تحریر : محمد اظہارالحق تاریخ اشاعت     21-01-2017

وزارتِ خارجہ کا قلمدان

کل ہم زخم چاٹ رہے تھے کہ پاسپورٹ کی رینکنگ میں ہم سب سے آخر میں ہیں سوائے ایک ملک کے جس کا نام افغانستان ہے۔ آج ایک اور سیاپا پڑ گیا ہے!
یوں تو صدمے برداشت کرنا ہماری عادت ثانیہ ہو چکا ہے۔ مشکلیں اتنی پڑیں مجھ پر کہ آساں ہو گئیں! مرحوم اظہر سہیل ایک فقرہ کہا کرتے تھے کہ بات کر کے دیکھ لیتے ہیں‘ مانی گئی تو ٹھیک ورنہ ہماری کون سی پہلی بار بے عزتی ہو گی!
صدر اوباما رخصت ہوئے۔ جاتے وقت وہ اپنی دوستیوں کو مستحکم کر رہے تھے۔ انہوں نے وزیراعظم مودی کو الوداعی ٹیلی فون کیا۔ شکریہ ادا کیا کہ بھارت امریکہ تعلقات کی گرم جوشی میں اضافہ کرنے کے لیے مودی صاحب نے اہم کردار ادا کیا اور امریکہ سے تعاون کیا۔
آپ کا کیا خیال ہے‘ مودی کے علاوہ اوباما نے کسے فون کیا ہو گا؟ وزیراعظم پاکستان کو؟ نہیں! آپ کا خیال محض آپ کی خوش فہمی ہے۔ اوباما نے اس خطے میں صرف ایک اور ''طاقت‘‘ کو اس قابل سمجھا کہ الوداعی فون کریں اور وہ طاقت افغانستان ہے! اوباما نے صدر اشرف غنی کو فون کر کے دو امور کا شکریہ ادا کیا۔ اوّل یہ کہ اوباما کے عہد میں افغانستان نے ترقیاتی منصوبوں پر خوب کام کیا۔ دوم یہ کہ دہشت گردی کو کم کر کے امن کو آگے بڑھانے میں افغانستان نے اپنا کردار ادا کیا!
ترقیاتی منصوبوں کی حقیقت دنیا بھر پر واضح ہے سوائے صدر اوباما کے۔ افغانستان آج بھی پتھر کے زمانے میں رہ رہا ہے۔ شاہراہیں ہیں نہ عمارتیں۔ ہاں پاکستان کے دشمنوں کو‘ جو افغانستان میں مقیم ہیں‘ عمارتوں سے لے کر انٹرنیٹ تک ساری سہولتیں میسر ہیں! رہی یہ بات کہ افغانستان نے دہشت گردی کم کر کے امن بڑھانے میں کردار ادا کیا ہے‘ تو یہ کردار بھی ڈھکا چھپا نہیں! اگر افغانستان میں امن ہے تو پھر مریخ پر ہزاروں انسان بھی بس رہے ہیں۔ پھر ویٹی کن میں ہزاروں مسجدیں بھی آباد ہیں اور برطانیہ کی ملکہ کی عمر بیس سال بھی ہے!
جب سے پاکستان بنا ہے ہم امریکہ کی خوشامد میں مصروف ہیں۔ جانے درست ہے یا نہیں مگر مشہور یہی ہے کہ قیامِ پاکستان کے فوراً بعد روس نے دوستی کا ہاتھ بڑھایا تھا تو اُس وقت کے وزیراعظم نے وہ ہاتھ جھٹک دیا اور امریکہ کی یاترا کرنے کا فیصلہ کیا‘ پھر ہم نے سیٹو اور سنٹو کے معاہدوں میں شمولیت اختیار کر لی‘ پھر ہم نے شرم و حیا کو بالائے طاق رکھا اور تن من دھن سے امریکہ کی خدمت میں مصروف ہو گئے۔ گویا بقول سعدی کمر کے ساتھ سنہری پیٹی باندھی اور ہاتھ باندھ کے حضوری میں کھڑے ہو گئے۔ یہ حقیقت تو سب کو معلوم ہے کہ امریکہ کے جاسوسی طیارے پشاور کی ایئربیس بڈھا بیر سے اُڑتے تھے‘ پھر وہاں سے اُڑنے والے ''یُو ٹو‘‘ طیارے کو روسیوں نے گرا لیا اور وزیراعظم خروشچیف نے اپنے سامنے رکھے ہوئے نقشے پر پشاور کے گرد سُرخ دائرہ کھینچا۔ مگر اب امریکیوں نے ہماری دیگر خدمات بھی‘ جو ازحد خفیہ تھیں‘ دنیا کو بتانا شروع کر دی ہیں۔ اب انہوں نے کتابیں لکھ کر یہ راز بھی کھول دیا ہے کہ تبت پر چین کا قبضہ ہوا تو امریکہ نے ''مزاحمت‘‘ کا پروگرام ترتیب دیا۔ چین کے مخالف طبقات کو تربیت دی گئی۔ اس سارے ''مزاحمتی‘‘ پروگرام میں مشرقی پاکستان کو خوب خوب استعمال کیا گیا اور وہاں کے ہوائی اڈوں کی سہولیات امریکہ کے خفیہ اداروں کو میسر کی گئیں۔
چین کے ساتھ امریکہ کے ابتدائی تعلقات بھی‘ جسے ''بریک تھرو‘‘ کہا جاتا ہے‘ پاکستان کے ذریعے قائم ہوئے۔ کون جانے اس کردار میں چین کی محبت کام کر رہی تھی یا امریکہ کی نوکری!
روس نے افغانستان میں مداخلت کی تو ہم نے ''گرم پانیوں‘‘ کا نظریہ دریافت کر کے خون‘ لوہے اور بارود کے سمندر میں چھلانگ لگا دی۔ امریکی ڈالر بوریوں میں بھر بھر کر وصول کیے۔ افغانستان اور پاکستان کے درمیان سرحد کی لکیر مٹ گئی۔ من تو شدم تو من شدی۔ قاضی حسین احمد مرحوم کے مضامین‘ جو ایک معروف اخبار میں ان کی وفات سے کچھ عرصہ پہلے شائع ہوئے‘ گواہ ہیں کہ جنرل ضیاء کی حکومت نے اور اس ''جہاد‘‘ کے علمبرداروں نے اپنے ہی ملک کے قوانین پیروں تلے روندے۔ پاسپورٹ‘ ویزوں کے بغیر غیر ملکی آئے۔ انہیں کبھی چھپا کر رکھا گیا‘ کبھی سہولیات پلیٹ میں رکھ کر پیش کی گئیں۔ ایران نے افغان مہاجرین کو کیمپوں سے باہر نہ نکلنے دیا مگر ہم نے اپنے ملک کے شہریوں کو‘ ایک لحاظ سے محصور کر کے افغانوں کو ملک کے طول و عرض اور اطراف و اکناف میں پھیلا دیا۔ کے پی کا صوبہ تو عملاً افغانوں ہی کا ہو کر رہ گیا۔ باقی ملک میں بھی ان کی تجارت‘ ٹرانسپورٹ کے کاروبار اور جائیداد کی خریدوفروخت کا سلسلہ خوب پھولا پھلا۔ اس کے نتائج آج بھی پاکستانی عوام بھگت رہے ہیں۔ لاکھوں افغان کاروبار پر قابض ہیں۔ اٹک ہو یا لاہور‘ مقامی تاجروں کو یہ لوگ قتل کر دیتے ہیں۔ انتہا یہ ہے کہ نادرہ جیسے حساس قومی ادارے میں افغان ملازمت کرتے ہوئے پائے گئے۔
پھر جنرل مشرف نے امریکہ کی ایک فون کال پر سنہری بیلٹ دوبارہ کسی اور ہاتھ باندھ کر کھڑے ہو گئے۔ عافیہ صدیقی کا معاملہ صرف ایک ہے جو بہت مشہور ہوا ورنہ خود صدر مشرف صاحب نے اپنی تصنیف میں اعتراف کیا کہ ڈالر لے کر ''مطلوبہ‘‘ افراد امریکہ کے سپرد کیے جاتے رہے۔ شمالی اتحاد تو دشمن تھا ہی‘ جنوب اور مشرق کے پختونوں کو بھی ہم نے دشمن بنا لیا۔ 
پاکستان کی قسمت پر آنسو بہائیے کہ دہشت گردی کو کم کرنے کے لیے ہم نے ہزاروں فوجی اور سول جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ ہمارے پھول سے بچے مارے گئے۔ ہماری مائوں کی زندگیاں دُکھ سے بھر گئیں۔ بچے یتیم ہو گئے۔ بوڑھے بے سہارا رہ گئے۔ صرف کراچی کے حالات بہتر کرنے کے لیے بے پناہ قربانیاں دی گئیں مگر صدر اوباما ٹیلی فون اشرف غنی کو کر کے دہشت گردی کم کرنے کا شکریہ ادا کر رہے ہیں۔
شیخ ابوسعید ابوالخیر کی رباعی یاد آ رہی ہے ؎
گفتی کہ فلاں زِیادِ ما خاموش است
از بادہء عشقِ دیگراں مدہوش است
شرمت بادا ہنوزِ خاکِ درِ تو
از گرمئی خونِ دلِ من در جوش است
تُم نے کہا کہ فلاں تمہاری یاد سے غافل ہے اور دوسروں کے بادۂ عشق سے مدہوش ہے! تمہیں شرم آنی چاہیے! ابھی تو تمہارے دروازے کی مٹی میرے خونِ دل کی گرمی سے اُبل رہی ہے!
آخر اوباما نے وزیراعظم پاکستان کو ٹیلی فون کیوں نہیں کیا؟ ماضی قریب میں‘ اور حال میں بھی‘ امریکی پاکستان کی اُس جدوجہد کا اعتراف کرتے رہے ہیں جس کے نتیجہ میں دہشت گردی پر قابو پایا گیا تو پھر کیا وجہ ہو سکتی ہے؟ یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا مگر یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ پاناما کیس کی وجہ سے ہمارے ملک کا امیج خراب سے خراب تر ہو گیا ہو! آخرکار اس مقدمے کی جو رپورٹیں پاکستانی اخبارات میں شائع ہو رہی ہیں اور میڈیا سے نشر ہو رہی ہیں‘ وہ غیر ملکی سفارت خانے باقاعدگی سے پڑھتے اور دیکھتے ہیں‘ پھر اپنے اپنے ملکوں کو اطلاعات ارسال کرتے ہیں۔ ساری دنیا کے سیاسی رہنمائوں کو معلوم ہے کہ پاکستانی وزیرِ اعظم ایک ایسے مقدمے میں پھنسے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے ان کے خاندان کے کم و بیش تمام افراد زیرِ بحث آ رہے ہیں اور اس طرح زیرِ بحث آ رہے ہیں کہ نیک نامی کم اور ''شہرت‘‘ زیادہ ہو رہی ہے!
مگر یہ تو وزیراعظم کا شخصی معاملہ ہے۔ پاکستان‘ ایک ملک کے طور پر‘ اپنا الگ تشخص رکھتا ہے! حکمران آتے جاتے رہتے ہیں‘ تو پھر اگر امریکہ‘ جس کی دوستی اور وفاداری کا ہم نے ہمیشہ دم بھرا‘ کا صدر الوداعی فون مودی کو کرتا ہے اور اشرف غنی کو بھی‘ اور پاکستان کے وزیر اعظم کو نہیں کرتا تو پھر کہیں یہ ہماری خارجہ پالیسی کی ناکامی تو نہیں؟
اگر ایسا ہے تو پھر آپ کو یہ بھی معلوم ہی ہو گا کہ وزارتِ خارجہ کا قلم دان کس کے پاس ہے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved