معروف پبلشنگ گروپ پینگوئن نے 2005ء میں، ایام اسیری کی یادداشتوں پر مبنی میری کتاب ''My Days in Prison‘‘ کا اجرا کیا، تو نئی دہلی کے انڈیا ہیبیٹیٹ سنٹر کے ہال میں بھارتی فلم کی چند مقتدر شخصیات، ششی کپور اور مہیش بھٹ بھی موجود تھے۔ تقریب کے بعد گفتگو کرتے اور میری کتاب کی ورق گردانی کرتے ہوئے مہیش بھٹ نے شکوہ کیا کہ بھارتی فلم ساز کشمیر پر جو فلمیں بناتے ہیں وہ پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی یا فوج کے کارناموں پر مبنی ہوتی ہیں۔ وہ کشمیرکے عوامی مسائل کو ابھارنے کے بجائے مزید ابہام پیدا کرکے قوم پرستی کا ہوا کھڑا کرتی ہیں۔ کتاب کے مارکیٹ میں آنے کے غالباً ایک سال بعد مجھے ممبئی سے فلم پروڈیوسر وشال بھاردواج کے دفتر سے فون آیا کہ وہ دہلی کے اپنے دورہ کے دوران ملنا چاہتے ہیں۔ ملاقات میں انہوں نے بتایا کہ وہ دیگر فلم سازوں کے برعکس کشمیر کی زمینی صورتحال کی عکاسی کرنا چاہتے ہیں اور اس کے لئے میری کتاب کو موضوع بنانا چاہتے ہیں۔ میں نے ان کو مشورہ دیا کہ وہ میر ے ایام اسیری پر فوکس کرنے کے بجائے فلم کا دائرہ وسیع کریں کیونکہ کشمیر نے جو کچھ سہا ہے، میری مثال تو بس انگلی کٹا کے شہیدوں میں شامل ہونے کے مترادف ہے۔ ان کے دفتر نے بعد میں پبلشرز کے ساتھ حقوق حاصل کرنے کے لئے کئی ادوار کی بات چیت کی، مگر پینگوئن کی انتظامیہ جتنی رقم کا مطالبہ کر رہی تھی، بھاردواج اس تجربہ کے لئے اتنی رقم دائو پر لگانے پر تیار نہیں تھے، اس لئے کہ سینسر بورڈ اور پھر فلم ڈسٹری بیوٹرز سے نمٹنے کے لئے بھی ان کو خاصے وسائل درکار تھے۔ چنانچہ یہ منصوبہ آگے بڑھ نہیں پایا۔
اس دوران ہمارے ساتھی بشارت پیر کی کتاب ''Curfewed Night‘‘ منظر عام پر آئی، جس میں 1990ء کے بعد کشمیر میں رونما ہوئے واقعات کو انتہائی دلچسپ پیرایہ میں ایک آپ بیتی کی شکل میں بیان کیا گیا۔ ان کے پبلشر رینڈم ہائوس نے وشال بھاردواج کو رد و بدل کے ساتھ اس پر فلم بنانے کی اجازت دی جو 'حیدر‘ کے ٹائٹل کے ساتھ خاصی مقبول ہوئی۔ اگرچہ اس فلم کو سینسربورڈ سے پاس کروانے اور بھارتی فلم ڈسٹری بیوٹرز کو اسے خریدنے کے لئے آمادہ کرنے کی خاطر ٹائٹلز میں فوج اور حکومت کی تعریف میں کئی جملے شامل کروانے پڑے، مگر عمومی طور پر اس نے کشمیر کی زمینی صورتحال اور وہاں ہوئے ظلم و ستم کی داستان بیان کرکے کئی افراد کو سوچنے پر مجبور کردیا۔ بھارت کے دور دراز علاقوں میں کشمیر کا ذکر آتے ہی لوگ پوچھتے ہیں کہ کیا واقعی جو کچھ فلم 'حیدر‘ میں دکھایا گیا ہے، سچ ہے؟ چونکہ میں اس فلم کی اسکرپٹنگ کے ساتھ کسی حد تک میں جڑا تھا، اس میں نو ایسے واقعات کی عکاسی کی گئی جو حقیقت میں پیش آئے تھے۔ لاشوں کے انبار میں ایک شخص ہذیانی انداز میں چیخ چیخ کر کہتا ہے کہ 'میں زندہ ہوں‘۔ یہ سرینگر کے گائوںکدل کے قتل عام کی عکاسی ہے۔ دوران تحقیق کشمیر کے معروف صحافی مسعود حسین نے اس شخص کو ڈھونڈ نکالا، جو قتل عام کا چشم دید گواہ تھا اور لاشوںکے ڈھیر میں اپنے آپ کو مردہ تصورکر بیٹھا تھا۔
قصہ مختصر، بھارت میں کشمیر کے حوالے سے قوم پرستی کے جنون نے ذہن سلب کرلئے ہوں، تب بھی اگر عوام تک صحیح معلومات پہچانے کا انتظام کیا جا سکے تو شاید کچھ مداوا ہو سکے۔ ویت نام اور افغانستان کو غیر ملکی تسلط سے آزادی دلانے میں اگرچہ دونوں ملکوں کے عوام نے عظیم قربانیاں دیں، مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ امریکہ اور سویت یونین میں عوام کا ایک بڑا طبقہ جنگ میں ملکی وسائل مسلسل جھونکنے کے خلاف حکومت کے خلاف صف آراء ہو گیا تھا۔ اس اندرونی دبائو نے بھی ان خطوں کو غیر ملکی تسلط سے آزاد کروانے میں اہم رول ادا کیا۔
بھارت کے سابق مرکزی وزیر اور حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے مارگ درشک منڈل یعنی اعلیٰ راہنمائی کونسل کے رکن یشونت سنہا کی قیادت میں چند مقتدر افراد نے کشمیر کا دورہ کرکے جو رپورٹ پیش کی ہے، وہ حکومت اور عوام کے لئے چشم کشا ہونی چاہیے۔ بھارت کی موجودہ نریندر مودی حکومت ابھی تک اس پالیسی پر گامزن ہے کہ پہلی اور آخری بار کشمیریوں کو ادراک کرایا جائے کہ ان کا مطالبہ ناقابل حصول ہے۔ پچھلے ستمبر میں کل جماعتی وفد کی ناکامی کے بعد یشونت سنہا کے وفد نے دو بار کشمیر کا دورہ کیا۔ اکتوبر کے آخری ہفتہ میں انہوں نے سیاسی لیڈروں سے ملاقاتیں کیں اور دسمبر میں دوبارہ جا کر ضلعی ہیڈکوارٹرز پر عام لوگوں خاص طور پر نوجوانوں سے ملاقاتیں کیں۔ سنہا کا کہنا تھا کہ اپنی سیاسی زندگی میں پہلی بار انہوں نے دیکھا کہ سرینگر اور دیگر علاقوں میں ٹریڈ سے وابستہ انجمنوں نے بھی ان سے مراعات کے مطالبات کے بجائے کشمیر کے سیاسی تصفیہ پر زور دیا۔ ان کے دورے سے قبل ملک کے ایک معروف ہندی صحافی اور سابق ممبر پارلیمنٹ سنتوش بھارتیہ نے بھی تین دیگر صحافیوں کی معیت میں حالات کا جائزہ لینے کے لئے سرینگر کا دورہ کیا تھا۔ واپسی پر بھارتیہ نے وزیر اعظم سمیت بی جے پی کے لیڈروں کے نام ایک خط میںکشمیر کی صورتحال کا موثر انداز میں احاطہ کیا۔ یشونت سنہا کا کہنا تھا کہ وہ خاصے مضطرب ہوگئے اور اس سلسلے میں انہوں نے حکومت کے اندر ٹٹولنے کی کوشش کی تو چند ایک کو چھوڑکرکوئی سننے کے لئے تیار نہیں تھا،کیونکہ موجودہ قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول نے فی الحال وزیر اعظم مودی کو یہ گھٹی پلائی ہے کہ مصالحت سے کام لینے کے بجائے پاکستان اور کشمیریوں کو دوٹوک الفاظ میں یہ پیغام دیا جائے کہ ان کے خواب حقیقت میں بدل نہیں سکتے اورکشمیر کا اصل مسئلہ پاکستان کی دراندازی ہے۔ اس کے علاوہ کشمیریوں کو یہ ادراک کروانا ہے کہ وہ کسی بھی بین الاقوامی حمایت سے محروم ہے۔ ایک طرح سے احساس محرومی پیدا کروا کے کشمیریوں کو سیاسی، سماجی اور نفسیاتی سطحوںپر فوجی بوٹوں اورمراعات کے ذریعے باورکرایا جائے کہ ان کا مستقبل بھارت کے ساتھ ضم ہونے میں ہی پوشیدہ ہے۔ اس وفد کے دیگر اراکین، فضائیہ کے سابق نائب سربراہ ایئر مارشل کپل کاک، کشمیر میں ڈیوٹی دے چکے سینئر ریٹائرڈ بیوروکریٹ وجاہت حبیب اللہ، صحافی بھارت بھوشن اور سماجی کارکن ششوبھا بھاروے کا کہنا ہے کہ چونکہ فی الحال حکومت نے آنکھوں پر پٹی باندھی ہوئی ہے، اس لئے وہ اس رپورٹ اور زمینی صورت حال کو بھارت کے عوام تک لے جائیں گے، جو میڈیا کے ذریعے پھیلائے گئے گمراہ کن پروپیگنڈہ کا شکار ہیں۔
ایسا نہیں ہے کہ کسی بھارتی وفد کے ذریعے پہلی پار ایسی کوئی پہل ہوئی ہو۔ مشہور مصنف ارون دھتی رائے، تپن بوس، گوتم نولکھا اور ڈاکٹر انوپ سرایا جیسے کئی نام ہیں، جو آئے دن کشمیر میں ظلم و ستم پر آوازیں بلند کرتے رہتے ہیں۔ چونکہ ان کا جھکائو بائیں بازو کی طرف اور وتیرہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ رہا ہے، اس لئے قوم پرستی سے سرشار افراد جلد ہی ان پر جانبداری کا لیبل چسپاں کرکے ان کی تجاویز مسترد کر دیتے ہیں۔ مگر سنتوش بھارتیہ ہو یا یشونت سنہا، ان کی سیاست نے تو ہندو قوم پرستی کی ہی کوکھ سے جنم لیا ہے، اس لئے ان پرکوئی لیبل چسپاںکرنا شاید ممکن نہ ہو۔ حکمران بی جے پی نے سرکاری طور پر ان کی رپورٹ سے دوری اختیارکر رکھی ہے، مگر اندرون خانہ چند حکومتی لیڈر اس پر سنجیدگی سے غور کرنے کی تلقین کر رہے ہیں۔ اس رپورٹ میں جس اہم نکتہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ کشمیر کی نئی نسل بھارتی سکیورٹی دستوں سے اب خائف نہیں ہے اور وہ نئی دہلی سے خاصی دور چلی گئی ہے۔ راقم نے بھی اپنے پچھلے کالموں میں اس کا ذکر کیا کہ کشمیر پر چار صدیوں سے طاقت اور خوف کے ذریعے حکومت کی جا رہی ہے۔ 2008 ء، 2010ء اور اب 2016ء کے مظاہروں نے یہ باور کرا دیا ہے کہ خوف کی نفسیات بڑی حد تک ختم ہوچکی ہے؛ تاہم طاقت کا زور اب بھی باقی ہے۔ اگر اب بھی حکومتیں اس تبدیلی کو سمجھنے سے قاصر رہیں گی تو یہ خطہ بد ترین عدم استحکام کا شکار ہو سکتا ہے۔ سنتوش بھارتیہ نے بھی مودی کو لکھے خط میں بتایا ہے کہ کشمیر میں 80 سال کی عمر کے شخص سے لے کر 6 سال تک کے بچے کے دل میں بھارتی نظام کے بارے میں بہت زیادہ غصہ ہے۔ اتنا زیادہ غصہ ہے کہ وہ ہاتھ میں پتھر لے کر اتنے بڑے میکانزم کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ اب وہ کوئی بھی خطرہ مول لینے کے لیے تیار ہیں، جس میں سب سے بڑا خطرہ قتل عام کا ہے اور یہ اس صدی کا سب سے بڑا قتل عام ہو سکتا ہے۔
چنانچہ بھارت کی سکیورٹی فورسز اور فوج میں یہ سوچ پنپ رہی ہے کہ جو بھی کشمیر میں نظام کے تئیں آواز اٹھاتا ہے‘ اسے اگر ختم کردیا جائے، اس کی جان لے لی جائے، اسے دنیا سے وداع کردیا جائے تو یہ علیحدگی پسند تحریک ختم ہوسکتی ہے اور انعام و اکرام مل سکتا ہے۔ بھارتیہ کے بقول ہمارا نظام جسے علیحدگی پسند تحریک کہتا ہے دراصل وہ علیحدگی پسندتحریک نہیںہے، وہ کشمیر کے عوام کی تحریک ہے۔ اگر 80 سال کے ضعیف سے لے کر 6 سال کا بچہ تک ''آزادی، آزادی، آزادی‘‘ کہے تو ماننا چاہیے کہ گزشتہ60 برسوں میں بھارت میں حکومتوں سے بہت بڑی غلطیاں ہوئی ہیں۔ واپسی پر یشونت سنہا نے بھی ایک انٹرویو میں بتایا کہ انہوں نے بچوں کو دیکھا جن کی آنکھیں چلی گئی ہیں، جو کبھی واپس نہیں آئیں گی۔ کشمیر کے لوگ یہ سوال کر رہے ہیں کہ ہریانہ صوبہ میں اتنا بڑا جاٹ احتجاج ہوا، گولی نہیں چلی،کوئی نہیں مرا۔ راجستھان میں گوجر آندولن ہوا،کوئی آدمی نہیں مرا،کہیں پولیس نے گولی نہیں چلائی۔ دریائے کاویری پانی کے تنازعہ کو لے کرکرناٹک میں اور بنگلورو میں اتنا بڑا حتجاج ہوا، لیکن ایک گولی نہیں چلی۔ لیکن کشمیر میں گولیاں چلتی ہیں اور کیوں کمر سے اوپر چلتی ہیں اور چھ سال کے بچوں پر چلتی ہیں؟ -
آج کے عالمی ماحول میں کسی بھی خالص سیاسی تحریک کو انتہا پسندی و دہشت گردی کا عنوان دے کر اْسے بد نام کرنا ایک آسان حربہ بنتا جا رہا ہے۔ اس کی آڑ میں حکومتیں مظلوم کو ہی گناہ گار ٹھہراتی ہیں۔ بھارتیہ اور یشونت سنہا کا بھی کہنا ہے کہ کشمیر کی تحریک مزاحمت میں ابھی نہ ہی انتہا پسندی کارفرما ہے اور نہ ہی شدت پسندی، اسے بھی سیاست حکمت عملی سے مختصر کیا جا سکتا ہے بشرطیکہ ایک مستند سیاسی عمل اور مذاکراتی حکمت عملی شروع کی جائے۔ ایسا پہلی بار ہوا کہ بھارت کے کسی بھی وفد کی رپورٹ پر کشمیر میں بھارت نواز نیشنل کانفرنس ہو، حکمران پیپلز ڈیموکرٹیک پارٹی (پی ڈی پی) ہو یا آزادی پسند تنظیمیں، سبھی نے ایک ہی سُر میں اس کی ستائش کی ہے اور حکومت کو ہٹ دھرمی کا راستہ ترک کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے پاکستان اور کشمیری نمائندوں سے بات چیت کا سلسلہ شروع کرکے مسئلہ کے دائمی حل تلاش کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ یہ ان لوگوں کے منہ پر بھی ایک طمانچہ ہے، جن کا کہنا ہے کہ کشمیری تو خود بٹے ہوئے ہیں اور وہ سیاسی عمل میں خود ہی رکاوٹ ہیں۔