تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     16-01-2017

ٹوٹے اور اکبر معصوم کا تازہ کلام

واپسی 
وزیراعظم نے کھاد پر سبسڈی ختم کرنے کا فیصلہ بالآخر واپس لے لیا ہے۔ کہا یہ گیا ہے کہ یہ فیصلہ میاں شہباز شریف کی سفارش پر کیا گیا ہے؛ حالانکہ یہ اُس دباؤ کا نتیجہ ہے جو اپوزیشن جماعتوں بالخصوص پیپلز پارٹی نے ڈالا ہوا تھا، اس موضوع پر زرداری صاحب کا بیان تو بہت سخت تھا۔ لیکن اس فیصلے کے باوجود کسان طبقے کی دلآزادی کا ازالہ نہیں ہوتا کیونکہ اس فیصلے سے کہ سبسڈی واپس کی جاتی ہے، کسانوں پر جو قیامت گزر چکی ہے یہ وہی جانتے ہیں۔ طُرہّ یہ کہ جب سبسڈی ختم کرنے کا فیصلہ کیا تو ساتھ ہی کاروباری طبقے کے لیے نئے پیکیج کا اعلان بھی کیا گیا جو مزید باعثِ دلسوزی تھا کیونکہ اس سے جو فوری تاثر پیدا ہوا وہ یہ تھا کہ انہیں فائدہ پہنچانے ہی کے لیے سبسڈی ختم کی گئی ہے اور اگر یہ دباؤ جاری نہ رہتا تو یہ فیصلہ ہرگز تبدیل نہیں ہونا تھا جبکہ کسانوں کو دیے گئے پیکیج میں بھی اِدھر اُدھر سے کوئی اچھی خبریں نہیں آرہی تھیں۔
ناقابلِ عمل؟
پاناما کیس کی سماعت کے دوران یہ آبزرویشن دی گئی ہے کہ آئین کے آرٹیکل 62، 63 پر عمل کیا جائے تو ماسوائے سراج الحق کے کوئی بھی نہیں بچے گا (اگرچہ اگلے روز لارجر بنچ کے سربراہ نے یہ ریمارکس واپس لے لیے تھے)۔ یہ آرٹیکلز آئین کا حصہ ہیں اور انہیں اس طرح ناقابلِ عمل قرار نہیں دیا جا سکتا اور ہر آرٹیکل پر اس کی رُوح کے مطابق ہی عمل کیا جانا چاہیے۔عمران خان نے تو کہہ دیا ہے کہ اگر میرے سمیت سبھی ارکان فارغ ہوتے ہیں تو ہونے دیں اور اگر انتخابات کے موقع پر ان آرٹیکلز کی خلاف ورزی کی گئی ہے تو سارا ایوان بلکہ چھوٹی بڑی ساری اسمبلیاں ہی غیر قانونی قرار پاتی ہیں۔ اور اگر ان غیر قانونی اسمبلیوں کو قائم رکھنا ہے تو یہ ایک الگ بات ہے جبکہ صحیح اور آئینی طریقہ یہ ہے کہ عدالت حکومت سے آئین میں ترمیم یا تبدیلی کی سفارش کرے ۔
درویشوں کا نشہ
عوامی نیشنل پارٹی کے سینیٹر شاہی سید کا کہنا ہے کہ جو ارکان اسمبلی شراب پیتے ہیں، انہیں پھانسی پر لٹکایا جائے البتہ چرس نوشوں کو کچھ نہ کہا جائے جو درویشوں کا نشہ ہے۔ نہ جانے کیوں شاہی صاحب چرس پینے والوں کے لیے اس استثنیٰ کی سفارش کر رہے ہیں ورنہ جہاں تک شراب نوشی کا تعلق ہے تو ایسے حضرات بھی درویشی کا دعویٰ کرتے ہوئے اس استثنیٰ کے طلب گار ہو سکتے ہیں۔ آپ کس کس کو انکار کریں گے۔ اگر چرس ہی کو لیا جائے تو جو لوگ جہاز کہلاتے ہیں اور بالعموم قبرستانوں میں پائے جاتے ہیں، کیا وہ بھی درویشی کا دعویٰ کر سکتے ہیں؟ ساغر صدیقی مرحوم صحیح معنوں میں ایک درویش صفت شخص تھا لیکن وہ چرس نہیں بلکہ آٹھوں پہر شراب میں دُھت رہا کرتے تھا۔ کیا وہ یا اُن جیسے 
حضرات بھی شاہی صاحب کے استثنیٰ میں آتے ہیں؟ علاوہ ازیں چرس کے سوا بھی کئی لوگ بعض منشیات سے مستفید ہوتے ہیں جن میں ہیروئن، گانجا، افیون اور شیشہ وغیرہ شامل ہیں۔ شاہی صاحب لگے ہاتھوں ان کے حوالے سے بھی وضاحت کر دیں کہ وہ بھی اس رعایت سے فائدہ حاصل کر سکتے ہیں؟
ایں گُلِ دیگر شگفت!
بی بی سی نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ نواز شریف فیملی کے زیرِ استعمال لندن فلیٹس 90ء کی دہائی میں خریدے گئے اور برطانیہ کے سرکاری ریکارڈ میں ایسے اندراجات موجود ہیں اور یہ انکشاف پوری تفصیلات اور وضاحتوں کے ساتھ کیا گیا ہے۔ یہ ایک مایوس کُن خبر تھی؛ حالانکہ وزیر اعظم اور اُن کے فرزندانِ ارجمند ان اثاثوں کا فوری اقرار کرنے کی بجائے زرداری صاحب کی روایت پر عمل کرتے ہوئے ان سے صاف مُکر بھی سکتے تھے۔ پھر جو ہوتا دیکھا جاتا کیونکہ صاحبِ موصوف نے بھی پہلے تو سرے محل کی ملکیت سے انکار کرتے ہوئے یہ بھی کہہ دیا تھا کہ ہمارا اس سے کوئی تعلق نہیں، جس کا جی چاہے جا کر اس پر قابض ہو جائے لیکن جونہی سوئس عدالت کے ایک فیصلے میں گنجائش نکلی، انہوں نے اسے فروخت کرنے میں ذرا دیر نہ لگائی۔ اب اس کے بعد مقدمے کا یہ اُونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے، کچھ کہا نہیں جا سکتا جبکہ حکمران خاندان کے موقف کے یہ سراسر برخلاف بلکہ متضاد ہے، اس لیے ؎
یہ ڈرامہ دکھائے گا کیا سین
پردہ اُٹھنے کی منتظر ہے نگاہ
اور اب سانگھڑ سے اکبر معصوم کا تازہ کلام:
در و دیوار تک لگتے ہیں بوجھل
بہت تنہائی ہے محفل میں، گھر چل 
پری خانہ اُجڑ جاتا ہے دل کا
اور آخر شہر ہو جاتا ہے جنگل
اچانک یاد آ جاتا ہے سب کچھ
نکل آتی ہے پھر پتھر سے کونپل
ذرا کھُل جائے ابر اُس پیرہن کا
ابھی رنگوں سے ہو جائے گا جل تھل
اگر یونہی دیئے جلتے رہیں گے
ہوا اک روز ہو جائے گی پاگل
کہیں ہم حال کیا معصومؔ اپنا
وہی ہم ہیں وہی دنیا کی دلدل
۔۔۔۔۔۔۔
اُس آبِ رزِ معانی سے
ہے دید وضو عُریانی سے
میں دل کے داغ جلاتا ہوں
مکھ سورج کی تابانی سے
میں نے دنیا کو دیکھا ہے
اِن آنکھوں کی حیرانی سے
سارے عالم پر چھلک گیا
میں بھرا ہوا ویرانی سے
اب چیخے یا خاموش رہے
کیا کہے کوئی زندانی سے
لاتا ہوں سخن پاتال سے میں
لکھتا ہوں کہاں آسانی سے
معصومؔ کہاں تک صبر کروں
میں تنگ ہوں اِس سلطانی سے
آج کامطلع
کوئی تبدیلیٔ آب و ہوا ہونے سے پہلے ہی
پرانا ہو چکا ہوں میں نیا ہونے سے پہلے ہی

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved