اللہ کے کرم کی بارش ہے کہ ہوتی ہی رہتی ہے۔ اب بھی ہو رہی ہے۔ سندھ اور بلوچستان میں بارش کا سسٹم آیا ہوا ہے۔ اس وقت کراچی کا عالم ''اندھا کیا چاہے، دو آنکھیں‘‘ والا ہے۔ شہرِ قائد کے مکین بارش کو ترستے ہوئے تھے۔ اللہ نے محرومی ختم کی اور اپنی رحمت کو پانی کی شکل میں یوں برسایا کہ کراچی سمیت سندھ کی بیشتر پیاسی دھرتی سیراب ہوگئی۔
کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہم بارش کو ترستے رہتے ہیں۔ زمین کی زبان سُوکھ جاتی ہے۔ فصلیں اُجڑ جاتی ہیں۔ اللہ کی رحمت کو ہم تک آنے میں وقت لگتا ہے مگر خیر، قصور وار ہم ہی ہوتے ہیں۔ جب ہم اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرتے تو آسمان سے ''خوراک‘‘ ملتی ہے، کچھ ترسایا جاتا ہے۔ موقع دیا جاتا ہے کہ ہم اللہ کو یاد کریں، اُس سے رجوع کریں۔ بارش کے آثار تو نہ تھے۔ ایک تو بارش اور وہ بھی موسمِ سرما میں! بات کسی حد تک اچنبھے کی ہے۔ اللہ تبارک تعالیٰ کی ذات سے کیا بعید ہے؟ قادرِ مطلق کے لیے کسی بھی وقت، کچھ بھی کرنا کیا ناممکن ہے؟ حالات و واقعات پر غور فرمائیے تو اللہ کی رحمت کا جوش میں آنا کچھ کچھ سمجھ میں آنے لگتا ہے۔ اللہ کی مرضی بھی یہی ہے کہ ہم پورے ماحول پر نظر رکھیں اور معاملات کو آپس میں جوڑ کر کسی نتیجے تک پہنچیں تاکہ اللہ کے کرم کو سمجھنا اور پھر اُس کا شکر ادا کرنا آسان سے آسان تر ہوجائے۔
جب سے پاکستان نے کچھ کرنے کی ٹھانی ہے، راستہ بدل کر منزل کی طرف سفر یقینی بنانے کی کوشش شروع کی ہے تب سے اب تک اُنہیں قرار نہیں جو ہمیں ناکام و نامراد دیکھنے کے لیے ہمیشہ بے قرار رہے ہیں۔ پاکستان پس ماندگی اور نامرادی کی زنجیریں توڑ کر ''زندانِ تونگری‘‘ کی طرف بڑھا ہے تو قدم قدم پر رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
ویسے تو بہت سے پیٹ ہیں جن میں شدید قسم کا مروڑ اٹھا ہے مگر نئی دہلی کے پیٹ کا مروڑ ایسا شدید ہے پورا پیٹ ہی داؤ پر لگ گیا ہے! اس مروڑ کو دور کرنے کا کوئی شافی چُورن میسر نہیں۔ نئی دہلی کے پالیسی میکرز کا بنیادی مسئلہ اپنے قوم کی ترقی سے زیادہ خطے کی دیگر اقوام کی پس ماندگی یقینی بنانے کا ہے۔ جس طور غنڈے اپنی دادا گیری برقرار رکھنے کے لیے پورے علاقے میں خوف و ہراس پھیلاتے ہیں بالکل اُسی طور نئی دہلی کے مقتدر حلقے چاہتے ہیں کہ خطے میں خوف کی فضاء برقرار رہے اور کوئی بھی بھارت کے سامنے آنے، اُسے للکارنے اور اُس کے مفادات کے لیے خطرہ بننے کی جرأت نہ کرے۔ جب سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت خاصی محدود ہوجائے تو کسی کا خیر کی طرف مائل رہنا بھی شر سا محسوس ہونے لگتا ہے۔
پاکستان نے چند برسوں کے دوران اپنے آپ کو دہشت گردی کے چنگل سے بہت حد تک نکال کر، خانہ جنگی ٹال کر ترقی اور استحکام کی طرف تیزی سے قدم بڑھایا ہے تو وہ سب ''شنٹ‘‘ رہ گئے ہیں جو پاکستان سے صرف خرابیوں کو وابستہ دیکھنے کے خواہش مند رہے ہیں۔ ویسے تو خیر امریکا اور یورپ بھی پاکستان کی راہیں بدلتی ہوئی محسوس کر رہے ہیں اور تھوڑے سے مشتعل بھی ہیں مگر بھارت کا معاملہ بہت بُرا ہے۔ امریکا اور یورپ ترقی یافتہ اور بہت کچھ سیکھے ہوئے خطے ہیں، اپنی ناراضی کو چھپانا اور اپنے تحفظات کو ڈھنگ سے بیان کرنا جانتے ہیں مگر بھارت کا معاملہ یہ ہے کہ بین الاقوامی تعلقات میں ڈھنگ کی سفارت کاری اور شائستہ اطوار سے اب تک بہت دور ہے۔ سوال ظرف کا ہے۔
بیجنگ اور ماسکو سے اسلام آباد کی بڑھتی ہوئی قربت نے نئی دہلی کو ایسی بے چینی سے دوچار کیا ہے جو اب تک کسی بھی سطح پر نہیں تھی۔ نئی دہلی میں مرکزی سفارتی علاقہ چانکیہ پوری کہلاتا ہے۔ مملکت کے امور چلانے کے حوالے سے رہنما اُصول دے کر عالمگیر شہرت (یا بدنامی!) حاصل کرنے والے چانکیہ کی تعلیمات پر عمل کرنے والے اِتنی بات بھی نہیں سمجھ پائے کہ قدرت کے اُصول کبھی تبدیل نہیں ہوتے۔ جو کچھ قدرت نے طے کر رکھا ہے وہ ہوکر رہتا ہے اور ہمیں طوعاً و کرعاً قبول یا برداشت کرنا پڑتا ہے۔
اب یہی دیکھیے کہ مخلوق کا رزق خالق نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہے۔ جسے جو کچھ درکار ہے وہ ملے گا۔ اس راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے والوں کا مُنہ کالا ہوکر رہتا ہے۔ یہ اُصول ہم پر بھی اطلاق پذیر ہے۔ اگر ہم بُرا کریں گے تو ہمارا بھی بُرا ہوگا۔
بات شروع ہوئی تھی بارش سے اور آ پہنچی ہے نئی دہلی تک۔ ایسا تو ہونا ہی تھا۔ آج کل معاملات اسلام آباد سے شروع ہوکر نئی دہلی تک پہنچ کر ہی دم لیتے ہیں۔ قصہ یہ ہے کہ جب سے ہم نے اپنا آپ سنبھالنے کی کوشش شروع کی ہے، مہاراج بات بات پر مشتعل ہوکر ہمارا عدم استحکام یقینی بنانے پر تُل جاتے ہیں۔ جس طور کوئی ہٹھیلا بچہ کھلونا چھن جانے پر ہڑبونگ مچاکر پورا گھر سر پر اٹھالیتا ہے بالکل اُسی طور بھارتی قیادت بھی بات بے بات اپنی اشتعال پسندی سے قیامت سی برپا کرنے پر کمر بستہ رہتی ہے۔ اب یہی دیکھیے کہ پاک چین راہداری منصوبہ شروع ہونے پر اوٹ پٹانگ حرکتیں شروع کردی گئی ہیں۔ کبھی کنٹرول لائن پر فائرنگ اور گولا باری کی جاتی ہے، کبھی سفارتی محاذ پر نیچا دکھانے کے لیے غیر سفارتی سُلوک کی بھٹّی سُلگائی جاتی ہے۔ دنیا یہ تماشا دیکھ رہی ہے اور حیران ہے کہ جو ملک اپنے آپ کو علاقائی اور عالمی طاقت بنانے کا ارادہ رکھتا ہے اُس کی قیادت اِس قدر تنگ نظر بھی ہوسکتی ہے۔ کبھی نئی دہلی میں پاکستانی سفارت کاروں کو تنگ کیا جاتا ہے اور کبھی کسی بین الاقوامی کانفرنس میں پاکستان سے ایسا سُلوک روا رکھا جاتا ہے جو تمام مسلّمہ سفارتی آداب کے یکسر منافی ہوتا ہے۔ غیر جانبدار مبصّرین آئینہ دکھانے کی کوشش کرتے ہیں تو بھارتی قیادت آئینہ توڑنے پر تُل جاتی ہے! مقبوضہ کشمیر میں خرابیاں پیدا کرنے سے دل کو تسلّی نہ ہوئی تو بلوچستان میں خرابیاں پیدا کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی تاکہ پاکستان کے اندر ایک اور وسیع و عریض اور خاصا خطرناک محاذ کھل جائے۔ جب ایسا کرنے میں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ ہوسکی تو بھارتی قیادت پانی بند کرنے جیسے اوچھے ہتھکنڈوں پر اُتر آئی۔ تنگ نظری انسانوں اور حکومتوں کو کیا کیا کرنے پر مجبور کرتی ہے!
جب کسی کے رزق کا دروازہ بند کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو قدرت متحرک ہوکر معاملات کو خود درست کرتی ہے۔ تھوڑا سا حالتِ ایمان میں جاکر غور کریں تو اندازہ ہوگا کہ اُدھر بھارت نے پانی بند کرنے جیسا رذیل ہتھکنڈا آزمانے کی کوشش کی اور اِدھر اللہ نے اپنا کرم برساکر پیغام دیا کہ یہ نظام اب تک اُس نے اپنے ہی ہاتھ میں رکھا ہے! افتخار عارف نے کہا ہے ع
یہ وقت کس کی رعونت پہ خاک ڈال گیا
یہ کون بول رہا تھا خدا کے لہجے میں
بھارت کی طرف سے پانی بند کرنے کے اقدام کا اللہ کی طرف سے آنے والا جواب آیا ہے تو ہمیں یہ کہنے کی تحریک ملی ہے ع
... وقت کس کی رعونت پہ ''آب‘‘ ڈال گیا!
نیت کی شدید کھوٹ ایسے ہی نتائج بھگتنے پر مجبور کرتی ہے۔ جب تک ہماری نیت کا اخلاص باقی ہے، ہمیں قدرت کی طرف سے ایسے ہی لطیف و جاں فزاء پیغامات ملتے رہیں گے، یہ احساس دلایا جاتا رہے گا کہ بُری نظر اور بُری نیت والوں سے گھبرانے کی ضرورت نہیں کہ ہمارے لیے یقیناً اللہ ہی کافی ہے۔