تعجب اس پر ہے کہ اخبارات نے بی بی سی کا نقطۂ نظر معلوم کرنے کی کوشش کیوں نہ کی۔ حیرت اس پر بھی کہ رانا ثناء اللہ کے دعوے پر میڈیامیں بھرپور بحث کیوں نہیں کہ فوجی قیادت اور عدلیہ میں شریف خاندان کے خلاف گٹھ جوڑ ہو چکا؟ مچھر چھاننے والے اونٹ کیوں نگل گئے ؟
نون لیگ بالکل ہی بوکھلا گئی ہے ۔ خواجہ سعد رفیق نے عمران خان کو جنگ بندی کی پیشکش کی۔ چند منٹ بعد چھٹے یا ساتویں نمبر پر خطاب کرنے والے حکمران پارٹی کے ایک غیر معروف بزرجمہر نے کہا : ابھی تو ہم ٹریلر چلا رہے ہیں ، پوری فلم بھی دکھائیں گے ۔ظاہر ہے کہ صاف صاف یہ کردار کشی کی دھمکی ہے۔خواجہ سعد رفیق کی پیشکش کے فوراً بعد رونما ہونے والے واقعے کا مطلب کیا ہے ؟ خاتون رکنِ اسمبلی مائزہ حمید نے ارشاد کیا کہ بی بی سی اپنے اس رپورٹر پر مقدمہ دائر کرنے والی ہے ، جس نے خبر دی کہ لندن کی جائیدادیں 90ء کی دہائی سے شریف خاندان کی مِلک ہیں ، ہم بھی کریں گے ۔ رانا ثناء اللہ ارشاد فرما چکے کہ عدلیہ اور فوج ، نواز شریف کے خلاف گٹھ جوڑ کر چکی ہیں ،بھٹو کو جنہوں نے پھانسی پر لٹکایا تھا۔ خواجہ آصف سے اس پر سوا ل کیا گیا تو انہوں نے یہ کہا : عدالت کے بارے میں اس طرح کی گفتگو غیر آئینی ہے ۔ کوئی مستقل موقف کیوں نہیں ؟ کیا وہ بے پیندے کے لوٹے ہیں یا یہ فوج اور عدلیہ پر دبائو بڑھانے کی طے شدہ حکمتِ عملی ہے؟
دعویٰ یہ ہے کہ مقدمہ ہم جیت رہے ہیں ۔ پھر اس قدر بھگدڑ کیوں مچی ہے ۔ ایسی افراتفری کیوں ہے ؟وہی جواظہار الحق نے کہا تھا ۔ ؎
غلام بھاگتے پھرتے ہیں مشعلیں لے کر
محل پہ ٹوٹنے والا ہو آسماں جیسے
عمران خان کی ہر بات درست نہیں۔ مثلاً خواجہ آصف کو محترمہ کی دھمکی، اگر وہ گالی نہ دیں گے تو بجلی کمپنیوں کو 480ارب کی ادائیگی کا راز فاش کر دیں گی ۔ کون سا راز؟پھر یہ رقم وزیرِ خزانہ اسحٰق ڈار نے دی تھی او رظاہر ہے کہ وزیرِ اعظم کے حکم پر ۔خواجہ آصف کا کیاتعلق ؟ یہ بھی ناقابلِ فہم ہے کہ دانیال عزیز کو وزارت سے محروم رکھنے کی دھمکی دے کر بلیک میل کیا جا رہا ہو۔ اتنی سی بات ضرور ہے کہ جتنا کوئی زیادہ چلّاتا ہے ،ایوانِ وزیرِ اعظم میں قائم میڈیا سیل سے اتنی ہی داد پاتا ہے ۔
خبر اب بھی ویب سائٹ پر موجود ہے ۔ بی بی سی کے ایک سینئر صحافی سے رابطہ کیا ۔ انہوں نے کہا : جھوٹ ہے یہ، سفید جھوٹ کہ رپورٹر کے خلاف کارروائی کی جا رہی ہے ۔ اردو ویب سائٹ کے متعلقہ افراد سے بات کی ۔ ڈٹ کر اور کھل کر انہوں نے کہا کہ خبر کے ایک ایک لفظ کی وہ تصدیق کرتے ہیں ۔ نومبر2016ء سے اس پر کام جاری تھا۔ وہ جانتے تھے کہ مضمرات کیا ہوں گے ؛چنانچہ مکمل کرنے کے بعد کہانی وکلا کے حوالے کر دی گئی ۔ دو بار انہوں نے اسے جانچا ۔ نشر کرنے کا فیصلہ اسی لیے تاخیر سے ہوا ۔
سرکاری خبر رساں ایجنسی اے پی پی کی رپورٹ کہتی ہے کہ خبر فائل کرنے والا رپورٹر اظہر کاظمی تحریکِ انصاف کے سیکرٹری جنرل جہانگیرترین سے ذاتی مراسم رکھتا ہے ۔اس سے انہوں نے کہا کہ وہ ایک خبر گھڑے ، جسے نون لیگ کے خلاف استعمال کیا جا سکے ۔ مولانا فضل الرحمن پر ایک حملے میں وہ ملوث تھا۔ ڈیسک والوں کو اس نے دھوکہ دیا اور ایک پرانی خبر چلا دی ۔ مشکوک سا آدمی ہے ، ایک بار جہانگیر ترین کا انٹرویو کرنے کی کوشش کی تو اسے روک دیا گیا۔ ''جہانگیر ترین سے آپ کا کیا تعلق ہے ؟ ‘‘ میں نے اس سے پوچھا ۔ کہا : بس اتنا ہی جتنا قمر زمان کائرہ یا نون لیگ لندن کے صدر سے ہے ۔ صرف ایک بار میں ان سے ملا ہوں ۔ کیا عمران خان کے بھانجے سے مل کر مولانا فضل الرحمن پر اس نے حملہ کیا تھا؟ وہ حیرت زدہ رہ گیا اور بولا: میرے فرشتوں کو بھی ایسے کسی واقعے کی خبر نہیں ۔ ان سے ایف آئی آر کا نمبر اور تفصیل پوچھیے ۔ رپورٹنگ سیکشن کے ایک ذمہ دار اخبا رنویس نے، جس سے زیادہ کوئی صورتِ حال سے واقف نہیں ہو سکتا، اس دعوے کی تصدیق کی کہ خبر شائع کرنے سے دو ہفتے قبل حسین نواز کو خط لکھا گیاتھا۔ رجسٹری سے بھیجا گیا، رسید جس کی موجود ہے ۔ خط میں کہا گیا تھا کہ اگر وہ تردید کریں تو وہ شائع کر دی جائے گی ۔ ان کی طرف سے کوئی جواب موصول نہ ہوا۔ اس دعوے کو اخبار نویس مضحکہ خیز اور احمقانہ کہتے ہیں کہ کوئی رپورٹر دفتر والوں کو چکمہ دے کر خبر چلا سکے ۔
نون لیگ کے موقف کو تباہ کردینے والی خبر جھوٹی ہے تو شریف خاندان ازالہ حیثیت عرفی کا مقدمہ کیوں دائر نہیں کرتا۔ زرِ تلافی کا مطالبہ کیوں نہیں کرتا؟ لاکھوں ڈالر ہتکِ عزت کے مقدمے سے وصول کیے جا سکتے ہیں ۔شریف خاندان کے پسندیدہ اخبار نے حال ہی میں ایسا ایک مقدمہ جیتا ہے ۔ پارٹی کی قیادت ، حسین نواز ،حسن نواز ، محترمہ مریم نواز ، ایوانِ وزیرِ اعظم یا نون لیگ کادفتر کیوں تردید نہیں کرتے۔ ان ''ذرائع ‘‘ کا نام لے کر سرکاری ایجنسی سے رپورٹر کی کردار کشی کیوں ، جن کی وضاحت نہیں کی گئی ۔
بعض اخبارات نے نظر انداز کیا ۔بعض نے غیر نمایاں طور پر چھاپا ، صرف ایک نے نمایاں کیا۔ صاف نظر آتاہے کہ ترغیب دے کر چھپوائی گئی ۔ اس لیے کہ پہلی نظر ہی میں مشکوک نظرآتی ہے ۔ اے پی پی نے رپورٹر اور بی بی سی کاموقف کیوں نہ لیا ؟
کیا یہ ممکن ہے کہ برطانوی نشریاتی ادارہ خاموشی سے اپنے رپورٹر کے خلاف تحقیقات کر رہا ہو ؟ یہ سوال میں نے بی بی سی کے سابق وابستگان میں سے ایک سے کیا، جومعتبر اور معزز آدمی ہے ۔ کہا: سوال ہی پید انہیں ہوتا۔ بی بی سی والے جو کچھ کریں گے ، کھلے عام کریں گے ۔رپورٹر نے ادارے کو دھوکہ دیا ہوتا تو اس کے خلاف کارروائی کاآغاز ہو چکا ہوتا۔ کم از کم خبر توویب سائٹ سے ہٹا دی جاتی ۔
جہانگیر ترین سے میں نے پوچھا کہ اس کا انٹرویو کیوں نہ ہوسکا۔ اس نے کہا : بالکل ہو اتھا ۔اسے یاد تھا کہ یہ خزاں کے آخری دنوں کا قصہ ہے ۔ ''اس کے بعد میں پاکستان لوٹ آیا ۔ ریکارڈ دیکھ کر معلوم کیا جا سکتاہے کہ نشر ہوا یا نہیں ۔‘‘ انکشاف یہ بھی ہوا کہ اظہر کاظمی نہیں ، انٹرویو کسی اور نے کیا تھا۔
ابھی ابھی کچھ دیر پہلے لندن اور اسلام آ باد کے دو مختلف ذرائع نے بتایا کہ بی بی سی تردید پر آماد ہ ہے ۔ معاملہ وکلا کے سپرد کر دیا گیا ہے تاکہ موزوں تر اقدام کیا جائے ۔ ایک سوال اور بھی ہے ۔ ساری توجہ مقدمے پر مرکوز رکھنے کی بجائے نون لیگ والے نواز شریف کی مقبولیت ، حیران کن معاشی خوش حالی اور جمہوریت کو درپیش مبینہ خطرے پر کیوں بلبلا رہے ہیں ؟کیا وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ عدل ہوا تو جمہوریت تباہ ہو جائے گی ۔ ایک کیا، فرض کیجیے، سب کے سب نا اہل ہو جائیں ۔ خرابی تو نا انصافی سے ہوتی ہے ، خاص طور پر طاقتوروں کو معاف کرنے سے ۔ انصاف سے خرابی کیسے درآئے گی ؟ یہی اللہ کے آخری رسولؐ کا فرمان ہے ۔ کیا کوئی تردید کی جسارت کرتاہے ؟
نون لیگ تو بی بی سی پر کیا مقدمہ کرے گی ،عین ممکن ہے کہ وہ کر دیں ۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اپنی اخلاقی پوزیشن بحال رکھنے کے لیے وہ مزید خبریں جاری کریں ۔ ہیجان میں نون لیگ کے بڑے بڑے لیڈر اندر سے ٹوٹ گئے، ہوش و حواس کھو بیٹھے ۔ ؎
بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
جو چیرا تو اک قطرئہ خوں نہ نکلا
تعجب اس پر ہے کہ اخبارات نے بی بی سی کا نقطۂ نظر معلوم کرنے کی کوشش کیوں نہ کی؟ حیرت اس پر بھی کہ رانا ثناء اللہ کے دعوے پر میڈیامیں بحث کیوں نہیں کہ فوجی قیادت اور عدلیہ میں شریف خاندان کے خلاف گٹھ جوڑ ہو چکا؟ مچھر چھاننے والے اونٹ کیوں نگل گئے ؟