے دیوانے‘ جھوٹ اور سچ‘ حرام اور حلال سے بے نیاز‘ اپنی اپنی پارٹیوں کے پاگل وکیل۔
پھر دوسروں سے ناانصافی کی شکایت وہ کیوں کرتے ہیں۔ آپ کا بس چلے تو دوسرے کو سرِ بازار ننگا کر دیں۔ اعتراض یہ ہوتا ہے کہ میرے اجلے پیرہن پر چھینٹے کیوں اڑائے گئے؟ ریوڑ کے ریوڑ کردار کشی کے لیے پالے جاتے ہیں۔ ان کے اکابر پھر شکایت کرتے ہیں کہ دیکھو فلاں نے میرے بارے میں جھوٹ بولا‘ کذب بیانی میں ناغہ تک نہیں کرتا۔ یعنی یہ کہ‘ خاص حد تک افترا پردازی روا ہے‘ توہین اور حقارت بھی۔ بس یہ کہ اسے معمول نہ بنا لیا جائے۔ 
سبحان اللہ! گالیاں دی جائیں تو دونوں طرف سے گن گن کر‘ کیچڑ اچھالا جائے تو تول کر۔ الزامات لگائے جائیں تو شمار کر کے۔ اگر یہ سودا نہیں‘ جنون نہیں‘ وحشت نہیں تو اور کیا ہے۔ اس پر ہم غریب اخبار نویسوں سے مطالبہ کیوں ہے کہ سر آنکھوں پر انہیں بٹھایا جائے۔ کیا صرف اس لیے کہ کچھ ووٹ آپ نے حاصل کر لیے۔ کچھ خرید لیے‘ کچھ اڑا لیے ؎
سودائے عشق اور ہے وحشت کچھ اور شے
مجنوں کا کوئی دوست فسانہ نگار تھا
کسی کو حق نہیں کہ سبب بتائے بغیر‘ فرد جرم عائد کئے بغیر‘ کسی قانونی اختیار کے بغیر‘ شب کی تاریکی میں کسی کو اٹھا لے جائے۔ یہ جنگل کا قانون ہے۔ ایک بار یہ چل نکلے تو آخر کار کوئی بھی محفوظ نہیں بچا کرتا۔ بظاہر‘ ایک مسئلہ اگر حل ہوتا ہے تو اتنا ہی یا اس سے بڑا پیدا ہو جائے گا۔ اگر کوئی مجرم ہے تو خاندان کیوں سزا بھگتے۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ وہ کہاں ہے۔ جن کی آنکھوں کا نُور اور جگر کے ٹکڑے چھپا دیے جاتے ہیں‘ وہی جانتے ہیں کہ ان پر کیا گزرتی ہے۔
تصویر کا دوسرا رخ اتنا ہی بھیانک ہے، بلکہ اس سے بھی زیادہ قابلِ نفرت اور گھنائونا۔ غائب ہونے والوں میں سے بعض ایسے ہیں‘ جنہوں نے مقدس ترین ہستیوں کے بارے میں اس طرح کی خرافات بکی اور پھیلائی ہیں کہ برداشت کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ایک صاحب کے ارشادات سنائے گئے‘ ادھورے سے۔ شب غور کیا تو مجھے لگا کہ اس زندگی سے موت بہتر تھی۔کہنا تو کجا، ایک امتی اپنے آقاؐ کے بارے میں ایسی بات سنے۔ بے حیائی اور بے شرمی کی کوئی آخری حد بھی ہوتی ہے۔ سوچ سمجھ کر‘ طے کر کے اور منصوبہ بنا کر‘ اگر آپ پوری قوم بلکہ پوری امت‘ اس کی پوری تاریخ کو گالی دیتے ہیں‘ ایذا پہنچانے پر تلے رہتے ہیں، تو انجام کیا ہو گا؟ میرے سامنے کھڑا ہو کر‘ مسلسل اور متواتر‘ اگر کوئی میرے باپ پہ دشنام طرازی کرے تو کب تک میں صبر کروں گا؟ چہ جائیکہ کہ ان کے باب میں زبان درازی ہو‘ سحر سے شام اور شام سے سحر تک‘ جن پر درود پڑھا جاتا ہے۔ زمین کے اِس کنارے سے اُس کنارے تک۔ دھرتی کے پاتال سے عرش بریں کی بلندیوں تک۔ نہیں جناب‘ بالکل نہیں۔ ہم اس کی تاب نہیں لا سکتے۔ یہ بھی تسلیم نہیں کر سکتے کہ یہ کسی فرد واحد کا جنون ہے۔ گروہ بندی اور پشت پناہی کے بغیر‘ اس قدر ڈھٹائی اور اس عزم و ہمت کے ساتھ یہ سلسلہ کیونکر جاری رہ سکتا ہے۔ قانون کہاں ہے؟ حکمران کہاں ہیں؟ کس دن کے لیے قوم آپ کو پالتی ہے۔ کس دن کے لیے محلّات میں بٹھا رکھا ہے؟
حیرت اس پر بھی کہ وزیر اعظم‘ وزیراعلیٰ اور وزیر داخلہ یہ سب کچھ دیکھتے اور سنتے رہے۔ اس پر بھی بہت کہ لیڈر لوگ اِن بیچاروں کا مقدمہ تو لڑتے ہیں‘ امت کے زخموں سے بے نیاز ہیں‘ اپنے ہادیؐ و مولیٰؐ سے بھی بے نیاز؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved