تحریر : محمد اظہارالحق تاریخ اشاعت     20-01-2017

غیر ملکی شکاری اور ہمارے اپنے مسیحا

غیر ملکی حکمران ضلع چاغی کے ہیڈ کوارٹر دال بندین پہنچا تو کیا آپ کو معلوم ہے اس کے استقبال کے لیے کون کون چشم براہ تھا؟ وزیر اعلیٰ کا مشیر برائے جنگلی حیات! مشیر برائے ٹیکس و ایکسائز! صوبائی سیکرٹری داخلہ اور چاغی کا ڈپٹی کمشنر!
مشیر برائے جنگلی حیات کا منصب یہ ہے کہ وہ پرندوں اور جانوروں کی حفاظت کرے‘ مگر وہ تو شکاری کا استقبال کر رہا تھا! ستم ظریفی کی انتہا ملاحظہ ہو کہ جس وزیر نے یہ دیکھنا ہے کہ ٹیکس ضرور ادا کیا جائے، وہ غیر ملکیوں سے ایک پائی وصول کیے بغیر انہیں خوش آمدید کہتا ہے۔ سیکرٹری داخلہ کا کام صوبے کی سرحدوں کی حفاظت ہے۔ ڈپٹی کمشنر ضلع کا محافظ ہے! صرف یہی نہیں، ایف سی والے، پولیس والے اور لیوی والے دستوں کی شکل میں غیر ملکی شکاریوں کے جلو میں تھے!
چاغی، خاران اور دوسرے ملحقہ علاقے نادر و نایاب پرندوں کے لیے مشہور ہیں۔ یہاں سائبیریا سے آئے ہوئے مہاجر پرندے بھی ہیں۔ مہمانوں کو ہم فروخت کرتے رہے ہیں۔ ملّا عبدالسلام ضعیف کے ساتھ کیا ہوا تھا؟ وہ تو پرندہ نہیں تھا! انسان تھا! اگر سائبیریا کے مہاجر پرندوں کے ہاتھ میں قلم اور منہ میں زبان ہوتی تو دنیا پڑھتی اور سنتی کہ ہم کتنے وفادار اور کس قدر غیرت مند ہیں!
عزتِ نفس کی انتہا تو ابھی آپ نے دیکھی ہی نہیں! صوبائی مشیر برائے جنگلی حیات و جنگلات، غیر ملکی سفیر سے درخواست کرتا ہے کہ حضور! اِس علاقے میں، جسے آپ تاخت و تاراج کر رہے ہیں، کچھ ترقیاتی سکیمیں بھی تو آغاز کیجیے! آپ کا کیا خیال ہے سفیر کا ردِ عمل کیا تھا؟ کیا اس نے مسکرا کر کہا ''ضرور! یہ تو ہمارا فرض ہے!‘‘
نہیں! ہر گز نہیں! سفیر نے کہا ''تمہاری حکومت کو چاہیے کہ ہمارے سفارت خانے کو سرکاری چٹھی لکھے۔‘‘ پھر مشیر فخر سے بتاتا ہے کہ ''میری وزارت سفیر کو خط لکھ کر التجا کرے گی کہ علاقے میں ترقیاتی سکیم شروع کرائے‘‘۔
تو کیا سفیر کے ملک نے حکومتِ پاکستان کو سرکاری خط کے ذریعے ''التجا‘‘ کی تھی کہ ممنوعہ شکار کی اجازت دی جائے؟ پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے ایک نہیں، شرقِ اوسط کے چار ملکوں کے حکمرانوں کو شکار کھیلنے کے لائسنس جاری کیے ہیں! کیا وزارتِ خارجہ نے جنگلی حیات کے محکموں سے پوچھا؟ کیا وزارتِ خارجہ کو بھی ان ملکوں کی طرف سے تحریری درخواستیں اسی طرح موصول ہوئیں جس طرح بلوچستان حکومت کو کہا جا رہا ہے کہ ''ہمارے سفارت خانے کو سرکاری چٹھی لکھو‘‘۔ اگر کوئی تحریری عرضداشت ''برائے اجازت شکار‘‘ موصول ہوئی ہے تو وزارتِ خارجہ کو چاہیے کہ عوام کی اطلاع کے لیے اسے ظاہر کرے تا کہ قومی عزتِ نفس کا گراف ‘جو صفر سے نیچے آ چکا ہے، کم از کم ایک یا دو تک تو اُٹھ سکے!
کیا ان ملکوں میں سے کوئی ملک، ہمارے کسی حکمران کو اس طرح کھلی چھٹی دے سکتا ہے؟ ہماری عزت تو اس طرح کی جاتی ہے کہ بوڑھی حاجن کے پیروں سے جوتے اتروا کر ٹوکے سے ان جوتوں کے چار ٹکڑے کیے گئے اور پھر پھینک دیے گئے، بوڑھی حاجن برہنہ پا چلتی رہی اور سبحان اللہ کہہ کر فخر کرتی رہی۔
تو پھر تعجب ہی کیا ہے اگر ہمارے ملک کے پاسپورٹ کو دنیا کا دوسرا بدترین پاسپورٹ قرار دیا گیا ہے! ہمارے پاسپورٹ سے بدتر صرف ایک پاسپورٹ ہے‘ افغانستان کا! فہرست میں پاکستان کا نمبر 198 ہے۔ آپ یہ پڑھ کر اپنے آپ کو خلا میں اُڑتا محسوس کریں گے کہ جن ملکوں کا سفر کرنے کے لیے پاکستانیوں کو ویزے کی ضرورت ہے، ان ملکوں میں افغانستان بھی شامل ہے! دنیا کے جن چھ ملکوں میں داخل ہونے کے لیے پاکستانیوں کو ویزے کی ضرورت نہیں، ان ملکوں کے نام آپ نے کبھی نہیں سنے ہوں گے مثلاً ڈومینیکا، مائیکرونیشیا، وانو آتو وغیرہ! یہ پڑھ کر بھی آپ کو افاقہ ہو گا کہ عراق کا پاسپورٹ رینکنگ میں پاکستان سے اوپر ہے۔ دنیا کے 28 ممالک عراقیوں کو ویزے کے بغیر خوش آمدید کہنے کے لیے تیار ہیں!
اس صورتِ حال کا ذمہ دار کون ہے؟ کون ہے جو ملک کو ذلت کی اتھاہ گہرائیوں میں اسفل السافلین سے نیچے لے جا رہا ہے؟ حکومت؟ سیاست دان؟ بیورو کریسی؟ نہیں! یہ سب اور ان سب سے بڑھ کر عوام خود! 
ہمارے سفلہ پن کی، ہماری بدطینتی کی، ہماری کمینگی کی اس سے بدتر مثال کیا ہو گی کہ وہ ڈاکٹر جنہیں ہم مسیحا کہتے اور سمجھتے ہیں، ہمارے ساتھ بدترین پیشہ ورانہ بددیانتی کے مرتکب ہو رہے ہیں! سپریم کورٹ کو از خود نوٹس لینا پڑا ہے۔ عزت مآب چیف جسٹس نے ایف آئی اے سے تفصیلی رپورٹ طلب کی ہے۔ اُن مریضوں کے جسموں میں بھی سٹنٹ (Stents) ٹھونسے جا رہے ہیں جنہیں سٹنٹ کی ضرورت نہیں! کیوں؟ چند سکوں کی خاطر! اور جنہیں ضرورت ہے، ان سے ایک ایک سٹنٹ کے دو دو لاکھ روپے بٹورے جا رہے ہیں جبکہ سٹنٹ کی اصل قیمت چند ہزار روپے سے زیادہ نہیں! اِس کارِ خیر میں دیگر ہسپتالوں کے علاوہ لاہور کے مشہور و معروف سرکاری میو ہسپتال کا نام بھی شامل ہے جو خادمِ اعلیٰ کی ناک کے عین نیچے واقع ہوا ہے!
سپریم کورٹ کو یہ اطلاعات بھی ملی ہیں کہ جعلی اینجیوپلاسٹی ظاہر کرکے مریضوں کو لوٹا جا رہا ہے جبکہ سٹنٹ حقیقت میں ڈالا ہی نہیں جاتا! اور کیا آپ یقین کریں گے کہ آپریشن تھیٹروں کے باہر، دوائیں فروخت کرنے والی کمپنیوں کے سیلز ایجنٹ کھڑے ہیں‘ جو سٹنٹ بیچتے پھر رہے ہیں۔ ڈاکٹر آپریشن شروع کرنے کے بعد لواحقین سے کہتے ہیں کہ جا کر بازار سے سٹنٹ خرید کر لاؤ۔ اس وقت جب مریض موت و حیات کے درمیان لٹک رہا ہوتا ہے، لواحقین کی جان پر بنی ہوتی ہے۔ وہ مجبوراً اُنہی ایجنٹوں سے خریدتے ہیں جو اردگرد گھوم رہے ہوتے ہیں۔ کیا عجب کل کو آپریشن تھیٹروں کے باہر یہ ایجنٹ ٹھیلے لگا کر آوازیں دے رہے ہوں کہ ہم ہی ہیں اِس ڈاکٹر کے منظورِ منظر! آؤ ہم سے خریدو!!
یہ ڈاکٹر اور یہ ایجنٹ سیاست دان ہیں نہ حکمران! بیوروکریٹ نہ جرنیل! یہ تو عوام میں سے ہیں! پھر عوام کس طرح صرف حکمرانوں‘ صرف نوکر شاہی، صرف فوج پر تباہی کا الزام لگا سکتے ہیں!!
دنیا بے وقوف نہیں! دنیا نوالہ کان میں نہیں، منہ میں ڈالتی ہے! دنیا کو معلوم ہے کون سی قوم کتنے پانی میں ہے؟ کون عزت کی مستحق ہے اور کس کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ لگا ہے! ہمیں دنیا اب قطار میں عراق اور صومالیہ سے بھی پیچھے رکھ رہی ہے! صرف افغانستان ہم سے پیچھے ہے۔ تادمِ تحریر افغانستان نے احتجاج نہیں کیا۔ اگلی رینکنگ کا انتظار کیجیے!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved