تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     18-01-2017

ایک اور فیتہ کٹ گیا

گوادر ڈیپ سی پورٹ پر عوام کو کتنا ہی گمراہ کرنے کی کوشش کی جائے، لیکن وہ سچ جو پاکستان کی وزارت خزانہ کی فائلوں، سٹیٹ بینک آف پاکستان کے کھاتوں، پورٹ اینڈ شپنگ اور امور خارجہ کی وزارتوں کے ریکارڈ کا حصہ بن چکا ہے، اسے کس طرح چھپایا اور جھٹلایا جائے گا۔ اگر ان سب کو ضائع بھی کرا دیا جائے تو عوامی جمہوریہ چین کے پاس موجود یہ ریکارڈ کیسے ختم کیا جا سکے گا، جس میں تحریر ہے کہ گوادر بندرگاہ کی تعمیر جنرل مشرف نے شروع کی تھی۔ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے میانوالی میں چشمہ نیوکلیئر پاور پراجیکٹ کا افتتاح کرتے ہوئے فرمایا کہ پچھلی کسی بھی حکومت نے ملک سے بجلی کی کمی دور کرنے کے لئے کوئی کام نہیں کیا اور یہ اعزاز صرف مسلم لیگ نواز اور اس کے وزیر اعظم کے حصے میں آیا کہ وہ دھڑا دھڑ اپنے شروع کئے گئے منصوبوں کی تکمیل کرتے ہوئے آئے روز کسی نہ کسی پاور پراجیکٹ کا فیتہ کاٹ رہے ہیں اور اسی سلسلے میں چشمہ نیوکلیئر پاور پراجیکٹ کا بھی افتتاح کر رہے ہیں تاکہ ملک کے عوام کو لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کے ساتھ ساتھ سستی بجلی مہیا کی جائے۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر وہ کسی بھی منصوبے کا فیتہ کاٹتے ہوئے قوم کویہ بھی بتا دیا کریں کہ جس منصوبے کا وہ افتتاح کر رہے ہیں اسے کب اور کس نے شروع کیا تھا؟ ہو سکتا ہے وزارت پانی و بجلی یا واپڈا کی جانب سے کسی نے بریف نہ کیا ہو کہ حضور جس منصوبے کا آپ افتتاح کرنے کے لئے میانوالی تشریف لے جا رہے ہیں اس کا سنگ بنیاد جنرل پرویز مشرف نے رکھا تھا اور 118 ارب روپے کی لاگت سے چشمہ نیوکلیئر پراجیکٹ کے علاوہ چشمہ ہائیڈرو پاور پراجیکٹ، غازی بروتھا اور ساتھ ہی ٹرانسمشن گرڈز جیسے پراجیکٹس بھی جنرل مشرف کی حکومت کے کارنامے ہیں۔
حکمران اپنی ہر تقریر میں اپنے سامنے بیٹھے ہوئے پابند افراد کو ایک ہی بات بتاتے جا رہے ہیں کہ پچھلی حکومتوں سے پوچھیں کہ وہ کیا کرتی رہی ہیں؟ انہوں نے ملک سے بجلی کی کمی پوری کرنے کے لئے دلچسپی کیوں نہیں لی؟ آج ملک میں لوڈ شیڈنگ انہی کی وجہ سے ہے کیونکہ ان حکومتوں نے بجلی پیدا کرنے کا ایک بھی کارخانہ ( پراجیکٹ) نہیں لگایا۔ جناب والا! آپ ہی کے زیر سایہ آپ ہی کی وزارت پانی و بجلی کے ماتحت کام کرنے وا لے ادارے، واپڈا کا جاری کردہ ایک پمفلٹ آپ کی خدمت میں پیش کرنے کی جرأت کر رہا ہوں جس میں پوری تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ پانی اور بجلی کا کون کون سا منصوبہ کس دور میں شروع کیا گیا۔ آپ کو یہ معلومات اس لئے بھی جان لینی چاہئیں تاکہ آئندہ آپ کی کوئی وزارت یا محکمہ آپ کو غلط معلومات نہ دے۔اس طرح ہر وزارت اور اس کے بڑے عہدیدار خبردار ہو جائیں گے، وہ آپ کو درست معلومات دینے لگیں گے اور آپ اپنے سامعین کے ساتھ یہ کہتے ہوئے شرمندگی محسوس نہیں کریں گے کہ سب منصوبے اور فیتے ہم ہی کاٹ رہے ہیں۔ جناب عالی! بجلی پیدا کرنے کے چند منصوبے یہ ہیں:
٭منگلا رائزنگ: دنیا کا ساتواں بڑا ہائیڈرو الیکٹرک پراجیکٹ جو 1962ء میں جنرل ایوب خان نے شروع کیا، 1967ء میں مکمل ہوا۔ وقت گزرنے کے ساتھ اس میں سلٹنگ(Silting) کا گمبھیر مسئلہ شروع ہو گیا جو اس پاور ہائوس کے لئے سخت نقصان دہ ثابت ہو سکتا تھا۔ اسے ختم کرنے کے لئے جنرل مشرف کی حکومت نے منگلا ڈیم کی رائزنگ کا منصوبہ تیار کیا جس میں ایمرجنسی، مین سپل وے، مین ڈیم اور پاور سٹیشن شامل ہیں۔ جناب وزیر اعظم! اگر آپ وزارت پانی وبجلی سے منگلا ڈیم رائزنگ کے منصوبے کی بریفنگ لیں تو وہ بتائیں گے کہ جنرل مشرف کے اس منصوبے سے پاکستان کی عوام کو بجلی کے 221 بلین یونٹس سالانہ مزید حاصل ہوں گے، اس لئے یہ درست نہیں کہ پچھلی کسی حکومت نے بجلی کی کمی پوری کرنے کے لئے کچھ بھی نہیں کیا۔ 
٭گومل زیم ڈیم: جناب والا! آر سی سی سے تیار کیا جانے والا کھجوری ڈیم پاور پلانٹ مارچ 2013ء میں مکمل ہوا اور آپ کے تیسری مرتبہ وزیر اعظم بننے کے صرف تین ماہ بعد 12 ستمبر 2013ء کو 17.4mw (91 ملین یونٹ فی گھنٹہ) کی پیداواری صلاحیت رکھنے والا یہ منصوبہ مکمل ہوا تھا۔ اس پاور پلانٹ کا سنگ بنیاد اگست2001ء میں جنرل مشرف کی حکومت نے رکھا تھا۔
٭گولن گول ہائیڈرو پاور پراجیکٹ: دریائے گولن گول پر تعمیر کئے جانے والے 108mw(442 ملین یونٹ سالانہ) کی تعمیر پی پی پی کے دور حکومت میں یکم فروری2011ء میں شروع کی گئی تھی۔
٭دیا مر بھاشا ڈیم: 894.24 بلین روپے کی لاگت کا اسلام آباد سے 430 کلومیٹر شمال مغرب میں دریائے سندھ پر شروع کیا جانے والا 4500mw کا یہ پاور پراجیکٹ جنرل مشرف کی حکومت نے منظور کرتے ہوئے اس کی فزیبلٹی سٹڈی مکمل کرائی اور 20 اگست 2009ء کوECNEC نے اس کی باقاعدہ منظوری دی، لیکن ابھی تک اس ڈیم پر شاید جنوں بھوتوں کا سایہ ہے جو یہ مکمل نہیں ہو رہا۔
٭نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ: دریائے نیلم کے نیچے سے 42 کلومیٹر کی طویل سرنگ کے ذریعے مظفر آباد (آزاد کشمیر) کی خوبصورت وادی میں تجویزکئے جانے والے 969mw کے اس پاور پراجیکٹ کی تعمیر کا با قاعدہ آغاز جنرل پرویز مشرف کے دور میں جنوری2008ء میں ہوا تھا جسے2017ء میں مکمل ہونا تھا، لیکن نہ جانے اسے کس کی نظر لگی کہ 404.3 بلین روپے کی لاگت کا یہ پراجیکٹ ابھی تک مکمل ہونے کا نام نہیں لے رہا، حالانکہ بجلی کے ہر بل پر نیلم جہلم کے نام سے وصول کئے جانے والے سرچارج کی مدت میں اضافہ کر دیا گیا ہے۔
وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف اپنی ہر تقریر میں فرماتے ہیں کہ تمام بڑی بڑی سڑکیں اور مو ٹر وے کسی اور نے نہیں بلکہ صرف انہوں نے بنائی ہیں۔ جناب والا! این ایچ اے کا ریکارڈ گواہی دے گا کہ دسمبر1997ء میں یہ موٹر وے مکمل ہوئی اور اس کی توڑ پھوڑ اور اپنوں کو نوازنے کے لئے اس کا رخ سالٹ رینج کی جانب کرنے پر اخراجات بڑھے۔ اس کی تعمیر میں استعمال کئے گئے ناقص میٹریل کی وجہ سے اب تک اس کی مرمت پر جو اخراجات آچکے ہیں اس سے ایک نئی موٹر وے بن سکتی تھی۔ جناب والا! پانچ کھرب روپے کی لاگت سے کراچی کی لیاری ایکسپریس وے اور 2.9 بلین روپے کی لاگت سے کراچی ناردرن بائی پاس جنرل مشرف کا تحفہ ہے کسی اور کا نہیں۔
٭ جنرل مشرف نے 15.5 بلین روپے کی لاگت سے 247 کلومیٹر کی گوادرـ خضدارـ رتو ڈیرو روڈ کا منصوبہ دیا۔ 8 بلین روپے کی لاگت سے لواری ٹنل کا منصوبہ مکمل کرایا۔ پندرہ بلین روپے کی لاگت سے لیاری سے گوادر اور پھر گوادر سےGABD تک مکران کوسٹل ہائی وے کے نام کا 647 کلومیٹر طویل منصوبہ دیا۔ ساڑھے چودہ بلین روپے کی لاگت کی 1270 کلومیٹر طویل ترین انڈس ہائی وے، ہالہ مورو روڈ مکمل کرائی۔ کوہاٹ ٹنل 35 بلین روپے کی لاگت سے تعمیر کی گئی۔ اسلام آباد پشاور موٹر وے 10 بلین روپے کی لاگت سے پنڈی بھٹیاں فیصل آباد موٹر وے اور پھر لاہور اوکاڑہ N-5 ، لاہور سے قصور گنڈا سنگھ والا اور قصوردیپالپور تک دو رویہ سڑکیں جنرل مشرف کے تحفے ہیں۔
٭ 144 بلین روپے کی لاگت سے میرانی ڈیم،گریٹر تھل کینال،کچھی کینال، رینی کینال اور پھر سیہون شریف سے سمندر کےRBOD11 تک اور گریٹر تھل کینال، یہ تمام میگا پراجیکٹس جنرل مشرف حکومت کے دور کے ہیں۔ وزیر اعظم صاحب جو فیتے آپ کاٹ رہے ہیں وہ آپ سے پہلے والے حکمرانوں کے منصوبے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved