اسلام آباد میں وزارت تجارت کے تحت ہونے والی ایک تقریب میں برآمدکنندگان کے لئے180ارب روپے کے پیکیج کا اعلان کرتے ہوئے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے کہا ہے کہ ''ترقی چاہنے وا لے ٹی وی چینلز عوام میں دن بدن مقبول ہوتے جا رہے ہیں اور مایوسی پھیلانے والے چینلز پر اب لوگ اعتبار ہی نہیں کرتے۔ اس قسم کے ٹی وی چینلز دیکھ کر لگتا ہے کہ ملک تباہی کی طرف جا رہا ہے جبکہ دنیا بھر میں ڈنکا بج رہا ہے کہ پاکستان کی معیشت آسمان کی بلندیوں کو چھو رہی ہے۔ دنیا بھر کے سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری کے لئے بھاگم بھاگ پہنچ رہے ہیں‘‘۔
جناب والا!دنیا کا اصول یہ ہے کہ اگر کسی ملک کے تاجر، صنعتکار اور سرمایہ کار دوسروں ملکوں میں سرمایہ کاری کر رہے ہوں تو بیرونی سرمایہ کار اس ملک کا رخ نہیںکرتے؟ وزیر اعلیٰ پنجاب بھی فرماتے ہیں کہ ملک میں دہشت گردوں کی تباہ کاریوں سے برباد ہونے والے امن و امان کی صورت حالت بہتر ہو چکی ہے۔ اگر تو آپ پنجاب کو ہی ملک کا نام دیتے ہیں تو پھر ''ہم خیال‘‘ ہونے کی وجہ سے دہشت گردی کے واقعات میں واقعتاً کمی آئی ہے، لیکن اگر بلوچستان، سندھ، کے پی کے، آزاد کشمیر اورگلگت بلتستان کو بھی آپ پاکستان میں شامل سمجھتے ہیں تو بلوچستان میں تحریک طالبان اور بھارتی ایجنٹوں کی کارروائیاں سب کے سامنے ہیں، جہاں بم دھماکے اور سرکاری اہلکاروں کی ٹارگٹ کلنگ جاری ہے۔ شاید وہاں کے حکمران کہیں کہ ہمارے صوبے میں بھی امن قائم ہو سکتا ہے لیکن اس کے لئے ہمیں بھی دہشت گردوں کو پیغام دینے کے لئے کسی سرکاری تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہنا پڑے گا کہ ''آپ کے اور ہمارے خیالات ایک جیسے ہیں، آپ کا اور ہمارا ایجنڈا ایک جیسا ہے‘‘۔ لیکن اس کے بعد ان کے خلاف غداری کے فتوے جاری ہو جائیں گے اور ان کی حکومتیں بھک سے اڑا دی جائیں گی کیونکہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے جمہوری بچے نہیں ہیں۔
امن و امان کی بات کریں یا ملک کی معاشی صورت حال کی، سچ سب کے سامنے ہے۔ سرکاری اور نجی بجلی گھروں نے حکومت کی جانب سے کئی کئی ماہ کی ادائیگیاں نہ کرنے کی وجہ سے بجلی کی پیداوار اس قدر کم کر دی ہے کہ یہ صرف5500 میگا واٹ رہ گئی ہے اور آپ کی وزارت خزانہ سر پکڑ کر بیٹھی ہے کہ نجی پاورکمپنیوں کو پانچ سو ارب روپے سے زائد کی ادائیگیاں کیسے کی جائیں۔ اگر ملک ترقی کر رہا ہے، ملک کی معیشت اپنی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے تو یہ ادائیگیاں کرنا کون سا مشکل کام ہے، جلدی سے یہ ادائیگیاں کر دیں تاکہ بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ سے ہم سب کو نجات مل سکے۔ یقین کیجیے، ہم مایوسی نہیں پھیلاتے بلکہ سچ کہتے اور لکھتے ہیں۔ آپ کو کس طرح یقین دلایا جائے کہ گیس استعمال کرنے والی پاکستان کی 80 فیصد سے زائد آبادی کس تکلیف اور پریشانی سے گزر رہی ہے۔ میرے اپنے گھر کی یہ حالت ہے کہ چوبیس گھنٹوں میں صرف دو گھنٹے وقفے وقفے سے گھر کا چولہا جلتا ہے اور کئی گھنٹے کھڑے کے بعد کھانا پکتا ہے، لیکن روٹیاں پھر بھی بازار سے لانا پڑتی ہیں اور وہ بھی پہلے سے مہنگی کیونکہ تنور والے لکڑیاں استعمال کر رہے ہیں جو گیس سے کئی گنا مہنگی مل رہی ہیں۔ آپ کے اس دعوے کو نہ ماننے کی ہم میں ذرہ بھر ہمت نہیں کہ ملک بے پناہ ترقی کر رہا ہے لیکن جناب یہ ترقی کس طرح ممکن ہو سکتی ہے جب کام کرنے والے مزدور اور اہلکار گھر سے بھوکے نکلیں گے۔ کیا آپ کے نزدیک ترقی کا یہی معیار ہے کہ اس سخت سردی کے موسم میں انسان منہ ہاتھ دھونے سے بھی قاصر رہے اور چائے کی ایک پیالی کے لئے ترستا رہے۔ جس انسان کے بچے بھوک سے بلبلا رہے ہوں، دودھ پیتے بچے ٹھنڈا دودھ پینے کی وجہ سے بیمار ہو رہے ہوں، وہ قوم کس طرح ترقی کے میناروں کی جانب بڑھ سکتی ہے۔
یقین کیجیے کہ یہ سب باتیں افسانوی یا زیب داستان کے لئے نہیں بلکہ بیشتر گھروں کا کچن بند ہے، گیس نام کو نہیں اور یہ سب کچھ ملک کے دوسرے حصوں کی طرح رائیونڈ کی اس سڑک کے قریب رہنے والے لاکھوں لوگوں کے ساتھ ہو رہا ہے جہاں سے آپ اور آپ کا خاندان آئے روز گزرتا ہے۔ ہاں ایک فرق ہے، ہمارے نزدیک آپ کے بہت قریبی اور طاقتور رکن اسمبلی بھی رہائش پذیر ہیں جن کے محل تک ایک علیحدہ گیس کی پائپ لائن بچھ چکی ہے۔ عوام جائیں بھاڑ میں۔
میں جانتا ہوں کہ میرا شمار آپ کی اور ایک دوسرے اہم ادارے کی نظروں میں ان لکھاریوں میں ہوتا ہے جو مایوسی پھیلاتے ہیں، جنہیں ترقی کی رفتار کا اندازہ ہی نہیں، لیکن بجلی غائب ہے اور گیس سوئی کے ایک نقطے کے برابر مل رہی ہے۔ وزیر اور مشیر کیوں نہیں بتا رہے کہ آدھے پنجاب میں بجلی اور گیس کی چودہ سے سولہ گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ ہو رہی ہے۔ لوگوں کی مائیں، بہنیں اور بچے روٹی کے لئے تندوروں اور ہوٹلوں کے دھکے کھا رہے ہیں، جن کے بارے میں پنجاب فوڈ اتھارٹی واویلا کر رہی ہے کہ ان سب میں ملاوٹ ہے۔گھی اچھا ہے نہ ہی تیل۔ رہ گیاگوشت تو اس کی اتنی کہانیاں سامنے آ رہی ہیں جن کے سامنے آپ کی گڈ گورننس لرز رہی ہے۔
صرف لاہور ہی نہیں بلکہ پنجاب کے متعدد شہروں میں بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ نے عوام کی زندگیاں اجیرن کر رکھی ہیں۔ ان دونوں ضروریات کی قلت کے باعث دکانوں اور ورکشاپوں میں کاربار ٹھپ ہو چکے ہیں۔ ہر گھر کا چولہا ٹھنڈا اور مزاج چڑ چڑا ہوتا جا رہا ہے۔ بجلی بند رہنے سے گھروں میں پانی بھی ناپید ہے۔ اس صورت حال میں ملک کس طرح ترقی کر سکتا ہے؟
اب اس ملک کی 70 فیصد سے زائد آبادی منرل واٹر کی سہولت سے کس طرح فائدہ اٹھا سکتی ہے کیونکہ ایک وقت کی روٹی تو ان کی پوری نہیں ہوتی، روزانہ ایک سو روپے کا پانی کہاں سے خریدیں گے؟ ایک سال سے زائد عرصہ گزر چکا ہے، قوم یہ سنتے سنتے تنگ آ گئی ہے کہ قطر سے ایل این جی آ رہی ہے، اس کے گیس سے لدے ہوئے جہاز پاکستانی سمندروں میں کھڑے ہوئے ہیں، اب گھر گھر گیس پہنچے گی اورسستی بھی ہو گی۔ وہ ایل این جی کہاں ہے؟
مایوسی پھیلانا ہمارا مقصد نہیں، ہم تو بس یہ درخواست کرتے ہیں کہ 250 ارب روپے کی لاگت کی اورنج ٹرین اس وقت اچھی نہیں لگتی جب ملک کے حکمرانوں کے گھر سے چند منٹ کے فاصلے پر واقع ہسپتال میں قوم کی مائیں ٹھنڈے فرش پر ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر جائیں۔ کیا ایسے ملک یا صوبے کی معیشت کی ترقی کی باتیں کرنا منا سب ہے؟۔