''اس جنگ کا آغاز اُس وقت ہوا جب سابق آرمی چیف‘ جنرل پرویز مشرف نے‘ کشمیر میں فوجی دستوں کی خفیہ پیش قدمی کا منصوبہ بنایا۔ پرویز مشرف کی اس حرکت نے پاکستان اور بھارت کے وزرائے اعظم کی کوشش سے تعلقات میں آنے والی بہتری کو سبوتاژ کردیا‘ نیز کارگل کی چوٹیوں پر ہونے والی جنگ نے جوہری ہتھیاروں کے ڈیٹرنس کے تصور پر پانی پھیر دیا۔ اس کے بعد حریت پسندوں نے بھارت میں ڈرامائی انداز سے حملے کرنا شروع کردیے ۔ ان میں سے 2001ء میں بھارتی پارلیمنٹ پر اور دوسرا 2008 ء میں ممبئی کے ایک ہوٹل اور سنٹرل ٹرین اسٹیشن پر حملہ ہوا۔ ممبئی حملوں کے بعد پاک بھارت تعلقات میں کوئی خاطرخواہ پیش رفت نہ ہو سکی۔ اس پس ِ منظر میںپاک بھارت تعلقات میں ہلکی سی تبدیلی بھی دنیا کو متوجہ کرلیتی ہے ۔ 2008 ء کے ممبئی حملوں کے بعد‘اگرچہ سرحد پار سے کوئی بڑا حملہ دیکھنے میں نہیں آیا لیکن ایسی کارروائیاں ضرور ہوتی رہیں جو تعلقات بہتر بنانے کی ہر کوشش کو ناکامی سے دوچار کرنے کے لئے کافی تھیں۔ مئی 2014 ء میں جب نریندر مودی کی دعوت پر وزیر ِاعظم‘ میاںنواز شریف اُن کی حلف ِ وفاداری کی تقریب میں شرکت کے لیے بھارت گئے تو اس کے صرف دودن بعد‘ ہرات میں بھارت کے قونصل خانے پر حملہ ہو گیا۔ جولائی 2015 ء میں ‘ پاک بھارت سیکرٹریز خارجہ کے مشترکہ اعلامیے‘ جس میں دہشت گردی کی تمام اشکال اور دیگر معاملات پر بات چیت کرنے پر آمادگی ظاہر کی گئی تھی‘ اس کے 17 دن بعد‘انتہا پسندوں نے گرداسپور کے پولیس اسٹیشن پر حملہ کرکے سات اہل کاروں کو ہلاک کردیا۔ جنوری 2016 ء میںنریندر مودی کی کرسمس کے موقع پر اچانک لاہور آمد اور شریف فیملی کی ایک شادی اور برتھ ڈے کی تقریبات میں شرکت کے صرف آٹھ دن بعد‘ پٹھان کوٹ میں بھارتی ایئرفورس کے بیس پر حملہ ہوگیا۔ اس سے اگلے دن مزار شریف میں ایک اور بھارتی قونصل خانہ حملے کا نشانہ بنا۔ جون 2016 ء میں ایک بھارت مخالف‘ سوشل میڈیا کے جہادی کی ہلاکت کے بعد سے اُوڑی اور نگروتا میں‘ بھارتی فوجی کیمپوں پر حریت پسندوں نے حملے کیے ۔
ایسے واقعات کا تسلسل دیکھتے ہوئے نریندرمودی نے بھی سخت موقف اپنا لیا۔ اگست 2016 ء میں بھارت کے یوم ِ آزادی کے موقع پر‘دہلی کے لال قلعے کی فصیل پر خطاب کرتے ہوئے مودی نے بلوچستان ، جو کہ پاکستان کا شورش زدہ صوبہ ہے ، کا حوالہ دیتے ہوئے عندیہ دیا کہ بھارت وہاں کشیدگی کو ہوا دے گا۔ اُوڑی حملے کے بعد مودی نے سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان کو ملنے والے پانی کو روکنے کی دھمکی دیتے ہوئے کہا ۔۔۔''خون اور پانی ایک ساتھ نہیں بہہ سکتے ۔‘‘ پاکستان کو ملنے والے پانی کو روکنے پر بھارت میں اتفاق ِرائے موجود ہے لیکن جب یہ بات خود وزیر ِاعظم عوامی سطح پر کہیں تو اس کے یقینا نئے معانی ہوتے ہیں۔ دوسرا پاکستان کی قومی سلامتی کی اسٹبلشمنٹ اور رائے عامہ کے لیے مودی کے بیانات سے اُ ن کی جانی پہچانی ہند و ا نتہا پسندذہنیت ‘ جو اگر پاکستان کو توڑ نہیں سکتی تو بھی اسے زک پہنچانے پر تلی رہتی ہے‘ کا اظہار ہو تا تھا۔
اُوڑی حملے کے بعد نریندر مودی نے سرجیکل سٹرئیکس کا فیصلہ کیا ۔ لائن آف کنٹرول پار کرکے کمانڈوایکشن کی عوامی سطح پر بھرپور تشہیر کی گئی ۔ دونوں ملکوں کے لیے ایسے حملے نئے نہیں ‘ لیکن ان کی تشہیر نے پاکستان پر ان کا جواب دینے کے لیے دبائو بڑھا دیا (اگرچہ پاکستانی فوج ان سٹرائیکس کی تردید کرتی ہے لیکن واشنگٹن کا موقف اس کے برعکس ہے )۔ اس موسم ِ سرما کے آغازسے اب تک‘ دونوں ممالک کے درمیان لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کا تبادلہ جاری ہے ۔ اس میں توپ خانے کا استعمال بھی کیا جاتا ہے ۔ اگرچہ پاکستان کے نئے آرمی چیف ‘ جنرل قمر جاوید باجوہ کے آنے کے بعد سے سیز فائر ہے ، لیکن ہم جانتے ہیں کہ ایسے سیز فائر دیرپا ثابت نہیں ہوتے۔ اس وقت جبکہ بھارت اور پاکستان کے درمیان تنائو کی فضا موجود ہو تو اسے مزید گہرا کرنے سے اجتناب کرنا ہوگا۔ تاہم جب طرفین کے جذبات برانگیختہ ہوں اور جب کشمیر میں بھارت کو شدید مزاحمت کا سامنا ہو تو پھر استحکام کا خواب ہی دیکھا جاسکتا ہے ۔ اگر حالات بہتری کی طرف جاتے دکھائی بھی دیں تو اچانک پاکستانی علاقے سے بھارت میں کوئی کارروائی ہوجائے گی۔کشمیر کی شطرنج پر حریف کے پاس مہروں کی کمی نہیں۔اگر بھارت ان کا جواب دینا چاہے تو اس کے ہاتھ میں بھی امکانات موجود ہیں۔ ان میں سے ایک لائن آف کنٹرول پار کرتے ہوئے اہداف کے خلاف تیزاور بھرپور کارروائی کرکے واپس آنا ہے ‘ تاہم یہ عوامل بھارت کے حق میں نہیں ہیں۔ اس کے بجائے پاکستان کے سامنے زیادہ پرکشش اہداف ہیں‘ جیسا کہ ہندواکثریتی علاقوں میں
ایئربیس پر حملہ ‘ ایک آپشن فضائی کارروائی کا بھی ہے ۔ تاہم اس کے لیے بڑے مہروں کو آگے بڑھانا پڑے گا۔ اگر مودی پاکستان کا پانی روکنے کی کوشش کرتا ہے تو پھر کشیدگی صرف کشمیر تک محدود نہیں رہے گی۔ نئی دہلی ابھی تک پاکستان کے غیر ریاستی عناصر سے نمٹنے کے قابل نہیں۔ایٹمی ہتھیاروں اور میزائلوں کا ڈھیررکھنے والے خطے میں کشیدگی بڑھ رہی ہے ۔ کوئی بھی پورے اعتماد سے کہنے کی پوزیشن میں نہیںکہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تنائو کیا رخ اختیار کرے گا؟اگر حالات قابو سے باہر ہوگئے تو امریکی صدر‘ سیکرٹری آف اسٹیٹ اور نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر کو‘ بحران کو سنبھالنے کے لیے مداخلت کرنی ہوگی ۔ تاہم ماضی کے برعکس مسٹر ٹرمپ کی نئی انتظامیہ میں کوئی فرد بھی ایسا کردار ادا کرنے کے لیے موزوں دکھائی نہیں دیتا‘‘۔