تحریر : عرفان حسین تاریخ اشاعت     16-01-2017

سری لنکا میں سفید ہاتھی

ہمبن ٹوٹا(Hambantota) کولمبو سے دوسوچالیس کلومیٹر دور ایک ضلعی صدرمقام ہے ۔ ایک وقت تھا جب اسے ضلعی صدر مقام کہنا غیر حقیقی لگتا تھا ۔ گیارہ ہزار نفوس پر مشتمل یہ ایک پرسکون، چھوٹا سا قصبہ تھا، لیکن اب یہ میرے دیکھتے ہی دیکھتے ہی ایک بڑے جدید شہر میں تبدیل ہوگیا ہے ۔ اب یہاں ایک نئی بندرگاہ، ایئرپورٹ، عالمی معیار کاکرکٹ اسٹیڈیم ، ایک بہت بڑا کانفرنس سنٹر اور جدید ایڈمنسٹریٹو کمپلیکس موجود ہیں۔ اس کے ارد گرد موٹرویز اور بلند سڑکوں کا جال بچھا ہواہے ۔ 
تاہم مسئلہ یہ ہے کہ یہ تمام مہنگا انفراسٹرکچر بمشکل ہی استعمال ہوتا ہے۔ شہر کی آبادی ابھی بھی گیارہ ہزار نفوس ، اوریہ شہر سیاحوں کو متوجہ کرنے والے خدوخال بھی نہیں رکھتا۔ دراصل اس نیم آباد خطے میں اس طرح کے ترقیاتی منصوبے سابق صدر، مہنداراجہ پاکسے کا تصور تھا۔ اب موجودہ حکومت نے اس سفید ہاتھی کی تخلیق پر اٹھنے والے 1.4 بلین ڈالر کے اخراجات چین کو واپس لوٹانے کا ایک نادر طریقہ ڈھونڈا ہے ۔ چینی پورٹ ہولڈنگز کے ساتھ کی جانے والی ایک متنازع ڈیل کے تحت ہمبن ٹوٹا کی بندرگاہ کا 80 فیصد حصہ اس چینی فرم کو، جبکہ بیس فیصد سری لنکا پورٹ اتھارٹی کے پاس ہوگا۔ اس مشترکہ تعاون کے ساتھ ایک انتہائی غیر مقبول پیش رفت ہے کہ چینیوں کو اس شہر کے ارد گرد صنعتی زون بنانے کے لیے 15,000 ایکڑ زمین 99 سال کی لیز پر دی جائے گی۔ 
سری لنکا پورٹ اتھارٹی کے موجودہ ملازمین بندرگاہ کا بڑا حصہ چینیوں کے حوالے کرنے پر سراپا احتجاج ہیں۔ اُنھوں نے یہ پیش رفت روکنے کے لیے کئی ایک احتجاجی مظاہرے کیے ہیں۔ ان میں سے ایک مظاہرے کی وجہ سے ایک جاپانی اور ایک جنوبی افریقہ کے جہاز کو تاخیر ہوئی ۔ اس کی وجہ سے انشورنس کے نرخ بلندہوگئے ۔ سوشلسٹ جے وی پی نے اس احتجاج میں مقامی کسانوں کی قیادت کی ۔ اگرچہ چینیوں کو فراہم کی جانے والی پندرہ ہزار ایکڑ زمین ریاست کی ملکیت ہے، لیکن اس میں پیکیج میں بہت سے دیہات اور فارمز بھی شامل ہیں۔ حکومت نے ان دیہات کو زر ِ رتلافی ادا اور کہیں اور زمین دینے کی پیش کش کی ہے ، لیکن مقامی افراد ناخوش ہیں۔ انہیں قوم پرست راہبوں(monks) کی حمایت بھی حاصل ہے۔ راہبوں کی تنظیم، مگاما مہاناما(Magama Mahanama) نے قومی اثاثوں کی حفاظت کے لیے احتجاج میں شرکت ہے ۔ اُنہیں خدشہ ہے کہ ہمبن ٹوٹا ایک چینی کالونی بننے جارہا ہے ۔ یہ احتجاج اُس وقت پرتشدد رخ اختیار کرگیا جب وزیر ِاعظم اور چینی سفارت کار صنعتی زون کا سنگ ِ بنیاد رکھنے آئے ۔ 
جائے حیرت ہے کہ مہندا راجہ پاکسے ، جنہوںنے یہ تمام معاہدے کیے تھے ، نے بھی اپنے سیاسی مقاصد کو پیش ِ نظر رکھتے ہوئے چینی کمپنی کے ساتھ کی جانے والی ڈیل کی مخالفت کی ہے ۔ اُن کا کہنا ہے کہ وہ اس معاملے کو بہتر انداز میں نمٹا سکتے تھے ۔ جب وہ اقتدار میں تھے تو مجھے یاد ہے کہ میں نے ایک بار اُن کے پلاننگ سیل کے ایک سینئر افسر سے پوچھا تھا کہ اس علاقے کی کم آبادی کودیکھتے ہوئے یہاں ہونے والے مہنگے منصوبوں کی ادائیگی کیسے کی جائے گی تو اُن کا جواب تھا کہ کولمبو سے بڑی تعداد میں سرکاری دفاتر اس علاقے میں منتقل کردیے جائیں گے ۔ اس کی وجہ سے سرکاری ملازمین ہمبن ٹوٹا منتقل ہونے پر مجبور ہوجائیں گے ۔ اس علاقے میں اتنی بھاری سرمایہ کاری کی وجہ یہ ہے کہ مہنداراجہ پاکسے کا تعلق یہیں سے ہے ، اور یہاں اپنی گرفت مضبوط رکھنا چاہتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ جنوب میں ابھی بھی مقبول ہیں اور اُن کے قدِ آدم پوسٹر بہت سی دیواروں پر آویزاں دکھائی دیتے ہیں۔ 
سری لنکن ، رانیل وکرم سنگھے نے بندرگاہ کامشترکہ کنٹرول سنبھالنے کے منصوبے پر عوامی حمایت حاصل کرنے کے لیے مقامی افراد سے وعدہ کیا ہے کہ صنعتی زون قائم ہونے کی وجہ سے ملازمتوں کے مواقع پیدا ہوں گے ۔تاہم جس طرح یہ بندرگاہ تعمیر ہوئی تھی، اُسے دیکھتے ہوئے مجھے شک ہے کہ مقامی افراد کے ساتھ یہ وعدہ وفا نہیںہوگا۔ چینی فرمز زیادہ تر افرادی قوت اپنے ملک سے ہی لاتی ہیں۔ جب بندر گاہ تعمیر کی جارہی تھی تو میںحیران ہوا کرتا تھا کہ چینی مزدور باہر کیوں دکھائی نہیں دیتے۔ بعد میں علم ہوا کہ تعمیراتی کمپنی بڑی تعداد میں اپنے ملک کی جیلوں سے قیدیوں کو یہاں لاتی تھی، اُنہیں پہلے سے تعمیرشدہ بیرکس میں رکھا جاتا، ا ور پھر ہر صبح تعمیراتی مقام پر لے جایاجاتا۔ شام کو اسی طرح حفاظت سے اُنہیں واپس لا کر بیرکس میں پہنچا دیا جاتا۔ وہاں کسی مقامی باشندے کو ملازمت نہیں دی گئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ مجھے شک ہے کہ جب چینی کمپنی بندرگاہ کا زیادہ تر کنٹرول سنبھالے گی تو بھی مقامی باشندوں کوملازمتیں نہیں ملیں گی۔ یہی وجہ ہے کہ میں پاک چین معاشی راہداری پر بلندوبانگ دعوے سن کر سوچ میں پڑجاتا ہوں۔ 
سری لنکا میں چینیوں کی موجودگی بہت نمایاں شروع ہوگئی ہے ۔ اگرچہ اُن میں سے ایک بڑی تعداد سیاحوں کی بھی ہوتی ہے لیکن بہت سے چینی یہاں رہتے اور کام کرتے ہیں۔ یہ خیال کیا گیا تھا کہ مہنداراجہ پاکسے کو متھرائی پالا سری سینا کے ہاتھوں ہونے والی شکست کے بعد نئی حکومت خود کو چین سے قدرے دور کرتے ہوئے انڈیا کے قریب ہوجائے گی۔ یہی بھی خیال کیا جاتا ہے کہ بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی ، را نے گزشتہ انتخابات میں کولیشن بنانے میں کردار ادا کیا تھا۔ تاہم موجودہ حکومت نے دیکھا کہ سری لنکن معیشت میں چینی سرمایہ کاری اور قرضے بہت گہرے سرایت کر چکے ہیں چنانچہ راجہ پاکسے کے لیے گئے معاہدوں کو توڑنا ممکن نہ تھا۔یہی وجہ ہے کہ بہت سے معاہدوں کی پاسداری کی جارہی ہے۔ چنانچہ مقامی طور پر پیدا ہونے والی بے چینی کے باوجود تعلیم یافتہ افراد ان معاہدوںکو ایک معاشی ضرورت سمجھتے ہیں۔ 
بندرگاہ اور نئی سہولیات کو شروع سے ہی ایک سفید ہاتھی کے طور پر دیکھا گیا تھا کیونکہ یہاں معاشی سرگرمی برائے نام تھی اور یہ خدشہ درست ثابت ہوا۔ یہی صورت حال دیگر تعمیرا ت پر بھی صادر آتی ہے ۔ کئی سال پہلے میں ورلڈ کپ کا ایک میچ دیکھنے چینیوں کے تعمیر کردہ سٹیڈیم میں گیا۔ یہ میچ پاکستان اور کینیا کے درمیان تھا،اور وہاں تماشائیوں سے زیادہ سکیورٹی اہل کار تھے ۔ یہ صورت ِحال تبدیل نہیں ہوگی تاوقتیکہ چینی خود کرکٹ کھیلنا شروع کردیں۔ اسی طرح کانفرنس ہال اور موٹر ویز بھی ویران ہیں۔ مسٹر سری سینا کی حکومت اپنی مدت کے تیسرے سال میں ہے ، اور اُنہیں سیاسی طور پر راجہ پاکسے سے حقیقی خطرہ محسوس ہونا شرو ع ہوگیا ہے ۔ اُن کی مقبولیت نے حکومت کو چوکنا کردیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت مقامی کونسلز کے انتخابات کو التوا میں ڈالنے کے لیے مختلف حربے استعمال کررہی ہے ۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved