تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     20-01-2017

ریاست کی ذمہ داری

میرا سوشل میڈیا سے متعلق معاملات میں ہاتھ کافی تنگ ہے۔ یعنی اس سلسلے میں میرے تعلقات کشیدہ تو نہیں لیکن نہ ہونے کے برابر ہیں۔میرے فیس بک پر ایک اصلی اور کئی نقلی اکائونٹس موجود ہیں۔ سب سے کم ایکٹیویٹی میرے اصلی اکائونٹ پر ہوتی ہے؛ البتہ نقلی اکائونٹس پر کافی حرکت برکت ہوتی رہتی ہے۔ میں اپنا اکائونٹ کبھی مہینے بعد اورکبھی ڈیڑھ مہینے بعد دیکھتا ہوں۔ ٹویٹر مجھے استعمال کرنانہیں آتا۔ ایک لے دے کر واٹس ایپ ہے جس پر دوستوں نے چار چھ گروپس میں مجھے ایڈ کر رکھا ہے اور ایک گروپ میں نے دوستوں کا بنا رکھا ہے اس کو روز صبح دیکھ لیتا ہوں اور بس۔
قریب دو ماہ ہوتے ہیں میں نے جبری گمشدگیوں پر ایک کالم لکھا۔ میرا موقف تھا کہ ایک ریاست میں جہاں آئین اور قانون کی کتابیں موجود ہوں‘عدالتیں (خواہ وہ میرے نزدیک فوجی ہی کیوں نہ ہوں) اپنا وجود رکھتی ہوں۔ منصف کرسیوں پر موجود ہوں اور اس سروس کا معاوضہ وصول کرتے ہوں اور ریاست کے پسے ہوئے مجبور و مقہور عوام کیلئے اپنے درد کے درمان کی آخری امید ہوں‘ وہاں جرم کی نوعیت کیسی ہی کیوں نہ ہو‘ ملزم کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے اور اُسے ملکی قانون کے دائرہ کار کے اندر رہتے ہوئے سزا دی جائے۔ اگر ریاست کے بعض ادارے یہ سمجھتے ہیں کہ قانون ان کی مرضی اورمنشا کے مطابق نہیں ہے تو انہیں قانون سے کھیلنے کے بجائے اپنی ''مرضی اور منشا‘‘ کو بدلنا ہوگا۔
ملک میں ہر طرف کھلے بندوں مجرموں کا دندناتے پھرنا ایک اور المیے کی نشاندہی کرتا ہے کہ قانون میں بے شمار ایسے سقم موجود ہیں کہ مجرم اس کے باعث چھوٹ کر باہرآ جاتے ہیں۔ اس کا حل یہ نہیں کہ ماورائے عدالت اور ماورائے قانون اقدامات سے ریاست کی ہئیت ترکیبی ہی تبدیل کر دی جائے اور ریاست میں آئین و قانون کے بجائے جنگل کا قانون نافذ کر دیا جائے۔ اس کا حل یہ ہے کہ قانون میں موجود سقم دور کیے جائیں۔ تازہ حالات کے مطابق قوانین میں ترمیم کی جائے کہ ملک میں موجود پارلیمنٹ کا بنیادی کام قانون سازی ہے نہ کہ ترقیاتی فنڈ وصول کرنا اور انہیں غتربود کرکے بیرون ملک جائیدادیں بنانا۔ فی الوقت اس ملک میں قانون سازوں کی اکثریت قانون بنانے کے بجائے مال بنانے میں مصروف ہے اور دونوں ہاتھوں سے دولت سمیٹنے میں مشغول ہے۔
جب میں نے اخبارات میں چار پانچ بلاگرز کی گمشدگی بارے پڑھا تو مجھے اپنا دو ماہ پرانا کالم دوبارہ یاد آ گیا۔ اس کالم میں میں نے اپنے ایک عزیز دوست مسعود کے بیٹے انجینئر عبداللہ بن مسعود کی جبری گمشدگی کا ذکر کیاتھا۔ آج عبداللہ کو لاپتہ ہوئے سات ماہ سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن ابھی تک پتہ نہیں چل سکا کہ عبداللہ کن کے پاس ہے اور اس کا کیا جرم ہے۔ اسی طرح میرے ایک عزیز راشد کمال کو غائب ہوئے آج پورے چھ ماہ ہو چکے ہیں لیکن صورت حال ویسی ہی ہے کہ نہ جرم کا پتہ ہے اور نہ ہی کوئی اتہ پتہ۔ تیسرا گمشدہ جس کا اس کالم میں تذکرہ تھا پروفیسر ڈاکٹر اشتیاق گوندل تھا۔ وہ اس کالم کے شائع ہونے سے اگلے دن واپس آ گیا تھا، تاہم مذکورہ بالا دونوں افراد ابھی تک وہیں ہیں جہاں صرف ''فرشتوں‘‘ کو علم ہے۔
میں بتا چکا ہوں کہ میں سوشل میڈیا سے خاصا لاتعلق سا ہوں، اس لیے مجھے بالکل علم نہیں تھا کہ یہ چار پانچ بلاگرز کون ہیں؟ ان کا جرم کیا ہے اور اصل معاملہ کیا ہے، تاہم میرا موقف وہی ہے جوتھا کہ جرم اپنی جگہ مگر ہر جرم کے لیے سزا کا قانون موجود ہے؛ لہٰذا اٹھائے جانے والوں کو قانون کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے عدالتوں کے روبرو پیش کیا جانا چاہیے اوراٹھانے والوں کو قانون کی پاس داری کرتے ہوئے ملکی قوانین کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے اپنی کارروائی کرنا چاہیے۔ ان بلاگرز کی جبری گمشدگی پر بھی میرا موقف وہی ہے جو غائب کیے جانے والے عبداللہ بن مسعود، راشد کمال اور پروفیسر اشتیاق گوندل کے بارے میں تھا۔ اس سلسلے میں میرا نقطۂ نظر منافقانہ نہیں، اصولی ہے اور سب کے لیے ایک جیسا ہے،تاہم اگلے ہی روز مجھے احساس ہوا کہ معاملہ وہ نہیں جو میں سمجھ رہا تھا۔ اس بار گمشدہ لوگ اس قبیل سے نہیں جس قبیل سے تعلق رکھنے والوں کو گزشتہ کئی سالوں سے اٹھایا جا رہا تھا اور اس پر ہر طرف ایک سکوت تھا۔ کسی انسانی حقوق کی تنظیم کو انسانی حقوق کی یہ پامالی نظر نہیں آ رہی تھی کہ غائب ہونے والوں میں ایک قدر مشترک تھی کہ وہ دینی رجحان کے حامل لوگ تھے۔ چار سال سے لاپتہ حزب التحریر کے ترجمان نوید بٹ کا کچھ پتہ نہیں مگر انسانی حقوق والے نہ صرف خاموش ہیں بلکہ باقاعدہ خوش ہیں کہ ملک میں ان کے نظریاتی مخالفین کو ریاستی ماورائے قانون اقدامات سے ختم کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح گزشتہ ایک سال سے جامعہ پنجاب کے شعبہ بزنس ایڈمنسٹریشن کے استاد پروفیسر غالب عطا کا کوئی اتہ پتہ نہیں کہ وہ کہاں اور کس حال میں ہے؟ اس کا جرم کیا ہے ؟ ایسے میں اچانک انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے جونہی آواز اٹھی میں سمجھ گیا کہ اب معاملہ مختلف ہے اور زیرعتاب لوگ یقینا دینی اور مذہبی بیک گرائونڈ کے حامل نہیں کہ انسانی حقوق کی نام نہاد تنظیموںکے نزدیک یہ لوگ شاید انسان نہیں ہیں ایسی تنظیموںنے حقوق اور ان کی پامالی کا اپنا معیار بنا رکھا ہے اور اس میںمتاثرین کا انتخاب ان کے پس منظر کے حوالے سے کیا جاتا ہے‘ حقوق کی پامالی کی بنیاد پر نہیں۔
پھر اگلے روز امریکہ اور یورپی ممالک سے احتجاجی مراسلوں کا ذکر سامنے آیا تو گمان گزرا کہ معاملہ مغرب کے نزدیک بھی انسانی حقوق کی پامالی کا آن پڑاہے تو پھر یقینا این جی او اور موم بتی مافیا کا ہوگا۔ جب پتہ کرنے کی کوشش کی تو نہایت ہی روح فرسا حقیقت سامنے آئی۔ پہلی یہ کہ یہ لوگ بلاگرز تو سرے سے ہیں ہی نہیں؛ البتہ یہ وہ لوگ ہیں جومذہب بیزاراور مذہب مخالف لوگوں پر مشتمل ایسی ویب سائٹس چلا رہے تھے جن پر شعائر اسلام کا مذاق اڑانا تو نہایت ہی معمولی بات ہے وہ ہماری ایسی محترم ہستیوں کے بارے میں بکواس لکھ اور لکھوا رہے تھے جن کی حرمت پر کوئی بھی مسلمان اپنی جان دے بھی اور لے بھی سکتا ہے۔ ایسے ایسے حملے کہ رونگٹے کھڑے ہو جائیں۔ ایسی ایسی تحریر کہ برداشت سے باہر اور ایسے کارٹون کہ ڈنمارک کے کارٹونسٹ کی یاد تازہ ہو جائے۔ بتانے والوں میں جملے دوہرانے یا سنانے کی نہ تو ہمت تھی اور نہ ہی جرأت، تاہم یہ بات واضح تھی کہ معاملہ توہین کی اس حد تک تھا کہ برداشت کرنا کسی بھی صاحب ایمان کے ایمان کا امتحان تھا۔
بھینسا، روشنی اور اسی قبیل کی اور گستاخانہ مواد سے بھری ہوئی ویب سائٹس اور ان کو چلانے والے‘ اوپر سے ان کی حمایت میں شور مچانے والے لبرل اورترقی پسند۔ ہر انسان کے بارے میں مختلف معیار رکھنے والے انسانی حقوق کے علمبردار۔ انتہا پسندی کے خلاف ہمہ وقت سینہ سپر لبرل انتہا پسند۔ ان کی پشت پر کھڑی ہوئی غیرملکی پیسے پر پلنے والی این جی اوز اور ان کے غیر ملکی آقا‘ سب ان کے ساتھ ہیں۔ انہیںاچانک یاد آیا کہ پاکستان میں چار پانچ لوگ غائب کر دیئے گئے ہیں‘ انہیں اچانک ہی احساس ہوا کہ پاکستان میں انسانی حقوق کو پامال کیا جا رہا ہے‘ انہیں اچانک ہی پتہ چلا کہ مملکت خداداد پاکستان میں لوگوں کو ماورائے قانون اٹھایا جا رہا ہے۔
منافقت، جھوٹ اور ایک دوسری قسم کی انتہا پسندی سے تعلق رکھنے والوں کی جانب سے اب کے اٹھنے والا شور دراصل انسانی حقوق سے نہیں مذہب بیزاری اور مذہب دشمنی سے جڑا ہوا ہے اور انہیں اس سے پہلے غائب ہونے والوں کے انسان ہونے میں شبہ تھا‘ میرا معاملہ ایسا ہرگز نہیں۔
شکر ہے اس ذات باری تعالیٰ کا جس نے مجھے ایمان کی دولت سے سرفراز کیا اور اپنے آقا کی محبت سے روشن دل عطا کیا۔ میرا اب بھی موقف وہی ہے جو پہلے دن سے ہے کہ اس ملک کے قانون میں ملک دشمنوں کے بارے میں قانونی تصریحات موجود ہیں اور مذہب کی توہین اور رسول اللہ ﷺ کی شان میں گستاخی کی سزا بھی موجود ہے۔ مجرموں کو اٹھا لینا، غائب کرنا اور عدالتوں میں پیش نہ کرنا مسئلے کا حل نہیں۔ یہ ایسا جرم بھی نہیں جسے ثابت نہ کیا جاسکتا ہو۔ ویب سائٹ پر مواد لوڈ کرنے والے کا پتہ چلانا اب نہایت آسان بھی ہے اور اس کا ثبوت حاصل کرنا بھی ممکن ہے۔ ویب سائٹس کو چلانے والے کا پتہ لگانا اب راکٹ سائنس نہیں ہے۔ اب اس سلسلے میں سائبر کرائم ونگ موجود ہے جو سارے ثبوت مہیا کرسکتا ہے۔ اگر عدلیہ کے بارے میں الٹی سیدھی تصویر لوڈ کرنے والے ثبوتوں کے ساتھ پکڑے جا سکتے ہیں تو آقائے دوجہان کی شان میںگستاخی کرنے والوں کو عدالتوں میں پیش کرکے ان کا ٹرائل کیوں نہیں کیا جاسکتا؟
ثبوت اتنے ہیں اور ناقابل تردید بھی کہ سزا دلانا بائیں ہاتھ کا کھیل۔ خواہ مخواہ ان لوگوں کو غائب کرکے شہرت دی جا رہی ہے کہ ان کو اعتزاز احسن جیسے لوگ دانشور اور انٹیلکچوئل قرار دے رہے ہیں جنہوں نے زندگی بھر کبھی کوئی تخلیقی کام کیا ہے اور نہ ہی کبھی دانش کی بات کی ہے۔ ان میں سے ایک شخص کے کریڈٹ میں ایک نظم ہے اوراس کا مرکزی خیال بھی مسروقہ ہے۔
ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ نوید بٹ سے لیکر وقاص گورایہ تک‘ سب کو عدالتوں میں پیش کرے ۔ گستاخان رسولؐ سے لے کر خاکی وردی والوں کے خلاف بولنے والوں کو۔ سبھی کے ساتھ ملکی قانون کے مطابق نپٹا جائے۔ جنگل کا قانون بھی کچھ طے شدہ ضابطوں کا پابند ہوتا ہے یہ تو ریاست کا معاملہ ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved