تحریر : عمار چودھری تاریخ اشاعت     19-01-2017

آوازِ خلق نقارئہ خدا

چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس ثاقب نثار نے گزشتہ روز لاہور میں دل کے مریضوں کو غیر معیاری سٹنٹس ڈالنے کا نوٹس لیا تو مجھے چھ سال قبل گیارہ ماہ کا ننھا مقتول سفیان یاد آ گیا جو اسی سرکاری ہسپتال میں جاں بحق ہوا جس میں ایک شخص کو گھٹیا سٹنٹ ڈال کر اس سے ایک لاکھ اسی ہزار روپے بٹور لئے گئے۔ سفیان کی ہلاکت کا واقعہ میں نے اس وقت اپنے کالم میں لکھا تو اگلے روز سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ افتخار محمد چودھری نے کالم پر از خود نوٹس لے لیا اور سیکرٹری ہیلتھ اور ہسپتال کے ایم ایس سے تفصیلات طلب کر لیں۔
واقعہ یوں تھا کہ سفیان کا والد سیف الرحمن اپنے سسر کی عیادت کیلئے گیارہ ماہ کے سفیان اور فیملی کے ہمراہ میو ہسپتال پہنچا تو سفیان کو ساتھ لے کر اندر وارڈ میں جانے کی اجازت نہیں ملی چنانچہ سیف الرحمن اکیلا ہی اندر چلا گیا جبکہ باقی فیملی دہلی وارڈ کے باہر انتظار کرنے لگی۔ اس دوران ننھے سفیان کو زمین پر کوئی چیز پڑی نظر آئی تو وہ تیزی سے اس جانب رینگنے لگا اور دیوار کے قریب اس جگہ پہنچ گیا جہاں اس کے سر کے عین اُوپر خستہ حال ونڈو ایئر کنڈیشنر نصب تھا۔ یہ دیکھ کر بڑی بہن اس کے پیچھے لپکی۔ وہ اسے پکڑنے کیلئے جھکی ہی تھی کہ ایئرکنڈیشنر جو کسی جنگلے میں فکس نہیں تھا بلکہ دیوار میں پھنسایا گیا تھا‘ اپنی جگہ سے سرک گیا اور ایک دھماکے کے ساتھ نیچے موجود ننھے سفیان پر آن گرا۔ اے سی ہٹایا گیا تو نیچے گیارہ ماہ کا سفیان خون میں لت پت پڑا تھا۔ جائے حادثہ سے لے کر ایمرجنسی وارڈ تک خون ہی خون پھیل گیا۔ ڈاکٹروں نے سفیان کو دیکھا تو اس کی موت کی تصدیق کر دی۔ ٹریجڈی یہیں ختم نہیں ہوتی۔ اس المناک حادثے کی خبر جب ہسپتال میں داخل سفیان کے نانا کو ملی تو وہ بھی صدمے کی
تاب نہ لا کر چل بسے۔ سفیان تین بہنوں کا اکلوتا بھائی اور منتوں اور مرادوں کے بعد پیدا ہوا تھا۔ سفیان کی ہلاکت کے بعد ہسپتال کے ایم ایس نے جلدی جلدی لوہے کے جنگلوں میں فکس کروا دئیے تاکہ کسی انکوائری کی صورت میں بچا جا سکے۔ سفیان کا والد معروف مذہبی سکالر اور کالم نگار امیرحمزہ صاحب کے پاس پہنچا اور انہیں اپنا دکھ سنایا۔ امیر حمزہ صاحب نے سیف الرحمن کو میرا نمبر دے دیا۔ میں اس وقت ایک اور قومی اخبار میں کالم لکھ رہا تھا۔ سیف الرحمن نے مجھے فون کیا اور ملاقات میں سارا واقعہ سنایا۔ میں نے یہ واقعہ اگلے روز اپنے کالم میں لکھ دیا جس پر چیف جسٹس نے نوٹس لیا۔ کہانی مگر یہاں ختم نہیں ہوئی۔ سیف الرحمن کا بچہ ہسپتال کی انتظامی غفلت کے باعث جان سے گیا تھا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہسپتال کے ذمہ داروں کو سزا ملتی اور سیف الرحمن کو قانون کے تحت دیت بھی ادا کی جاتی۔ سیف الرحمن نے اس وقت کے سپریم کورٹ کے رجسٹرار سے رابطہ کیا اور اپنے کیس کے متعلق جاننے کی کوشش کی۔ اسے بتایا گیا کہ سیکرٹری ہیلتھ اور ہسپتال انتظامیہ کو نوٹس جاری کر دئیے گئے ہیں جس کے جواب میں انہوں نے ایک رپورٹ بھیجی ہے جس پر ہم مطمئن نہیں ہیں اور ہسپتال سے مزید تفصیلات طلب کی گئی ہیں۔ بیوروکریسی چونکہ اس قسم کے معاملات کو ہینڈل کرنے میں مہارت رکھتی ہے اور اسے اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ کس معاملے کو کس طرح ڈی فیوز کرنا ہے اس لئے انہوں نے ذمہ داری ہسپتال کے عام ٹیکنیشن اور چھوٹے عملے پر
ڈال دی۔ حالانکہ کسی سرکاری ادارے میں اگر ونڈو اے سی نصب کرنے کے لئے لوہے کی گرل نہیں لگائی جاتیں تو اس کا ملبہ اس ادارے کے الیکٹریشن پر کیسے ڈالا جاسکتا ہے۔ اسے تو یہی کہا جائے گا کہ فلاں اے سی دیوار میں فٹ کر دو۔ اب وہاں وہ لوہے کا جنگلہ اپنی تنخواہ سے بنا کر تو نہیں لگائے گا۔ اس واقعے میں بھی یہی غفلت ہوئی کہ جس جگہ اے سی لگایا گیا وہاں لوہے کا سٹینڈ موجود نہ تھا بلکہ دیوار میں بڑا سوراخ تھا جس میں اے سی رکھ دیا گیا اور نیچے اینٹوں اور لکڑی کے ٹکڑوں کی سپورٹ دے دی گئی۔دو ٹن کے اے سی سے بے پناہ ارتعاش پیدا ہوا‘ آہستہ آہستہ وہ سرکتا ہوا باہر نکل آیا اور نیچے سے اینٹیں وغیرہ نکل گئیں اور یوں اسی کلو کا ایئرکنڈیشنر نیچے جا گرا اور پانچ سات کلو کے ننھے پھول کو مسل دیا۔ بچے کے والد کا غم ہلکا ہو جاتا اگر ذمہ دار کٹہرے میں آتے اور ان کو سزا ملتی۔ ایسا کچھ نہ ہوا۔ رجسٹرار کی ہر انکوائری کے جواب میں لاہور سے کاغذوں اور بیانات کا نیا پلندا واپس بھجوا دیا جاتااور یوں یہ کیس فائلوں کی نذر ہو گیا۔نہ ملزموں کو سزا ملی نہ ہی مقتول بچے کے والد کو دیت ۔سیف الرحمن بھی ہسپتال اور بیوروکریسی کے چکر لگا لگا کر تھک گیا اور بالآخرتقدیر کا لکھا سمجھ کر کروڑوں دیگر عوام کی طرح اپنا غم بھلانے پر مجبور ہو گیا۔انہی دنوں نیویارک کے ایک اخبار میں خبر چھپی۔ایک چھ سالہ مقامی بچہ نیویارک کے فور ونڈز ہسپتال میں زیرعلاج تھا۔ اسے انجکشن لگ رہا تھا کہ اس دوران نرس کا بازو ڈرپ سٹینڈ سے ٹکرا گیا‘ سٹینڈ اپنی جگہ سے پھسلا اور اس کا نوکیلا حصہ سیدھا ایلوس کے سر پر آ لگا۔ ایلوس کے سر سے خون کا فوارہ اُچھلا‘ اس نے ایک دلدوز چیخ ماری اور چند منٹ بعد زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گیا۔ بچے سے ٹکرانے والے سٹینڈ کے نیچے ایک پہیہ ٹوٹا ہوا تھا جس کی وجہ سے سٹینڈ غیر متوازن ہوا اور ہلکی سی جنبش کے باعث گر گیا۔ اس واقعے میں ہسپتال انتظامیہ نے اکڑنے کی بجائے اپنی غلطی تسلیم کی اور کہا کہ یہ قتل خطا ہے اس لئے وہ بچے کے والدین کو پچاس ہزار ڈالر دینے کے ذمہ دار ہیں۔ وہاں اس واقعے پر کسی نے ذمہ داری نرسوں یا عملے پر ڈالنے کی کوشش نہیں کی اور نہ ہی کوئی عذر تراشی کی۔ ان کے ہسپتال میں بھی ایک انسانی جان ضائع ہوئی اور اس میں بہرحال ایک تکنیکی غلطی شامل تھی جو انہیں بغیر کسی دبائو کے تسلیم کرنا پڑی کیونکہ اس معاشرے میں انسان تو انسان جانوروں کو بھی حقوق حاصل ہیں۔
دل کے مریضوں کے ساتھ لاہور اور پورے ملک میں جو کچھ ہو رہا ہے‘ وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں رہا۔ نہ صرف دل بلکہ دیگر امراض میں بھی عوام کے ساتھ یہی سلوک ہو رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے اس ملک میں نہ کوئی محکمہ صحت ہے نہ حکمران ۔سرکاری اور نجی ہسپتال اپنی مرضی سے کام کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر عاصم جنہیں بچانے کے لئے بلاول بھٹو بڑا زور لگا رہے ہیں‘ نے پورے ملک میں سی این جی سٹیشنز اور پرائیویٹ میڈیکل کالجوں کے لائسنس ریوڑیوں کی طرح بانٹے۔ نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے۔کوئی دن نہیں جاتا جب ہسپتالوں سے کوئی بری خبر نہ آتی ہو۔گزشتہ روز کی ہی خبر ہے کہ ایک سرکاری ہسپتال میں معمولی علاج کے لئے لے جائے گئے چھ ماہ کے ننھے بچے کا ہاتھ ڈاکٹروں نے ہیٹر سے جلا دیا۔ معصوم بچے کا ہاتھ جل کر کوئلہ ہو گیا۔ لواحقین نے شور مچایا تو ڈاکٹروں نے کہا کہ ہاتھ فوری کاٹنا پڑے گا وگرنہ زہر پورے جسم میں پھیل جائے گا۔ یہ سن کر بچے کے والدین کے حواس جواب دے گئے اور ہر وہ شخص جس نے یہ خبر ٹی وی پر دیکھی یا اخبار میں پڑھی اس کا دل دہل گیا۔ فیصل آباد کے سرکاری ہسپتال میں گارڈز کی مریضوں پر تشدد کی خبریں آئے روز آتی ہیں مگر کوئی ٹس سے مس نہیں ہوتا۔ صرف پنجاب کا یہ حال نہیں بلکہ آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ پورے خیبرپختونخوا میں بچوں کے لئے ایک بھی چلڈرن ہسپتال موجود نہیں۔ یہ سارے لوگ بھی لاہور کے واحد چلڈرن ہسپتال میں آتے ہیں جہاں پہلے ہی تل دھرنے کو جگہ نہیں۔ان حالات میں جب کسی خبر پر سپریم کورٹ نوٹس لیتی ہے توحکمرانوں اور بیوروکریسی کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس طرح کے نوٹسز پر اپنی جان نہ چھڑایا کریں بلکہ اسے آوازِ خلق نقارئہ خدا سمجھ کر اپنے فرائض ادا کرنے کا بھی سوچا کریں‘ وگرنہ کوئی دن ایسا بھی آ سکتا ہے کہ ان کا کوئی اپنا عزیز‘ کوئی پیاراکسی ہسپتال میں ایسی ہی کسی غفلت کا شکار ہو جائے اور وہ کف افسوس ملتے رہ جائیں!

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved