تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     20-01-2017

بھٹو خاندان اور شریف خاندان

جنوری 1977ء میں وفاقی وزیر پیداوار رفیع رضا رات کے کھانے پر وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو سے ملے۔ کھانے کے بعد انہوں نے وزیراعظم کو بتایا کہ انہیں راستے سے ہٹانے کا مکمل بندوبست ہوچکا ہے اور اپنے انجام سے بچنے کے لیے ان کے پاس دو راستے ہیں؛ 
پہلا یہ کہ نیوکلیر ری پراسسنگ پلانٹ کو بھول جائیں اور دوسرا یہ کہ انتخابات موقوف کردیں۔ بھٹو نے ان دونوں راستوں کو مسترد کردیا تو رفیع رضا بولے، ''سر ، ہم اگر الیکشن جیت بھی گئے تو ہمیں ہماری فتح کے ثمرات سے لطف اندوز ہونے کی اجازت نہیں ملے گیــ، آپ بات نہ مان کر خود کو اور اپنے خاندان کو داؤ پر لگا رہے ہیںـــ‘‘۔ رفیع رضا نے جاتے ہوئے بھٹو سے پوچھا، ''سر آپ یہ کیوں کررہے ہیں؟‘‘بھٹو نے کہا میں چاہتا ہوں کہ اس ملک میں آنسو کم بہیں اور کم تلخی کے ساتھ بہیں‘‘۔مہمان رخصت ہوا تو بھٹو کے ذاتی معالج نصیر شیخ ان کے پاس آئے پوچھا کہ کیا رفیع رضا کو وزیراعظم نے ڈانٹا ہے تو بھٹو نے حیران ہو کر ان سے اس سوال کی وجہ دریافت کی تو ڈاکٹر نے بتا یا کہ انہوں نے ''رفیع رضا کے چہرے پر موت کی سفیدی دیکھی ہے‘‘۔ اس بھٹو نے انہیں بتایا کہ رفیع رضا سے کوئی سخت بات نہیں ہوئی البتہ جس موضوع پر گفتگو ہوئی وہ بہت سخت تھا۔ اس واقعے کے دو ماہ بعد مارچ میں الیکشن ہوا اور بھٹو کے خلاف وہ سازش بروے کار آنے لگی جس کے بارے میں انہیں پہلے سے ہی معلوم ہوچکا تھا۔ 
ملک کے منتخب وزیراعظم کو دھاندلی کے الزامات لگا کر اچھی طرح رسوا کرلیا گیا تو اس کے بعد عدالت اور عوام کے سامنے ان کی توہین کا دوسرا سلسلہ شروع ہوا۔ وہ خود کو تاریخ کا طالب علم کہتے تھے، ان کے تاریخی شعور پر پھبتیاں کسی گئیں۔ یحیٰ بختیار سے لے کر سردارسلطان چانڈیو تک کسی کو انہوں نے باوقار قرار دیا تو ریاستی مشینری اس کے خلاف گھٹیا الزامات کی فہرست سامنے لے آئی۔ جمہوریت کے اس علمبردار کو ذلیل کرنے کے لیے کہانی تراشی گئی کہ انہوں نے جنرل ایوب خان کے سامنے ڈپٹی کمشنروں اور کمشنروں کو سرکاری پارٹی کا عہدیدار بنانے کی تجویز دی۔ پاکستان کو دستور دینے والے کی اہانت کا سلسلہ یہاں تک دراز ہوا کہ ان کے مرحوم والدین اور بیوی بھی اس سے محفوظ نہ رہ سکیں۔ گالیوں اور اتنی توہین کا مقصد صرف یہ تھا کہ بھٹو کے خلاف اس قدر نفرت پھیلا دی جائے کہ جب بھٹو قانون کی سولی پر لٹک جائے تو عوام شکرانے کے نوافل ادا کریں۔جب عوام نے اس ریاستی جھانسے میں آنے سے انکار کردیا تو بھٹو کے ساتھ ساتھ اس کی بیٹی کی بھی کردار کُشی شروع ہوگئی، بیٹی نے شادی کی تو توپوں کا رخ داماد کی طرف ہوگیا۔ داماد ملک کا صدر بنا تو اس پر گندگی اچھالنے کے لیے ماہرین مقرر ہوئے۔ نواسے نے سیاست میں ہاتھ پاؤں مارنے شروع کیے ہیں تو اس کے بارے میں غلیظ باتیں پھیلانے کا سلسلہ تیز ہوتا چلا جارہا ہے۔ اس خاندان کی حالت دیکھ کر ذہن میں کبھی سوال اٹھتا ہے کہ اگر بھٹو رفیع رضا کی بات مان لیتے تو کیا ہوتا؟ 
بھٹو اور نواز شریف کے درمیان بظاہر کوئی نسبت نظر نہیں آتی مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ ان دونوں کی اٹھان مختلف اوقات میں تقریباََ ایک ہی جیسی تھی، یہ مماثلت اور بھی گہری ہوجاتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ تاریخ نے نواز شریف مع اہل و عیال سے بالکل وہی سلوک روا رکھا ہے جو بھٹو اور ان کے خاندن سے کیا گیا تھا ۔ انیس سو ستتر میں توہین و تذلیل کا جو کاروبار بھٹو کے خلاف شروع ہوا تھا آج ٹھیک چالیس برس بعد نواز شریف اس کا نشانہ ہیں۔ دنیا کا وہ کونسا الزام ہے جو پچھلے چند دنوں میں ان پر نہیں لگایا گیا۔ انہیں ان اثاثوں کا حساب دینا پڑرہا ہے جو ان کے ہیں ہی نہیں، قانون کی اعلیٰ ترین کرسیوں پر بیٹھے لوگ یہ حساب لگا رہے ہیں کہ نواز شریف کو جھوٹا کہا جائے یا بدعنوان؟ پارلیمنٹ میں کہی جانے والی باتوں کو عدالتی کارروائی نہ بنانے کی 
جو روایت دنیا نے آٹھ سو برس میں قائم کی ہے، ہمارے ہاں پہنچ کر تشریح و تعبیر کی مستحق ٹھہری ہے کیونکہ اس کا احترام وزیراعظم کی مشکیں کسنے میں رکاوٹ ہے۔ اپنی ذات کے بارے میں تو کوئی سوالوں کے جواب دینے کی ہمت بھی کرلے مگر ملک کے منتخب وزیراعظم سے پوچھا جارہا ہے کہ وہ اپنے مرحوم والد کے کاروباری اطوار کے بارے میں بتائیں، یہ بتائیں کہ ان کی والدہ امورِ خانہ داری کیسے نمٹاتی ہیں، ان کے پختہ عمر بیٹے انہیں پیسے کیوں بھیجتے ہیں، انہوں نے اپنی بیٹی کو تحفہ کیوں دیا تھا، ان کی بیٹی اور داماد کے آپس میں مالی معاملات کی تفصیل کیا ہے! معاف کیجیے گا، حضور معاف کیجیے گا ، یہ سوال نہیں ہیں، صرف اعتراض ہیں اور اعتراض کا کوئی جواب نہیں ہوتا۔ 
سوال تو یہ ہے کہ بھٹو کو قتل کے جرم میں پھانسی چڑھا کر، بے نظیر بھٹو کو سکیورٹی رسک قرار دے کر ، آصف علی زرداری کو دنیا کا بدعنوان ترین شخص ثابت کرکے ، نواز شریف اور ان کے خاندان کے ماضی بعید کے کھاتے کھول کر پاکستانیوں کو کیا ملا؟ یہ لوگ بیس کروڑ لوگوں کے اس ملک کا چہرہ ہیں، اس چہرے پر ثابت نہ ہوسکنے والے الزامات کا کیچڑ مل کر ہم نے دنیا بھرمیں اپنی بھد اڑوائی، ہم نے اپنے لیڈروں کو کرپٹ کہا، دنیا نے ہماری قوم کو کرپٹ کہنا شروع کردیا، اب تو نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ ہم نے اپنے آپ کو بھی کرپٹ کہنا شروع کردیا ہے، جسے دیکھو وہ ٹی وی پر بیٹھ کر ہمارے اخلاقی زوال کا مرثیہ پڑھ کر اپنی شامیں رنگین کرتا ہے ۔ ممکن ہے یہ سب لوگ واقعی ایسے ہی ہوں جیسا سرکاری کاغذات میں لکھا ہے مگر اس عوا م کا کیا کریں کہ وہ انہی آلودہ دامنوں کو اپنے سر کا تاج بنا ڈالتے ہیں، بھٹو کو کوئی قاتل نہیں مانتا، بے نظیر بھٹو کو کوسکیورٹی رسک نہیں سمجھتا، زرداری کو چور نہیں تسلیم کرتا حتیٰ کہ نواز شریف کو ''تمام ثبوتوں اور گواہوں ‘‘ کے باوجود کوئی ہائی جیکر نہیں کہتا۔ اس ملک کے پانچ کروڑ ووٹر وں نے دوہزار تیرہ میں حتمی فیصلہ سنا دیا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر نواز شریف تک کے خلاف کسی تفتیش کو وہ نہیں مانتے۔ ان کے لیے بھٹو جمہوریت کا استعارہ ہے، بے نظیر چارو ں صوبوں کی زنجیر ہے، زرداری وفاق کی علامت ہے اور نواز شریف ترقی کا نقیب ہے۔انہیں کوئی جادو گر کہے، دھوکے باز کہے یا عوامی شعور کا رونا روئے، لوگ انہی کی مانتے ہیں ورنہ کسی کی نہیں مانتے۔ 
کارل مارکس نے کہا تھا ، تاریخ خود کو دہراتی ہے، پہلے ایک المیے کے طور پر، پھر ایک لطیفے کے طور پر۔اس حساب سے بھٹو کے ساتھ جو کچھ ہوا ایک المیہ تھا، نواز شریف کے ساتھ جو ہو رہا ہے وہ لطیفہ ہے۔ بھٹو اس لیے المیہ بن گیا کہ اس کے لیے یہ کہانی بالکل نئی تھی، نواز شریف انہیں واقعات کو اس لیے لطیفہ بنا ڈالنے کی صلاحیت رکھتے ہیں وہ اس کہانی کے انجام سے بخوبی آگاہ ہیں، بلکہ اب تو ہم بھی اچھی طرح آگاہ ہیں۔ اپنے سامنے ہونے والے گھسے پٹے لطیفوں جیسے واقعات کی ذمہ داری ، زمانی اعتبار سے ، ہم جنرل ایوب خان سے لے کر جنرل پرویز مشرف تک اپنی مرضی کے کسی بھی ولن پر ڈال کر خوش ہوسکتے ہیں، مگران لطیفوں میں چھپا المیہ تو یہ ہے کہ ہم سے کوئی بھی تاریخ کی اس پراسرار قوت سے واقف نہیں جو واقعات میں کردار تو بدل ڈالتی ہے مگر انجام وہی رکھتی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved