تحریر : مفتی منیب الرحمٰن تاریخ اشاعت     16-01-2017

حیرانی سی حیرانی

لوگوں کو جنابِ آصف علی زرداری کی ذہنی نِہاد ،مائنڈ سیٹ اور کیمسٹری کو سمجھنے میں مشکل پیش آرہی ہے ،سو حیرانی سی حیرانی ہے۔جنابِ جاوید ہاشمی نے کہا تھا:'' آصف علی زرداری صاحب کی سیاست کو سمجھنے کے لیے پی ایچ ڈی کرنے کی ضرورت ہے ‘‘۔ بہت سے لوگ زرداری صاحب کوان کے متنازعہ ماضی کے حوالے سے آسان موضوع سمجھتے ہیں ،اُن کا تمسخر اڑاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ انہیں استعمال کرنا نہایت آسان ہے،یہ اُن لوگوںکی خواہش یا خوش فہمی ہوسکتی ہے ۔ہمارے نزدیک مولانا فضل الرحمن کی طرح جنابِ آصف علی زرداری اس عہد کی سیاست کے سب سے زیادہ شناور اور ماہر ہیں ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ جنابِ زرداری نہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں ،نہ وہ گفتار اور سیاسی علم الکلام کے ماہر ہیں ، نہ اُن کے پیرائے اظہار میں کوئی غیر معمولی کشش ہے اور نہ ہی وہ کوئی کرشماتی شخصیت ہیں ۔بظاہر لوگ انہیں ایک اوسَط ذہنی سطح کا حامل شخص (Mediocre)سمجھتے ہیں ،لیکن بہرحال اپنے عہد کی جوڑ توڑ والی سیاست کے وہ بہت ماہر ہیں۔محترمہ بے نظیر بھٹو کے ظالمانہ قتل کے بعد پیپلز پارٹی پر قبضہ کرلینا اور تمام پرانے گھاگ رہنمائوںکو یکسر بے اثر کردینا کوئی معمولی کارنامہ نہیں ہے ۔ آپ کے پاس دو ہی راستے ہیں کہ سب کو نا اہل تسلیم کریں یا زرداری صاحب کی اہلیت کو سب پر فوقیت دیں ۔اُن کوحکومت مل جائے تونعمتِ اقتدارکا سارا پھل اکیلے ہی ہڑپ کرنے کے عادی نہیں ہیں، سب دوستوں اور حلیفوں کے ساتھ مل بیٹھ کر کھاناپسندکرتے ہیں،کوئی شریکِ اقتدارروٹھ جائے ،تو اُسے منانا جانتے ہیں اور اُسے اُس کے حصے سے زیادہ دینے میں بھی بخل نہیں کرتے،وہ جانتے ہیں کہ کونسا اپنا مال ہے ، ریاست کے مال کو وہ مالِ غنیمت سمجھتے ہیں ،اس لیے شرکتِ اقتدار کے باعث جو اُن کے خوانِ نعمت سے ایک با ر مستفید ہوجائے ، اُسے کسی دوسرے دسترخوان پر مزا نہیں آتا، آپ مولانا فضل الرحمن اور جنابِ اسفند یار ولی سے بھی اس بات کی تصدیق کراسکتے ہیں۔اسی لیے ان سے جب ایک انٹرویو نگار نے سوال کیا : ''مولانا فضل الرحمن ، آج کل جنابِ نواز شریف کے ساتھ شریکِ اقتدار ہیں ، وہ نواز شریف کے زیادہ قریب ہیں یا آپ کے‘‘، انہوں نے بلا تامُّل جوا ب دیا: وہ میرے زیادہ قریب ہیں ۔وہ منصبِ صدارت پر فائز ہونے کے لیے ''جئے الطاف ‘‘کا نعرہ بھی لگاسکتے ہیں اور جنابِ نواز شریف کے حاضر سروس وزیرِ اعظم ہوتے ہوئے کمالِ ہوشیاری سے نہ صرف سینیٹ آف پاکستان کی چیئرمین شپ اور ڈپٹی چیئرمین شپ بلکہ سینیٹ کاپورا کنٹرول بھی اُن سے چھین سکتے ہیں۔ آج وفاق کے دو ایوان آپس میں بٹے ہوئے ہیں، قومی اسمبلی ایک فریق اور سینیٹ دوسرے کے پاس ہے ۔ آپ کو زرداری صاحب کے سیاسی جوڑ توڑ کے فن کی مہارت جاننے کے لیے اور کونسا کرشمہ یا ''سیاسی کرامت ‘‘درکار ہے ،سینیٹ پر کنٹرول کی صورت میں اُن کی جیتی جاگتی سیاسی کرامت آپ کے سامنے ہے ۔
اُن کا حالیہ کرشمہ بند کمرے میں پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کا الگ الگ انتظامی ڈھانچہ تشکیل دے کر باپ بیٹے دونوں کاالگ الگ پارٹی کا چیئرمین بن جانا اور دونوں پارٹیوں کا فضا میں اتحاد قائم کر کے باپ بیٹے کا ایک نشان کے تحت انتخاب لڑنے کا اعلان آپ کے سامنے ہے۔
پیپلز پارٹی کا پنجاب چیپٹر یعنی جناب اعتزاز احسن جیسے مہم جولوگ خان صاحب کے ساتھ مل کر وزیرِ اعظم نواز شریف سے دو دو ہاتھ کرنے کے لیے بے چین ہیں ۔اُن کی بلا سے اُن کے ہاتھ کچھ آئے یا نہ آئے،اُن کے حریف کا ہاتھ خالی رہ جانا اوروزارتِ عُظمٰی سے محروم ہوجانا ہی اُن کی معراج ہے۔ خدا معلوم اعتزاز احسن جیسا دانائے روزگار شخص اس حقیقت کو جاننے سے کیوں قاصر ہے کہ اُن کے پاس تو پنجاب میں گنوانے کے لیے کچھ نہیں ہے ،لہٰذا ان کے لیے مارکس کے اُس مشورے پر عمل آسان ہے، جو انہوں نے مزدور طبقے کو دیا تھا : سرمایہ دار طبقے سے ٹکرا جائو ،آپ کوکامیابی مل گئی تو وارے نیارے ورنہ آپ کے پاس گنوانے کے لیے تو کچھ نہیں ہے ،یعنی فرش نشیں سے فرش تو کوئی نہیں چھین سکتا۔ اس کے برعکس زرداری صاحب کے پاس موجودہ نظامِ اقتدار کا ایک معتَد بہ حصہ موجود ہے : ایک صوبۂ سندھ کی بلاشرکتِ غیرے حکمرانی ، ایم کیو ایم نہ صرف یہ کہ بلیک میلنگ کی پوزیشن میں نہیں ہے بلکہ اپنا جائز حصہ لینے کے لیے بھی ترس رہی ہے ۔دوسرا یہ کہ وفاقی حکومت اُن کی حمایت کے بغیر بجٹ پاس کرنے کے علاوہ کوئی معمولی قانون سازی بھی نہیں کرسکتی ، لہٰذا اُن کا فائدہ موجودہ سیاسی نظام کے جاری رہنے میں ہے ۔اُن کو وزیر اعظم سے شکایات ضرور ہیں،سوجب تک اُن کی شکایات کا ازالہ نہیں ہوگا ،وہ اُن کے ساتھ چھیڑ خانی کر کے اپنی اہمیت کا احساس دلاتے رہیں گے ۔یہی حقیقت جنابِ عمران خان کی سمجھ میںبھی نہیں آرہی کہ بھاگتے چور کی لنگوٹی والا اِقتدار لے کر آپ ایک فیض رساں حکومت قائم نہیں کرسکتے ، اللہ تعالیٰ کافرمان سچ ہے: ''انسان کو جلد باز پیدا کیا گیا ہے ،(بنی اسرائیل:11)‘‘۔
اپنے صاحبزادے بلاول بھٹو زرداری کو کب اورکتنا استعمال کیا جائے ،یہ فیصلہ کرنے کا اختیار بھی وہ اعتزاز احسن کو نہیں دے سکتے ،اس کا فیصلہ وہ خود کریں گے اور صحیح وقت پر کریں گے ۔اللہ جانے اعتزاز احسن صاحب کو یہ بات کیوں سمجھ نہیں آتی کہ اُن کی سینیٹ کی سیٹ بھی زرداری صاحب کی مرہونِ مَنَّت ہے ،لہٰذا انہیں زرداری صاحب سے اختلاف کی سرخ لائن عبور نہیں کرنی چاہیے اور نہ میڈیا پر آکر یہ کہنا چاہیے کہ زرداری صاحب کے قومی اسمبلی میں آنے کے فیصلے پرمیں محوِ حیرت ہوں، انہیں یہ باور کرنا ہوگاکہ زرداری صاحب اپنے فیصلے خود کریں گے۔ہاں! جب اہلِ پنجاب اعتزاز احسن صاحب کی شخصیت کے سحر میں گرفتار ہوکر پیپلز پارٹی کو منتخب کریں گے ،تو پھر وہ مَن مانی کرنے کے بارے میں سوچ سکتے ہیں، سرِ دست تو ذاتی حیثیت میں اُن کاکوئی اپناحلقۂ انتخاب بھی نہیں ہے۔البتہ اگر اُنہیںپی ٹی آئی میں شامل ہونے کی خواہش بے چین کر رہی ہے ، تو انہیں سینیٹ سے استعفیٰ دے کر پی ٹی آئی میں شامل ہونا ہوگا، یہ یقینا اُن کا استحقاق ہے ،لیکن پارٹی کے اندر رہتے ہوئے آپ پر کچھ اخلاقی پابندیاں عائد ہوتی ہیں ۔ایک کے نکاح میں ہوتے ہوئے دوسرے شخص کے ساتھ تعلقات رکھنا جائز نہیں ہے ۔ حال ہی میں کراچی کی ایک نومولود پارٹی کے اندر دوسری جماعتوں سے لوگ آئے، مگرانہوں نے نئی پارٹی میں شمولیت سے پہلے سیاسی اخلاقیات کا ثبوت دیا اوراپنی سابق پارٹی کے ٹکٹ پر حاصل کی ہوئی اسمبلی رکنیت سے مستعفی ہوگئے۔ جنابِ اعتزاز احسن کوبھی ایسی ہی سیاسی اخلاقیات کا مظاہرہ کرنا ہوگا ،وہ پیپلز پارٹی کے ٹکٹ سے حاصل کردہ سینیٹ کی رکنیت کو جہیز میں لے کر نئی پارٹی میں شمولیت نہیں کرسکتے۔ 
بلاول بھٹو کو تواپنی والدۂ محترمہ کے سیاسی تجربات کا ادراک نہیں ہے ،مگرملک کی تاریخ اور سیاسی حرکیات سے آگہی رکھنے والوں کو خوب یاد ہے کہ جنابِ شیخ رشید نے محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ کے بارے میں کیا ریمارکس دیے تھے ۔اس کے باوجود جنابِ خورشید شاہ اور جنابِ اعتزاز احسن بلاول بھٹو کو ساتھ لے کر شیخ رشید کے آستانے پرلال حویلی پہنچ گئے،پس شرم وحیا تو دور کی بات ہے ، یہاں تویہ قول صادق آئے گا: ''حمیّت نام ہے جس کا ،گئی تیمور کے گھر سے ‘‘۔
جنابِ زرداری کی اس دانش سے ہمیں اتفاق نہیں ہے، جس کے تحت انہوں نے سیاسی مفاد کے لیے بھٹو کا لاحقہ بلاول زرداری کے نام میں شامل کرلیا۔،ہماری دانست میں اس کی ضرورت نہیں تھی۔لوگ محترمہ بے نظیر بھٹو مرحومہ کا بیٹا ہونے کی حیثیت سے ہی انہیں جانتے اور پہچانتے ہیں اورمحترمہ کے جیالے اِسی نسبت سے اُن سے چاہت رکھتے ہیں ۔ہندوستان میں اندرا گاندھی جواہر لال نہرو کی بیٹی تھیں ،اُن کی فیروز گاندھی سے شادی ہوئی تو انہوں نے اپنے نام کے ساتھ نہرو کی نسبت کو ہٹا کر گاندھی کا لاحقہ لگالیااور اِندرا گاندھی کہلائیں۔ اس کا انہیں سیاست میں کوئی نقصان نہیں ہوا ،بلکہ اُن کے بعد اُن کے خاندان میں سیاست انہی کی نسبت سے جاری وساری ہے ۔اُن کے بیٹے سنجے گاندھی، راجیو گاندھی اور اب سونیا گاندھی اورراہول گاندھی کا نام چل رہا ہے۔ اِسی طرح سے بلاول زرداری بھی بھٹو کے لاحقے کے بغیر سیاست میں وہی کردار ادا کرسکتے تھے جو آج بھٹو کے لاحقے کے ساتھ کر رہے ہیں۔ بھٹو کا لاحقہ لگاکر زرداری صاحب نے بلا ضرورت طعنے سنے ،سو ہماری نظر میں انہوں نے یہ خسارے کا سودا کیا اور ملامت کمائی۔ ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں کہ زرداری صاحب کو یقینااپنے اکلوتے فرزند کی سلامتی کی فکر بھی لاحق ہوگی ،اس لیے اعتزاز صاحب خاطر جمع رکھیں، وہ ان کا استعمال بوقت ضرورت اور بقدر ضرورت کریں گے ۔یہی وجہ ہے کہ انہوں نے پنجاب، بلوچستان، پختونخوا اور گلگت بلتستان کو بلاول ہائوس لاہور کی چار دیواری کے اندرہی رہتے ہوئے فتح کرنا کافی سمجھا۔ہماری رائے میں زرداری صاحب نے بلاول بھٹو کو سینئر انکلز کی تربیت میں دے کر اُن کے ساتھ زیادتی کی،دوسرے کے لکھے ہوئے یا رٹائے ہوئے جملے دہرا کر انسان اداکار تو بن سکتا ہے ،خطیب بے بدل اور قائد نہیں بن سکتا۔اپنے خیالات اپنے الفاظ اوراپنے فطری انداز میں بولنے سے ہی خطابت میں اصلیت آتی ہے اور خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے ،اس کے بغیر حقیقی قائد بننا دشوار ہے ۔خان صاحب کی بے صبری ان کی کمزوری بن گئی ہے، اُن کے لکھاری ، گفتاری اور سوشل میڈیا کے عشاق اور زیادہ جلدی میں ہیں،جب کہ زرداری صاحب کا صبر ان کی قوت ہے، لہٰذا وہ پاناما کےBenificiaryبھی بن سکتے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved