تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     18-01-2017

فرقہ واریت اور دہشت گردی

فرقہ واریت اور دہشت گردی کا باہمی تعلق وہی ہے جو والدین اور اولاد کا ہے۔
قومی ایکشن پلان تنازعات کی زد میں ہے۔ ابھی تک بنیادی امور ہی طے نہیں ہو سکے۔ اس کی بڑی وجہ وہ ابہام ہے جو مذہب، مذہبی اداروں اوردہشت گردی کے باب میں ریاست کے ذمہ دار حلقوں میں اعلی سطح پر، سرایت کیے ہوئے ہے۔ اعلیٰ سطح پر میں نے اس لیے کہا کہ جو ریاستی و حکومتی ادارے اور افراد، نچلی سطح پر اور براہ راست زمینی حقائق سے وابستہ ہیں، جیسے پولیس افسران، وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ فرقہ واریت اور دہشت گردی کا باہمی تعلق کیا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ دونوں کو الگ نہیںکیا جا سکتا۔ جب تک ہم اس کو نہیں جان پائیں گے، ابہام باقی رہے گا۔
دہشت گردوں کو ہم نے بڑی حد تک ختم کر دیا۔ اس کو قومی الیکشن پلان کی کامیابی کہنا چاہیے۔ تاہم انتہا پسندی کو ہم ابھی تک ختم نہیں کر پائے، یوں دہشت گردی کا امکان اور خوف باقی ہے۔ میں اگر یہ کہوں کہ اس سمت میں ریاست نے ابھی تک پہلا قدم ہی نہیں اٹھایا تو اس میں مبالغہ نہیں ہوگا۔ انتہا پسندی ہی وہ درخت ہے جس پر دہشت گردی کا پھل لگتا ہے۔ اس کی ایک قسم فرقہ واریت ہے۔ فرقہ واریت کو بالعموم مسلکی اختلاف کے ساتھ خلط ملط کر دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد یہ مقدمہ قائم کیا جاتا ہے کہ دہشت گردی اور فرقہ واریت میں کوئی تعلق نہیں۔ مسلکی اختلاف دہشت گردی کا کم از کم بڑے پیمانے پر سبب نہیں ہے، لیکن فرقہ واریت دہشت گردی کی ماں ہے۔
میں یہ بات پہلے بھی لکھ چکا کہ تاریخی اعتبار سے، مسلمانوں میں فرقے اصلاً تین ہی ہیں جن کی بنیاد سیاسی اختلاف میں ہے۔سنی، شیعہ اور خوارج۔ ان گروہوں نے اپنے اپنے سیاسی موقف کے لیے دینی استدلال تلاش کیا تو فرقے وجود میں آگئے۔ ہماری تاریخ ان کے مابین تصادم کی داستان ہے۔ مسلک اس وقت بنے جب علما نے قرآن مجید اور سنت کی تفہیم یا استنباطِ احکام میں اختلاف کیا۔ مسلکی اختلاف نے مسلمانوں کو خلفشار میں مبتلا نہیں کیا۔ اس سے وہ شاندار علمی روایت وجود میں آئی ہے جس پر ہم فخر کر سکتے ہیں۔ اس کے برخلاف سیاسی اختلاف کے باعث گروہ باہم دست و گریباں ہوئے۔ اس جنگ میں سب نے وہ اینٹ پتھر بے دریغ استعمال کیا جس سے دوسرے کا سر پھوڑا جا سکتا تھا۔ بدقسمتی سے مذہب کو بھی سیاسی جنگ کا ایک ہتھیار سمجھا گیا۔ اس نے مسلمانوں میںفرقہ واریت کی بنیاد رکھ دی۔
حکمرانوں نے جب مذہب کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہا تو ہمارے جلیل القدر اسلاف نے اس کو قبول نہیں کیا۔ عباسیوں نے کہا جو ہماری بیعت نہیں کرے گا، اس کا اپنی بیوی سے ازواجی رشتہ ختم ہو جا ئے گا۔ امام مالکؒ نے کہا کہ اسلام میں جبری طلاق کو قبول نہیں کیا جا سکتا۔ دین نے بتایا ہے کہ طلاق کیسے واقع ہو تی ہے۔ حکمرانوں کو یہ حق نہیں کہ وہ اپنے سیاسی مفاد کے لیے دین کو استعمال کریں۔ امام نے سزا قبول کر لی لیکن تاریخ کے صفحات پر اپنی گواہی کو ثبت کر دیا۔ امام مالکؒ ہوں یا امام ابو حنیفہؒ، ان کا کبھی کوئی سیاسی ایجنڈا تھا نہ وہ اپنے عہد میں اقتدار کی کشمکش میں فریق بنے۔
یہ بات قابلِ غور ہے کہ جب دنیا میں مسلمانوں کا سیاسی غلبہ ختم ہوا تو فرقہ واریت بھی بڑی حد تک دم توڑ گئی۔ اب اقتدار کا جھگڑا باقی نہیں رہا۔ اس دوران میں انہوں نے اپنے اپنے فرقے کی علمی بنیادوں کو مستحکم کیا۔ علمی کام آگے بڑھا تو تجدید کا آغاز ہوا۔ یوں فرقوں کی صورت تبدیل ہوتی گئی اور ان میں فاصلہ بھی کم ہوتا گیا۔ علامہ اقبال مثال کے طور پر مسلمانوں کی تجدیدی روایت کے آدمی ہیں۔ وہ سنی تھی اور حنفی بھی۔ انہوں نے اپنے بیٹے جاوید اقبال کو فقہ حنفی پر کاربند رہنے کی وصیت کی۔ اس کے باوجود انہوں نے خلافت کو اسلامی ادارہ نہیں کہا۔ وہ اسے عرب سامراجیت (Arab Imperialism)کہتے تھے۔ اسی وجہ سے انہوں نے عثمانی خلافت کے خاتمے اور مصطفیٰ کمال کی آمد کو مسلمانوں کے لیے ایک نیک شگون قرار دیا۔ وہ بعد میں مصطفیٰ کمال سے مایوس ہوئے لیکن کسی عالمی خلافت کے حامی کبھی نہیں رہے۔ اسی طرح اہلِ تشیع میں جب تجدید کا کام آگے بڑھا تو یہ امام ِ معصوم کی حکومت سے ولایت فقیہ تک آپہنچا۔ یوں سنی اور شیعہ سیاسی افکار کا فاصلہ سمٹنے لگا۔ اس سے پہلے اصولی اور اخباری گروہ وجود میں آچکے تھے۔ استاذ مرتضیٰ مطہری کے نزدیک اصولی مذہب سنیوں سے اتحاد کی غرض سے اپنایا گیا تھا۔
دوبارہ اقتدار کا کھیل شروع ہوا تو ایک بار پھر فرقہ واریت کا الاؤ جل اٹھا۔ 1979ء میں ایران کا انقلاب آیا تو اس کے نتیجے میں ایران شیعہ ریاست قرار پائی اور اس کے ساتھ انتقالِ اقتدار کا تصور بھی سامنے آیا۔ اس نے عرب ریاستوں کو خوف زدہ کر دیا۔ اس کا راستہ روکنے کی کوشش ہوئی۔ یوں اقتدار کی جنگ میں ایک بار پھر مذہب ہتھیار بنا۔ 1979ء کے بعد سے پاکستان فرقہ واریت کی زد میں ہے۔
دوسری طرف جب القاعدہ نے اپنا پرچم بلند کیا تو ابتدا میں اس کا ہدف خارج میں تھا۔ پھر اس کی کوکھ سے ایک گروہ نے جنم لیا جو زرقاوی کی قیادت میں منظم ہوا۔ زرقاوی نے اہلِ تشیع کی تکفیر کی اور اس طرح القاعدہ خود مسلمانوں میں انتشارکا باعث بنی۔ داعش نے خلافت کا وہ دینی بیانیہ اختیارکر لیا جس نے عباسیوں کے عہد میں جنم لیا تھا۔ القاعدہ اور داعش دونوں کو دہشت گرد تنظیمیں کہا جاتا ہے۔ دونوں کی بنیادوں میںفرقہ واریت موجود ہے۔ اسی فرقہ واریت نے انہیں پاکستان کے ا یسے گروہوں اور افراد سے قریب کیا جو 1979ء کے بعد فرقہ واریت کودہشت گردی میں بدل چکے تھے۔ یوں آج فرقہ واریت اور دہشت گردی کو الگ کرنا ممکن نہیں۔
جو لوگ اس پس منظر کو نظر انداز کرتے ہیں یا اس سے بے خبر ہیں، انہیں یہ سمجھنے میں دقت پیش آتی ہے کہ فرقہ واریت اور دہشت گردی باہم مربوط کیسے ہو سکتے ہیں۔ پھر وہ یہ دلیل دیتے ہیں کہ پاکستان میں پہلے بھی سب ایک ساتھ رہتے تھے، اب کیوں نہیں رہ سکتے؟ وہ اگر اس پر غور کریں اور یہ جانیں کہ کب اور کیوں مذہب سماجی خلفشار کا سبب بنا تو شاید وہ بہتر طور پر اس معاملے کو سمجھ سکیں۔
اصل مسئلہ مذہب کا سیاسی استعمال ہے۔ اسی سے فرقہ واریت نے جنم لیا اور اسی وجہ سے آج بھی مسلمانوں میں انتشار ہے۔ آج سیاسی اسلام کی ارتقائی صورت اور فرقہ واریت کے ملاپ نے جو بیانیہ ترتیب دیا ہے، دہشت گردی اسی کا مظہر ہے۔ پاکستان میں اگر مذہبی گروہ غیر سیاسی ہو جائیں توفرقہ واریت بھی ختم ہو جائے گی۔ پھر یہ ایک ایسا اختلاف ہوگا جو علمی دائرے میں ہو گا اور مسلمان معاشروں کی ذہنی صحت کی علامت ہوگا۔ مذہبی گروہوں کے غیر سیاسی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اقتدار کی کشمکش میں حریف نہ بنیں۔ ان کے لیڈر سماج کی اخلاقی تربیت کریں اور اگر حکمران سیاسی مقاصد کے لیے دین کو استعمال کریں یا اس میں تحریف کریں تو امام مالکؒ اور امام احمد ابن حبنلؒ کی طرح صاحبانِ عزیمت بن کر کھڑے ہو جائیں۔ اس سے مسلم سماج کا دینی تشخص قائم رہے گا اور فرقہ واریت بھی پیدا نہیں ہوگی۔
اگر خلیج کی ریاستیں اپنی لڑائی غیر مذہبی بنیاد پر لڑیں تو میں پوری ذمہ داری سے عرض کر تا ہوں کہ پاکستان میں بھی فرقہ واریت ختم ہو جائے۔ پھر شیعہ اور سنی دونوں گروہوں میں مذہب کو تاریخ کے بجائے قرآن و سنت سے سمجھنے کا رجحان پیدا ہوگا۔ جب لوگوں نے دین کو اصل ماخذ سے سمجھنا شروع کیا، فرقہ واریت ختم ہو جائے گی۔ اس کے نتیجے میں دہشت گردی بھی۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved