تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     18-01-2017

اصول

لاپتہ لوگوں کے باب میں دو نکات بالکل واضح ہیں ۔ بحث کرنے والے اس کے باوجود دو گروہوں میں کیوں بٹ گئے؟ کیا وہ بنیادی سوال سے گریزاں ہیں؟ آخر کیوں؟ سوال تو نہیں ٹلتے، جب تک جواب نہ دیا جائے۔ وہیں کے وہیں کھڑے رہتے ہیں ‘ کوہساروں کی طرح اٹل ! 
کسی کو انہیں اغوا کرنے کا حق نہیں۔ کوئی بھی ہو‘ کتنا ہی طاقتور اور کتنا ہی مقدس۔ کتنا ہی غیرت مند ‘ ملک ‘ معاشرے اور عقائد و نظریات کے لیے کتنا ہی حساس اور مضطرب۔
ثانیاً جو کچھ ان سے منسوب کیا گیا ہے۔ جو کچھ بیان کیا گیا ہے۔۔۔۔ اور ظاہر ہے کہ سب کچھ بیان نہیں کیا جا سکتا۔۔۔۔ اگر اس کا ایک چھوٹا حصہ بھی درست ہے تو نظر انداز کیسے کیا جا سکتا ہے؟ فتویٰ اور الزام کہہ کر درگزر کیسے ممکن ہے؟ فساد فی الارض کی اجازت کیسے دی جا سکتی ہے؟
سیاسی پارٹیوں‘ دانشوروں اور رہنمائوں نے‘ حکمرانوں اور فیصلہ کرنے والوں نے خاموشی کی پراسرار چادر کیوں اوڑھ رکھی ہے۔ سینیٹر سراج الحق اظہار خیال کیوں نہیں کرتے؟ عمران خاں اپنا موقف کیوں بیان نہیں فرماتے۔ سانپ اورسنپولیے، سرِ راہ پھن پھیلائے کھڑے ہیں، اژدہے اور درندے۔ ان سے بچ کر ہم کیسے نکل سکتے ہیں؟ ایک پوری کی پوری قوم کس طرح آنکھیں موند کر بسر کر سکتی ہے۔کس طرح؟
بتایا گیا ہے کہ اللہ کے آخری رسولﷺ کی اہانت کے وہ مرتکب ہوئے۔ وہ دانائے سبل، ختم الرسلؐ‘ مولائے کلؐ ‘ اپنے پاکیزہ اور پر جلال اسما میں سے‘ دو نام اللہ نے جنہیں عطا کر دیے‘ رئوف اور رحیم ۔ جو اخلاق ‘ کردار اور علم کی آخری اور انتہائی مثال ہیں۔ ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے ملجا و ماویٰ ہیں۔ ان کی پہلی اور آخری امید۔ قرآن کریم جنہیں سراجاً منیرا کہتا ہے۔ آسمانوں پر فرشتے اورعرش بریں پر ان کا پروردگار اور زمین پر اس کے بندے‘ ہمہ وقت‘ سحر سے شام‘ شام سے سحر تک جن پہ درود بھیجتے ہیں۔ جن سے پہلے ہر پیمبر ان کی بشارت دیتا ہوا آیا۔ جن کے بعد ہر سعید فطرت نے ان کی مدح کی‘ ان سے اکتسابِ نور کیا۔ جن کی شان میں گستاخی مالک کو گوارا ہے اور نہ مخلوق کو۔ دین کے دو ستونوں میں سے جو ایک ستون ہیں۔ قرآن اور ختم المرسلین۔ کوئی مسلمان ، جس میں ایمان کی آخری رمق ہی رہ گئی ہو‘ ان کے نام پہ زندگی نذر کرنے کو سب سے بڑی سعادت سمجھتا ہے۔ وہ جنہوں نے ہمیں بتایا کہ یہ قرآن کریم کی آیت ہے اور یہ میرا قول ہے۔ وگرنہ ہم امتیاز ہی نہ کر سکتے۔
امتیاز اور اختیار کیا۔ سچائی کو بنی نوع انسان کبھی پا ہی نہ سکتے۔ وہ کبھی نہ جان پاتے کہ زندگی کیا ہے۔ آدمی کیا ہے‘ یہ کائنات کہاں سے ابھری ہے۔ آسمان و زمین کیا ہیں اور ان کے درمیان پھیلی ہوئی مخلوقات کیا۔ سورج‘ چاند اور ستارے کیا ہیں۔ موت کیا ہے اور حیات کیا؟ جو انہیں مانتے ہیں‘ سو مانتے ہیں ‘جو نہیں مانتے کیا وہ بھی ان سے فیض نہیں پاتے؟ پیغمبروں کے بغیر‘ کسی سے جو کبھی کوئی صلہ نہ چاہتے تھے۔ انؐ کے بغیر‘ خالق کائنات نے جنہیں تمام زمانوں کے لیے‘ ہر دور کے لیے نمونہ کامل اور اسوۂ حسنہ کہا‘ زندگی ایک طویل شب کے سوا کیا ہوتی؟ آدمی اور درندے میں فرق کیا باقی رہتا۔ 
ان پر کیچڑ اچھالنے اور انہی کو منہدم کرنے کی اگر اجازت دے دی جائے تو باقی کیا بچے گا؟ مشرق کے عظیم المرتبت مفکر نے‘ ایک صدی ہوتی ہے‘ جس کے افکار سے آدمیت رہنمائی پا رہی ہے، اس حق کے بارے میں‘ جو طلب کیا جا رہا ہے ، یہ کہا تھا: آزادیٔ افکار ہے ابلیس کی ایجاد۔ آزادیٔ اظہار کے نام پر‘ ان لوگوں کو کیا کھلی چھٹی دی جا سکتی ہے‘ جنہوں نے‘ بتایا گیا ہے کہ قرآن کریم کی آیات کو مسخ کیا۔ چہ دلاور است دزدے کہ بکف چراغ دارد۔ کیا وہ پاگل اور اندھے ہیں کہ اس کتاب میں ترمیم کی جسارت کریں‘ جس میں کبھی کوئی نقب نہ لگا سکا۔ اللہ نے جس کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے۔ جس کے ایک ورق ، ایک لفظ کی توہین پر‘ مسلمان کٹ مرنے کو تیار ہو گا۔
بتایا گیا ہے کہ ان مقدس ہستیوں کی تحقیر کے وہ مرتکب ہوئے‘ افضل البشرؐ سے جو وابستہ ہیں۔ جن کے وجود سے چراغاں ہوا اور برقرار رہا۔ ان میں سے بعض نے جہالت کے جنگل میں آنکھ کھولی۔ پھر عِلم کے آسمان پر اس طرح دمک اٹھے کہ اجالے کا ہر تمنائی ان کی طرف دیکھتا ہے۔ وہ جو سند ہیں۔ وہ کہ جب مہر لگا دیتے تو بات پختہ ہو جاتی۔ آنے والی تمام صدیوں میں معتبر اور معزز قول۔ جن سے اختلاف کا صرف ایک قرینہ ہے کہ ان کی روایت سے بڑی روایت اور ان کی دلیل سے بڑی دلیل لائی جائے۔ جن کے بارے میں ارشاد ہوا کہ یہ میرا کنبہ ہیں، ان سے حسن سلوک کرنا۔ وہ کہ جن میں سے کسی کی بھی پیروی کی جائے‘ نجات اور منزلِ مراد تک لے جائے گی۔
یہ کیسے لوگ ہیں‘ جن کا خیال یہ ہے کہ ان کی لغو بیانی اور ان کی شوریدہ سری اس امت کوبیخ و بن سے اکھاڑ پھینکے گی؟ کیا وہ دیوانے ہیں کہ سورج اور چاند کو پھونکوں سے بجھا دینا چاہتے ہیں؟ کیا وہ اس ملک کی بنیاد ہی کو برباد کر دینے کے آرزومند ہیں؟ اس پورے معاشرے‘ اس تمام امت اور چودہ صدیوں پر پھیلے‘ اس کے ایقان کو روند ڈالنا چاہتے ہیں۔ خود یا کسی کے ایما پر؟ احمقانہ اور بے سر و پا الفاظ کے ساتھ‘ جن کے کوئی معانی نہیں۔ اگر وہ مخبوط الحواس ہیں، اگر وہ جنون اور ہیجان میں مبتلا ہیں تو ان کے ہمدردوں اور وکیلوں کا فرض کیا ہے؟ خیر خواہ انہیں سمجھاتے کیوں نہیں؟ بتاتے کیوں نہیں کہ یہ آگ سے کھیلنے کی مانند ہے۔
بچّے ہوتے ہیں‘ دنیا میں بالغ بچے بھی۔ بظاہر پڑھے لکھے اور عاقل و بالغ مگر اپنی ذات اور اپنی جبلتوں میں گم۔ اپنے افکار میں سرگرداں۔ شعور، علم اور ادراک سے بے نیاز۔ ان میں سے ایک وہ ہے‘ لاہور کے ایک ممتاز اخبار نویس سے جس نے کہا کہ مادے کے سوا کسی چیز کو وہ نہیں مانتا۔ کوئی اس سے بحث نہ کرے اور کوئی اسے دلیل نہ دے۔ دروازہ اس نے بند کر دیا ہے۔ بجا ارشاد، سرکاری ٹیلی ویژن پر وہ وعظ کرتا اور لکھنے والوں کی رہنمائی کے درپے رہتا ہے۔ بجا ارشاد‘ یہاں تک گوارا ہے کہ سرکار کو ہر طرح کے درباریوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ 
یہ اس کی زندگی ہے‘ جس طرح چاہے بسر کرے، رائیگاں کرے۔ ملک‘ قوم اور سلطنت پر اعتراض بھی فرماتا رہے۔ جب تک گالی نہیں دیتا‘ جیتا رہے‘ شادماں اور شاداب رہے۔ چمن اور پاکستان کی بجائے، کسی کو ریگ زار ہی خوش آئے تو اس کا نصیب‘ اس کا مقدر!
معاشرے کے ایمان اور یقین کو دشنام طرازی کا مطلب کیا ہے؟ ایسے معاشرے کو، اپنے عقائد کو جو زندگی سے گراں تر سمجھتا ہو۔
کہنے والوں نے کیا وہ نہیں کہا‘ جو ان سے منسوب ہوا ہے؟ چہار جانب جس کا ذکر اور چرچا ہے ۔ ان کے وکیل اور خیرخواہ اس کی ذمہ داری قبول کریں اور ان کی ضمانت دیں۔ ازل سے یہی قانون چلا آتا ہے اور جب تک گردشِ لیل و نہار قائم ہے‘ یہی رہے گا۔
جہاں تک انہیں اغوا کرنے والوں کا تعلق ہے، وہ کوئی بھی ہوں‘ کیسے ہی جسیم و بے پناہ۔ سرکارﷺ کے حکم سے انہوں نے روگردانی کی ہے۔ موقف سنے بغیر‘ کسی کو سزا نہیں دی جا سکتی۔ شواہد اور گواہوں کے بغیر کسی پر حکم نہیں لگایا جا سکتا۔ تمام بنی نوع انسان کا یہی قاعدہ اور یہی ضابطہ ہے اور دائم یہی رہے گا۔ اصول تو بس اصول ہوتا ہے کسی کے لیے بدلا نہیں جا سکتا۔ حکم عدالت کا ہوتا ہے، کسی فرد یا کسی گروہ کا نہیں۔کوئی بھی ہو، کیسا بھی۔ 
دونوں ہی نکات بالکل واضح ہیں ۔ بحث کرنے والے اس کے باوجود دو گروہوں میں کیوں بٹ گئے؟ کیا وہ بنیادی سوال سے گریزاں ہیں؟ آخر کیوں؟ سوال تو نہیں ٹلتے، جب تک جواب نہ دیا جائے، وہیں کے وہیں کھڑے رہتے ہیں‘ کوہساروں کی طرح اٹل ! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved