مائیکل کریپون کا زیر نظر مضمون پاک بھارت حالیہ کشیدگی کے حوالے سے ''فارن افیئرز‘‘ میں شائع ہوا۔ یہ کشیدگی کہاں تک طول پکڑتی ہے اور کس موڑ پہ جا کر ختم ہو گی؟ اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے‘ لیکن اگر دونوں ممالک (پاکستان اور بھارت) راستہ بدل کر امن کی طرف رخ نہیں کرتے تو جنگ سے بچ نکلنا مشکل ہوتا جائے گا۔ مضمون پیش خدمت ہے۔
''نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو دنیا کے پانچ علاقوں میں ایٹمی تصادم کا بڑھتا ہوا خطرہ وراثت میں ملے گا۔ ان میں ہر ایک کی سنگینی اُن کی نظروں کے سامنے دوچند ہوتی جائے گی۔ اپنا عہدہ سنبھالنے سے پہلے ہی اُنھوں نے روس کو ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ، جو وہ نہیں جیت سکتے، کا چیلنج کرنے کے علاوہ‘ تائیوان کے مسئلے پر چین کو بھی مشتعل کرنا ضروری سمجھا ہے۔ صرف یہی نہیں، اُنھوں نے اوباما انتظامیہ کا ایران کے ساتھ کیا گیا جوہری معاہدہ، جو اگلے پندرہ سال تک تہران کو ایٹمی ہتھیار بنانے سے روکے گا، بھی پھاڑ پھینکنے کی دھمکی دی ہے۔ شمالی کوریا کے لیڈر، کم جونگ ان (Kim Jong-un) نے دھمکی دی ہے کہ وہ نومنتخب صدر کی نئے بین البرِاعظمی بیلسٹک میزائل کا تجربہ کرنے پر دی گئی وارننگ کو خاطر میں نہیں لاتے۔ اگر معاملات کے بگاڑ میں کچھ کسر باقی تھی تو کہیں جانے کی ضرورت نہیں، برِصغیر پر ہی نگاہ ڈال لیں۔ یہاں پاکستان اور بھارت میں ایٹمی ہتھیاروں کی خطرناک دوڑ جاری ہے اور اس میں کمی کا کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا۔ مقبوضہ کشمیر کے مسلم اکثریتی علاقوں میں نئی دہلی دل اور دماغ فتح کرنے کی جنگ ہار چکا۔ سکیورٹی فورسز نے ان علاقوں کی ناکہ بندی کر رکھی ہے۔ ستمبر 2016ء میں حریت پسندوں کے مجاہدانہ حملوں کے بعد بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی نے کشمیر میں لائن آف کنٹرول کے پار ''سرجیکل سٹرائیک‘‘ کرنے کا دعویٰ کیا۔ اُس وقت اُنھوں نے پاکستان کے حصے کا دریائی پانی روکنے کی بھی مبہم الفاظ میں دھمکی دی۔ دوسری طرف پاکستان، جو گزشتہ آٹھ برسوں کے دوران بھارت سے زیادہ دہشت گردی کا شکار رہا ہے، کا کہنا ہے کہ وہ ''اچھے‘‘ اور ''برے‘‘ دہشت گردوں میں کوئی امتیاز نہیں کرتا‘ لیکن افغان انتظامیہ کا خیال ہے کہ افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک کو پاکستان میں محفوظ ٹھکانے حاصل ہیں، جہاں سے وہ افغان حکومت کے خلاف کارروائیاں کرتے ہیں۔ جب تک کابل حکومت‘ اسلام آباد کی دشمنی اور دہلی سرکار کی دوستی سے کنارہ کشی اختیار نہیں کرتی‘ اس پالیسی میں تبدیلی دکھائی نہیں دے گی۔ جارج بش اور بارک اوباما‘ دونوں نے پاکستان کی یہ پالیسی تبدیل کرنے کے لیے سرد و گرم‘ تمام حربے اپنا کر دیکھ لیے لیکن سب بے سود رہے؛ چنانچہ پاکستان ایک خود ساختہ الجھن کا شکار ہے۔ جب انتہا پسند گروہ ہمسایہ ممالک کے خلاف کارروائیاں کرتے ہیں تو اس کی عالمی شہرت داغدار ہوتی ہے۔ دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ ان گروہوں کی عسکری طور پر سرکوبی آسان کام نہیں۔ اس بھاری پتھر کو اٹھانے کی نسبت پاکستان کو مشرق میں بھارت اور مغرب میں افغانستان کی دشمنی، اور کسی حد تک علاقائی تنہائی کا سامنا ہے۔ اس علاقائی تنہائی کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ جب نومبر 2016ء میں پاکستان نے سارک کانفرنس کی میزبانی کرنا تھی تو مالدیپ کے سوا کوئی شرکت کے لیے آمادہ نہ ہوا؛ چنانچہ کانفرنس منسوخ کرنا پڑی۔ جیوپالیٹکس اور معاشیات کے معروضات پاکستان کے خلاف جا رہے ہیں۔ پاکستان کو امریکہ سے ملنے والی فوجی امداد میں کمی کا سامنا ہے۔ اس کی وجہ افغانستان میں امریکی فورسز کی تعداد میں کمی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے کردار پر واشنگٹن کی ناراضی ہے۔ دوسری طرف پاکستان بھی امریکہ کے بھارت کی طرف جھکائو کو دغابازی سے تعبیر کرتا ہے؛ چنانچہ دھوکہ دہی کے دوطرفہ الزامات کے ہوتے ہوئے‘ ان کے تعلقات میں بہتری کے امکانات معدوم ہیں‘ خاص طور سے اُس وقت جب واشنگٹن اور نئی دہلی کے تعلقات میں مسلسل بہتری آ رہی ہو۔ اس کی وجہ بھارت کی پُرکشش مارکیٹ اور عسکری بازو سے چین کا راستہ روکنے کا عزم ہے۔ پاکستان کی پریشانی کو بڑھانے میں نومنتخب امریکی صدر‘ مسٹر ٹرمپ کے کاٹ دار پیغامات کا بھی کافی کردار ہے جو دہشت گردی کو اجاگر کرتے ہیں۔ اگرچہ پاکستان میں چینی سرمایہ کاری سے تعمیر ہونے والی پاک چین اقتصادی راہداری کو پاکستان کے لیے ایک جاں فزا تحفہ قرار دیا جا رہا ہے لیکن یہ واشنگٹن کے نئی دہلی کے ساتھ رابطے کا نعم البدل نہیں ہو سکتا۔
جس دوران پاکستان کی تنہائی میں اضافہ ہو رہا ہے اور فوجی طاقت کے توازن کا جھکائو بھارت کی طرف ہے‘ اسلام آباد فوجی امداد کے لیے چین پر انحصار کے علاوہ‘ ایٹمی ڈیٹرنس کو بھی بڑھا رہا ہے۔ اس کا ایٹمی پروگرام بھارت سے کہیں زیادہ تیز رفتار ہے۔ یہ سالانہ پندرہ یا اس سے کچھ زیادہ ایٹمی وارہیڈ بنا سکتا ہے۔ جس دوران بھارت اس فرق کو کم کرنے کے لیے پیش رفت کر رہا ہے‘ پاکستان لانگ رینج میزائلوں‘ زمین‘ فضا اور پانی سے فائر کیے جانے والے کروز میزائلوں اور میدان جنگ میں استعمال کے لیے چھوٹے ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری میں بھارت سے بہت آگے ہے۔ 1998ء میں ایٹمی دھماکوں کے بعد سے بھارت اور پاکستان‘ دونوں مسلسل نت نئے میزائلوں‘ جو ایٹمی وارہیڈ لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہوں‘ کے تجربات میں مصروف ہیں۔ ایٹمی صلاحیتوں کو بڑھانے کی دوڑ بے حد خطرناک ہے۔ ایٹمی دھماکے کرنے کے ایک سال بعد بھارت اور پاکستان‘ دونوں ایک روایتی جنگ لڑ چکے ہیں۔ (جاری)