تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     20-01-2017

استثنا

معافی، صرفِ نظر، رعایت‘ سب کا ملا جلا انگریزی ترجمہ (immunity) یعنی استثنا ہے۔ اس اصطلاح نے جنگ کے میدانوں میں جنم لیا۔ پھر اس کے تین بڑے حصے ہو گئے۔ دورانِ جنگ دشمن کی صفوں میں سے سفید جھنڈا پکڑے باہر نکل کر زخمیوں کو اٹھانے کے لیے آنے والی ٹیم کو پہلی بار جنگ سے استثنیٰ مل گیا۔ اس کا دوسرا حصہ سفارتی دنیا سے تعلق رکھتا ہے۔ اس عالمی قانون کا جنم طویل بحث مباحثہ، مذاکرات اور کنونشنز کے نتیجہ میں ہوا۔ آج غیر ملک یا دشمن ملک میں ایک دوسرے کے لیے کام کرنے والے سفارت کار مہمان ملک کے قوانین توڑیں تو انہیں گرفتار اور ان کے نام پر مقدمہ نہیں چلایا جاتا۔ اسے بین الاقوامی قانون کی زبان میں سفارتی استثنا کہتے ہیں۔ تیسرا استثنا قانون نافذ کرنے والے اور معاشرے میں انصاف قائم کرنے کے ذمہ دار اداروں کو ملتا ہے‘ جس کی آسان مثال یہ ہے کہ کسی کی جان لینا قتل کہلاتا ہے‘ لیکن ریاست کے مخالف اور قانون کے مطلوب افراد کو قانون نافذ کرنے والے گولی مارتے ہیں۔ اسی طرح ان کو جج انصاف کی سر بلندی کے لیے حکم دیتے ہیں کہ فلاں شخص کو اس وقت تک پھانسی پر لٹکایا جائے جب تک وہ مر نہ جائے۔ اس طرح انسانی جان لینے کے عمل کو قتل نہیں‘ اردو زبان میں قانونی تقاضا اور انگریزی زبان میں (Due Process of law) یعنی استثنا کا درجہ حاصل ہے‘ لہٰذا ریاست کے تحفظ کے لیے یہی استثنا قانون و انصاف کی اصل چھتری ہے۔ پاکستان میں آئین کے خالق شہید قائدِ عوام کے دور میں استثنا کا پہلا سوال پیدا ہوا۔ وزیر اعظم کے طور پر شہید بھٹو کے خلاف ایف آئی آر درج ہوئی۔ بنیاد مدعی کو اسمبلی کے فلور پر دی جانے والی دھمکیوں (جو اگرچہ براہ راست نہ تھی‘ اور ایسی دھمکی کو زیادہ سے زیادہ تلخ کلامی کہا جا سکتا ہے‘ دھمکی نہیں) کو بنایا گیا‘ مگر پاکستان کے پہلے عوامی لیڈر کو استثنا نہ دیا گیا۔ اسی طرح اسمبلی کے احاطے یعنی (Precincts) میں ملتان کے رکن اسمبلی جاوید ہاشمی کے مقدمے میں استثنا کا سوال پھر پیدا ہوا‘ مگر اس مقدمہ میں بھی استثنا کی سہولت رکن پارلیمنٹ کو مہیا نہ ہو سکی۔ اس سلسلے کا تیسرا اہم مقدمہ ایل ایف او نمبر2 کے نفاذ کا ہے‘ جس میں جنرل مشرف سے لے کر تمام سروسز چیف، کور کمانڈرز اور چیف جسٹس صاحبان سے لے کر آئینی عدالتوں کے ہر جج تک کو ہدایت کی گئی کہ وہ ایل ایف او کو تسلیم نہ کریں۔ سپریم کورٹ کے 7 جج صاحبان کا یہ فیصلہ ابھی تک شبہات کا شکار ہے۔ بینچ کے دو ارکان کے دستخط اور ان کی اسلام آباد میں موجودگی کا جھگڑا بھی موجود ہے۔ اس کے باوجود انتہائی فاضل ترین جج حضرات کو آئین کے آرٹیکل 209 کے بجائے ایک اور متنازع فیصلے کی رو سے گھر بھیج دیا گیا۔ کچھ جج حضرات کے خلاف توہینِ عدالت کی کارروائی ہوئی۔ آئین کے آرٹیکل 204 کے تحت اس کارروائی میں دوسرا ایل ایف او جاری کرنے، نافذ کرنے اور اس پر عمل درآمد کرنے والے کسی فوجی کمانڈر یا اہلکار کے خلاف توہینِ عدالت کی کارروائی نہ کی گئی۔ اس کی بڑی وجہ عساکر پاکستان کو دیا گیا آئینی استثنا تھا۔ تازہ ترین کیس ملتانی وزیر اعظم کا ہے‘ جس میں سپریم کورٹ کی حکم عدولی کی بنیاد پر منتخب وزیر اعظم کو گھر بھجوانے والا فیصلہ آیا۔ یوسف رضا گیلانی کے مقدمے میں بھی استثنا مانگی گئی‘ لیکن نہ صرف یہ کہ اس وزیر اعظم کو استثنا نہ مل سکا بلکہ سپریم کورٹ کے ایک بنچ نے فیصلہ کیا‘ جبکہ اسی عدالت کے ایک دوسرے بینچ نے وزیر اعظم کے خلاف نااہلی کی ڈگری جاری کر دی۔ پارلیمانی استثنا کی روایت برطانیہ میں سال 1679ء میں شروع ہوئی‘ لیکن آج کی مہذب جمہوریت کا کوئی رہنما استثنا کے پیچھے نہیں چھپتا۔ استثنا کو امتیازی قانون سمجھا جاتا ہے۔ خاص طور پر ریاست کے سربراہ یا حکومت کے چیف ایگزیکٹو کے لئے ایسا الزام زہرِ قاتل سمجھا جاتا ہے۔ اسی ہفتے کی بات ہے کہ کینیڈا کے لیڈر جسٹن ٹروڈو پر اعتراض اٹھایا گیا کہ اس نے پرنس کریم آغا خان صاحب کی میزبانی کیوں قبول کی؟ پرنس کریم آغا ساری دنیا میں بہت عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ اس کے باوجود جسٹن ٹروڈو نے کینیڈا کے عوام کے اس اعتراض کو خوش آمدید کہا‘ اور ساتھ ہی اعلان کر دیا کہ اعتراض بہت اچھا ہے‘ کیونکہ اس کی وجہ سے جسٹن ٹروڈو کو قوم نے حقائق اور اپنی صفائی پیش کرنے کا پورا موقع دے دیا۔ دوسری جانب آج کل پاکستان استثنا (Immunity) کا کیس سٹڈی بن گیا ہے۔ اس بحث کا آغاز اسی عشرے میں ہوا۔ 
قدرت کی ستم ظریفی دیکھئے کہ بحث کے محرک وزیر اعظم نواز شریف تھے۔ وزیر اعظم نواز شریف نے پی پی پی کے دورِ حکومت میں صدر مملکت آصف علی زرداری کے ٹرائل کا مطالبہ کیا۔ ان کے اس مطالبے کی بنیاد مبینہ سوئس اکائونٹ کو بنایا گیا‘ جن کے حوالے سے نواز شریف کی پچھلی حکومت نے شہید بی بی اور ان کے اہلِ خانہ کے خلاف احتساب کے نام پر انتقام کمیشن قائم کیا‘ جس کا سربراہ اپنی ہی پارٹی کے ایک سینٹر کو لگا دیا۔ اسی تسلسل میں نواز شریف صاحب سوئٹزرلینڈ کے ڈالروں کا عشروں تک راگ الاپتے رہے۔ مصدقہ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ سوئٹزرلینڈ کے جو ڈالر دریافت نہ ہو سکے‘ ان پر اتنے ڈالر لٹائے گئے‘ جو دعوے داری کی رقم سے بھی زیادہ بنتے ہیں۔
آج کل وزیر اعظم نواز شریف کی ایک وڈیو ہر ٹی وی چینل دکھا رہا ہے اور یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر بھی وائرل ہو چکی ہے۔ اس ویڈیو کلپ میں وزیر اعظم نواز شریف صاحب سابق صدر پاکستان کو مخاطب کرکے تین باتیں کہتے دکھائی دیتے ہیں۔
پہلی بات: یہ استثنا کیا بلا ہے؟ یہ میرے جیسے آدمی کو نہیں پتا۔ دوسری: استثنا کو یہ قوم نہیں مانتی۔ تیسری: پہلے لوٹی ہوئی رقم واپس کرو بعد میں دیکھیں گے استثنا کیا ہوتا ہے۔ آج کل یہی تین سوال پورے پاکستان میں زیرِ بحث ہیں اور انہی تین سوالوں کا مخاطب خود نواز شریف صاحب ہیں‘ جنہوں نے یہ تین سوال ازخود اٹھائے تھے۔
پاکستان کے آئین میں تین عدد آرٹیکل ایسے ہیں جن کا نفسِ مضمون استثنا سے متعلق ہے۔ آئین کا آرٹیکل 248، آرٹیکل 66 اور آرٹیکل 69 کا تعلق وزیر اعظم یا کسی رکنِ پارلیمنٹ کے Official Conduct یعنی سرکاری فرائض کی ادائیگی سے ہے۔ پاناما کے حوالے سے وزیر اعظم نواز شریف کا اپنا مقدمہ قوم کے سامنے پہلے دن سے یہی رہا ہے کہ میرا پاناما یا بچوں کی جائیدادوں سے کوئی تعلق نہیں۔ فرض کر لیں نواز شریف صاحب نے اس معاملے میں سچ بولا۔ اگر یہ سچ ہے تو ان کے لیگل ایگل نے استثنا کا سوال کیوں اٹھایا؟ 
میرا گورننس کا تجربہ یہ کہتا ہے کہ حکومت میں بیٹھی ہوئی جماعت کو 2 کام بالکل نہیں کرنے چاہییں۔ ایک اپوزیشن کو گالیوں کے انداز میں دانت پیس کر مخاطب نہیں کرنا چاہیے۔ دوسرا‘ وہی کام جس سے جرح کے ماہر وکیل جونیئر وکلا کو روکتے ہیں‘ یہی کہ جہاں خارش نہ ہو اس جگہ ناخن سے کھرکنا نہیں چاہیے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved