تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     18-01-2017

بے رحم اشرافیہ۔۔۔۔!

وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ ہمیں یہ کہانی سنائی گئی تھی کہ وزیر اعظم نہ صرف احتساب کے لیے تیار ہیں بلکہ ان کے پاس سب رسیدیں بھی موجود ہیں۔ اب وزیر اعظم کے وکیلوں نے سپریم کورٹ سے استثنیٰ مانگ لیا ہے کہ ان پرکوئی مقدمہ عدالت میں نہیں چل سکتا۔ اگرچہ نواز شریف کے وکیل مخدوم علی خان فرما رہے ہیں کہ انہوں نے استثنیٰ نہیں مانگا، لیکن کیا کریں جسٹس کھوسہ کہتے ہیں کہ آپ آزادی رائے کے نام پر در اصل وزیر اعظم کے لیے استثنیٰ مانگ رہے ہیں۔ 
حیران ہوتا ہوں کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے استثنیٰ کیوں نہ مانگا جب ان سے خلیفہ ہوتے ہوئے کُرتے کے بارے میں سوال پوچھ لیا گیا تھا۔ ہم میں سے کتنے ہوںگے جو اپنے گھر کے ملازمین کو اسی طرح کا استثنیٰ دے دیتے ہوں جیسے وہ خود مانگتے ہیں یا دوسروں کے مانگنے پر جواز مانگتے ہیں۔ ویسے مکافات عمل واقعتاً کسی چیزکا نام ہے؟ کیا وقت تھا جب یہی میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کالے کوٹ پہن کر سپریم کورٹ پہنچ گئے تھے۔ جنرل کیانی اور جنرل پاشا کے ساتھ کی گئی درجنوں خفیہ ملاقاتوں کے نتائج نکل رہے تھے۔ جو کہتے تھے کہ وہ اب جرنیلوں کے ہاتھوں استعمال نہیں ہوں گے، وہ جی ایچ کیو میں رات کے اندھیرے میں ان سے ملاقاتیں کرتے پائے گئے۔ میمو گیٹ کمشن پر وہ زرداری اور گیلانی کو ملک دشمن قرار دلوانے میں پیش پیش تھے۔شاید انہیں پتا تھا کہ جرنیلوں کی پشت پناہی کے بغیر وہ پیپلز پارٹی کو اقتدار سے نہیں ہٹوا سکیںگے۔ جنرل کیانی اور جنرل پاشا نے مدت ملازمت میں توسیع قبول کی کیونکہ حکومت وقت پر دبائو اتنا تھا کہ وہ جھک گئی۔ پیپلز پارٹی بھی سیکھ گئی تھی کہ خود بھی لوٹو اور دوسروں کو بھی اس میں حصہ دو۔ کون سا زرداری یا گیلانی کی جیب سے جا رہا تھا۔ اپنی جیب سے ایک شوگر مل ذوالفقار مرزا کے پاس جا رہی تھی جو زرداری نے چھین لی۔ اس کے لیے کیا کچھ نہیں سنا اور مرزا نے کیسے کیسے انکشافات کر دیے۔ سنا ہے اب دونوں میں صلح ہوگئی ہے اور مرزا یار زرداری کے لیے سندھ کی گلیاں خالی چھوڑ کر کہیں غائب ہوگئے ہیں۔ مرزا کی ساری بغاوت اور بہادری ہوا ہو چکی ہے۔ سندھ میں کسانوں کی گنے کی ٹرالیاں پولیس کے ذریعے زرداری کی ملوں کے لئے چھیننے کا کام ہو رہا ہے۔ انور مجید کے وہی کارنامے ہیں، لیکن ذوالفقار مرزا غائب ہیں۔ ان سب لوگوں کے ذاتی مفادات ہوتے ہیں جنہیں یہ قومی مفادات کا نام دے کر لڑائی لڑتے ہیں اور جب وہ مفادات پورے ہوجاتے ہیں تو ذوالفقار مرزا کی طرح غائب ہو جاتے ہیں کیونکہ اپنے بیٹے حسنین مرزا کا سیاسی مستقبل بھی تو بچانا ہوتا ہے۔ 
دوسری طرف کئی دانشوروںکو ٹی وی پرکرپشن اور کرپٹ ایلیٹ کا ایسا دفاع کرتے دیکھا کہ حیران ہوں۔ کیا یہی لوگ اپنے گھر کسی ایسے ملازم کو دس ہزار روپے کی نوکری پر رکھیں گے جس پر ماضی میں فراڈ، غبن اور کرپشن کے الزامات لگتے رہے ہوں یا وہ جیل میں رہا ہو؟ اپنے گھر میں تو ان کی بیگمات اپنے نوکروں کی کھال اتار لیتی ہیں، اگر پتا چل جائے کہ اس نے گھر کے سودے میں دس ررپے کی ٹکی لگائی ہے یا گھرکا کوئی برتن ہاتھ سے چھوٹ کر ٹوٹ گیا ہے۔ لیکن ملک کا وزیر اعظم یا سیاستدان جو کچھ لوٹ لے اس کے لیے ان کا دل بہت بڑا ہوتا ہے کیونکہ یہ ٹی وی کے دانشور اپنا حصہ پورا لے رہے ہوتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اگر ہمیں ایک پائو گوشت ملتا رہے تو پورا اونٹ ہی ذبح کیوں نہ ہو جائے اپن کو کوئی پروا نہیں۔ یہ وہ رویہ ہے جس نے ہماری بنیادیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔ ہمارے حکمران یہ سمجھ رہے 
ہیںکہ ہم اس دنیا میں رہتے ہیں جہاں کے باسی ان پڑھ ہیں، انہیں جدید دنیا کا کچھ پتا نہیں، ان جانوروں کو جو بھی بات بتا دی جائے گی وہ اس پر یقین کر لیں گے۔ 
اب جب نائب امریکی صدر سر عام رو رہا تھا کہ اس کے پاس اپنے بیٹے کا کینسر کا علاج کرانے کے لیے پیسے نہیں تھے اور وہ گھر بیچ کر علاج کرانا چاہتے تھے تو پھر بھلا کیسے ایسی باتوں کا اثر پوری دینا میں محسوس نہیں کیا جائے گا؟ پاکستان کے لوگ کیسے اپنی لیڈرشپ کی طرف نہیں دیکھیں گے جہاں وزیر اعظم سمیت درجنوں ایسے بڑے لوگ ہیں جنہوں نے پاکستانی عوام کے ٹیکس سے اپنا علاج بیرون ملک کرایا۔ کیا فاروق لغاری غریب تھے جن پر عوام کی جیب سے ستر ہزار ڈالر خرچ کر کے دل کا علاج امریکہ سے کرایا گیا؟ یا فیکٹریوں کی مالک فہمیدہ مرزا غریب تھیں کہ انہوں نے قومی اسمبلی سیکرٹریٹ سے تیس لاکھ روپے امریکہ میں اپنے علاج کے لیے ادا کرائے اور جاتے جاتے اپنی شوگر ملوں کا چوراسی کروڑ روپے قرضہ بھی معاف کرالیا اور سپیکر کا عہدہ چھوڑنے سے پہلے تاحیات مراعات بھی اپنے قلم سے خود منظور کرلیں۔ کیا ایسی تا حیات مراعات فہمیدہ مرزا اپنے گھریلو ملازمین کو بھی دیں گی یا پھر ایسی عیاشیاں صرف عوام کے ٹیکسوں سے وہ اپنی ذات کے لیے مخصوص سمجھتی ہیں؟ 
دنیا بدل رہی ہے، لیکن نہیں بدل رہے تو ہمارے حکمران۔ وہ بھلا کیوں بدلیں، جب انہیں علم ہے کہ اس ملک میں اخلاقیات نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ سیاست کو اس ملک میں گالی بنا دیا گیا ہے۔ الیکشن کمشنر سردار رضا خان نے تو سیاست پر لعنت ہی بھیج دی ہے۔ یہ وہی سردار رضا خان ہیں جنہیں سیاستدانوں نے یہ عہدہ دیا ہے جہاں سے انہیں ایک تگڑی تنخواہ اور مراعات ملتی ہیں۔ مطلب یہ کہ سیاست ایک گندہ کاروبار ہے اور سیاست کی وجہ سے الیکشن کمشنر جیسے اعلیٰ عہدے پر فائز شخصیت بھی اسے گالی دیتی ہے۔ 
سیاست کوگالی کیسے بنایا گیا؟ جب آپ کسی کے آگے خود کو جواب دہ نہیں سمجھتے تو پھر آپ کے ہاتھوں اعلیٰ عہدے پر فائز لوگ بھی آپ پر لعنت بھیجیں گے۔ دنیا میں ایک دور تھا جب بادشاہ اپنے آپ کو کسی کے آگے جواب دہ نہیں سمجھتے تھے۔ آپ اب بھی اُسی دنیا میں رہ رہے ہیں۔ 
ہوسکتا ہے اب نواز شریف کو احساس ہو رہا ہو کہ ایک عام سی زندگی کا کیا مزہ ہوتا ہے جس میں آپ کو کوئی نہیں جانتا۔ آپ پرکہیں کیس نہیں چلتا۔ آپ کے گریبان پر کوئی ہاتھ نہیں ڈالتا۔کوئی سوال نہیں پوچھتا۔ آپ ایک چھوٹی سی دنیا میں رہتے ہیں جہاں چند لوگ آپ سے پیار کرتے ہیں اور آپ کی ہربات پر یقین کرتے ہیں۔ 
جب آپ کسی بڑے عہدے پر فائز ہوجائیں، مشہور ہو جائیں تو پھر آپ کی زندگی آپ کے ہاتھ سے نکل جاتی ہے۔ پھر آپ کی ڈور کسی اور کے ہاتھ میں آ جاتی ہے۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ بڑے عہدے کے ساتھ جڑے تمام فوائد اور عیاشیاں تو آپ کریں لیکن جب جواب طلبی کا وقت آئے تو آپ فوراً کہیں کہ ہمارا تو احتساب نہیں ہو سکتا۔ اگر یہ بات ہے تو پھر یہ ہزاروں لوگ جیلوں میں کیا کر رہے ہیں؟ ایک جرم وزیر اعظم اور اس کے بچے کریں تو انہیں معافی ہے لیکن اگرکوئی عام انسان کرے تو وہ رل جائے۔ اس آزادی کے نام پر آصف زرداری سوئس بینکوں میں رکھے چھ ارب روپے ڈکار گئے اور خود ذوالفقار مرزا سے ایک مل بھی چھین لی۔ 
اگر جمہوریت نے اس ملک میں چلنا ہے تو پھر بڑے لوگوں کو احتساب اور حساب کتاب کے لیے تیار ہونا ہوگا۔ نئی نسل اب برداشت نہیں کرے گی کہ وہ جب نائب امریکی صدر بائیڈن کے آنسو دیکھتے ہیںکہ اس کے پاس اپنے بیٹے کے علاج کے لیے ایک لاکھ ڈالر نہیں تھے تو پھر سب سوچتے ہیں کہ کیسے وزیر اعظم نواز شریف نے لندن سے لاہور واپسی کے سفر پر تین کروڑ روپے یا تین لاکھ ڈالر خرچ کردیے تھے۔ امریکی صدر یا اس کا نائب اگر سرکاری پیسوں سے اپنے بیٹے کا علاج نہیں کرا سکتا تو پھر فہمیدہ مرزا نے پاکستانی عوام کے ٹیکسوں سے تیس ہزار ڈالر اپنے علاج پر اسی امریکہ میںکیسے خرچ کر دیے؟ چوراسی کروڑ روپے کا بینک قرضہ معاف کرانے والی فہمیدہ مرزا جیسوں کے پاس تو اتنا پیسہ ہے کہ انہیں تو چاہیے اپنے علاقے میں ہسپتال کھولیں اور اپنے سندھی غریبوں کا علاج اپنے پیسے سے کرائیں۔ لیکن یہ تو الٹا انہی غریبوں کے پیسوں پر امریکہ سے علاج کراتے ہیں اور معزز بھی کہلواتے ہیں۔ 
ہماری ایلیٹ کلاس نہ صرف بے رحم ہے بلکہ کریمنل بھی ہے۔ اور ہمارے جیسے احساس کمتری کے مارے اس جعلی کریمنل اشرافیہ کو سر پر بھی بٹھالیتے ہیں۔۔۔!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved