تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     22-01-2017

زور بیان سے زورِ بد زبانی تک

انصاف ہماری اعلیٰ عدالتوں پر ختم ہے۔ میں یہ بات مذاق میں نہیں کہہ رہا بلکہ اپنے تمام تر سابق تجربات کی بنا پر کہہ رہا ہوں۔ انصاف کیا ہے؟ جس سے انصاف کا طلبگار مطمئن ہو جائے۔ ویسے تو انسان کبھی مطمئن نہیں ہوتا لیکن کسی حد تک بھی اس کی اشک شوئی ہو جائے اور وہ اطمینان محسوس کرتے ہوئے خوشی خوشی گھر چلا جائے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ اسے انصاف مل گیا ہے۔ ہماری عدالتوں میںکسی ایک پارٹی کی طبیعت صاف ہوتی رہتی ہیں۔ فریق مخالف کی اس عدالتی بے عزتی پر فریق اول بڑی خوشی محسوس کرتا ہے اور اس کے دل کو تسلی ہوتی رہتی ہے۔ ہمارے ہاں لوگوں کے نزدیک افضل انصاف یہ نہیں کہ مدعی کو اس کا حق مل جائے، ہمارے ہاں مدعی کو حق ملنے سے زیادہ عزیز فریق ثانی کی بے عزتی اور رسوائی ہوتی ہے، اگر اس کے مخالف کی بے عزتی ہو جائے تو سمجھیں اسے انصاف مل گیا۔ ہماری ساری سوسائٹی کو اس بات کا پتا چل چکا ہے، لہٰذا اب انصاف کا تعلق حق ملنے سے نہیں‘ فریق ثانی کی بے عزتی سے منسلک ہے۔ سو، انصاف کا مسئلہ کافی حد تک حل ہو چکا ہے۔
کم از کم اس عاجز کا تجربہ تو یہی ہے کہ عدالتیں دوران سماعت ایک فریق کی ''عزت افزائی‘‘ کرتی رہتی ہیں، جس سے فریق ثانی بڑی تسلی اور آرام محسوس کرتا ہے اور اسے انصاف کی اعلیٰ اقدار سے دلی مسرت ملتی ہے۔ اس کے خیال میں اسے عدالت سے اب بے شک انصاف نہ ملے مگر دل میں یہ اطمینان ضرور ہوتا ہے کہ لوگوں میں دوسرے فریق کی بھد اڑی ہے‘ بے عزتی ہوئی ہے‘ ذلت و رسوائی نصیب ہوئی ہے۔ بھلا اس سے بڑھ کر اور اسے کیا انصاف مل سکتا تھا؟ عوامی سطح پر چلنے والی مقابلہ بازی میں یہ بات مزید باعث اطمینان ہوتی ہے کہ عوام میں ہم سرخرو ہو گئے ہیں، حق گیا بھاڑ میں۔
اس کے مقابلے میں یہ ہوتا ہے کہ ساری سماعت کے دوران بے عزت ہونے والا فریق اپنی عوامی تذلیل پر پیچ و تاب کھاتا رہتا ہے، لیکن ہوتا یہ ہے کہ فیصلہ اس کے حق میں ہو جاتا ہے۔ اب وہ اس فیصلے کو بنیاد بنا کر اپنی سچائی اور بے گناہی کا علم بلند کرتا ہے اور اپنی فتح کے شادیانے بجاتا ہے۔ فریق ثانی یہی کام دوران سماعت کر چکا ہوتا ہے اور وہ یہ موقف اختیار کرتا ہے کہ اسے اس عدالت سے نہ سہی‘ عوام کی عدالت سے انصاف بھی مل چکا ہے اور اخلاقی فتح بھی۔ بھلا ایسے میں ان عدالتوں کے فیصلے کی کیا اہمیت ہے؟ سو، دونوں فریق خوش ہو جاتے ہیں۔ ایسا خوش نصیب انصاف خوش نصیبوں کو ہی نصیب ہوتا ہے کہ دونوں فتح کے شادیانے بجاتے سانس نہیں لیتے۔
پاناما لیکس کا مقدمہ بھی اسی قسم کا کیس ہے۔ کبھی عدالت فرماتی ہے کہ بے شک وزیر اعظم صاحب کا فرمانا ہے کہ ان کی زندگی ایک کھلی کتاب ہے مگر اس کتاب میں سے کئی اہم صفحات پھٹے ہوئے ہیں۔ منی ٹریل کا ثبوت فلیٹ کے مالکوں کو دینا ہو گا۔ تاریخوں میں گڑ بڑ اور اسمبلی میں وزیر اعظم کے خطاب کے علاوہ ''بچہ پارٹی‘‘ کے مختلف اور متضاد بیانات کو اس کیس میں بڑی اہمیت حاصل ہے۔ ان ساری باتوں پر فریق ثانی یعنی مدعی پارٹی خوشی سے بغلیں بجاتی ہے اور اسے اپنی اخلاقی فتح قرار دیتی ہے کہ بالآخر عدالت وہی کیوں کہہ رہی ہے جو وہ ایک عرصے سے کہہ رہے تھے مگر دوسرے ہی دن عدالت مدعی کے وکیل کی طبیعت صاف کر دیتی ہے اور وہ یہ کام بھی میرٹ پر کرتی ہے کہ مدعی پارٹی چن چن کر وہ وکیل کرتی ہے جو عدالت میں دلائل سے زیادہ ''جگتوں‘‘ سے کام چلانے کی کوشش کرتے ہیں۔
مسلم لیگ ن کو عدالتوں میں ''لڑنے‘‘ کا بھی اتنا ہی تجربہ ہے جتنا الیکشن لڑنے کا۔ وہ الیکشن کے دائو پیچ سے بخوبی آگاہ ہیں اور امیدوار کی ٹکٹ سے لے کر الیکشن مہم اور الیکشن ڈے پر پولنگ سٹیشنوں میں ووٹ ڈلوانے سے لے کر نتائج کی جمع تفریق تک سب کاموں میں صرف ماہر ہی نہیں انتہائی ماہر ہیں۔ اسی طرح وہ مقدمہ لڑنے کے سارے دائو پیچ سے بھی آگاہ ہیں۔ پہلے مرحلے پر وہ یہ کرتے ہیں کہ سارے اچھے وکیل کر لیتے ہیں، میرا مطلب ہے وکیلوں کو اپنے کیس کے لیے انگیج کر لیتے ہیں خواہ ان میں سے کوئی عدالت میں دلائل کے لیے پیش ہو یا نہ ہو مگر وہ فریق ثانی کے لیے کوئی اچھا اور نامور وکیل فارغ نہیں رہنے دیتے۔ بالکل اسی طرح جس طرح ایک بڑا اخبار کسی زمانے میں سارے اچھے کالم نگاروں کو اپنے پروں تلے چھپا کر بیٹھا ہوتا تھا۔ کئی کالم نویس مہینوں نہیں لکھتے تھے مگر انہیں تنخواہ بروقت مل جاتی تھی۔ گروپ کے مالک کے بقول وہ ایسے کالم نگاروں کو اپنے اخبار میں کالم لکھنے کا نہیں بلکہ کہیں اور نہ لکھنے کا معاوضہ دیتا ہے۔ سو یہی حال مسلم لیگ والوں کا ہے کہ وہ بعد میں رونے پیٹنے کے بجائے شروع میں ہی سارے بندوبست کرلیتے ہیں۔
اللہ جنت نصیب کرے چچا سالک خاں مرحوم کو، وہ ہمارے عزیز دوست اطہر خاکوانی کے والد تھے اور اپنی عمر سے قطع نظر‘ ہمارے بھی دوست تھے۔ بڑی مزیدار گفتگو کرتے تھے۔ ان کے ساتھ بیٹھ کر اور گپیں لگا کر بڑی فرحت ہوتی تھی۔ ساری جوانی شکار میں گزار دی باز سے لے کر بندوق تک ہر قسم کا شکار کھیلا اور آخر میں ہمارے ساتھ شکار پر جاتے ضرورتھے تاہم بندوق اٹھانے کے بجائے محض کیمپ میں دو چار دن''آئوٹ ڈور لائف‘‘ کا مزا لیتے تھے ۔ ان کا ایک بڑا مزیدار قول تھا کہ ''سستا نوکر اور سستی گاڑی آپ کو چوک میں ذلیل کرواتی ہے‘‘۔ مجھے پاناما کیس کے شروع سے ہی چچا سالک خان بار بار یاد آ رہے ہیں۔
بقول ہمارے ایک عزیز دوست کے حامد خان صاحب وکیلوں کے لیڈر اچھے ہیں مگر بطور وکیل وہ ان دائو پیچ کا عشر عشیر بھی نہیں جانتے جن سے مسلم لیگ ن کے وکیل مسلح ہیں۔ سو وہ کیس چھوڑ گئے۔ یہی حال تحریک انصاف کے دیگر وکلاء کا ہے۔ ان سب کو پارٹی سے تعلق رکھنے یا دیگر سیاسی عوامل کو مد نظر رکھ کر وکیل کیا گیا اور نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ جہانگیر ترین یا علیم خان کی دولت میں سے تھوڑے پیسے اچھے اور پیشہ ور وکیل پر صرف کیے جاتے تو نتائج بہتر نکلتے مگر مفتے یا سستے کے چکر میں معاملات کو ازخود خراب کرنے میں بھی تحریک انصاف کا ازلی نابالغ پن کام آ رہا ہے۔ روزانہ صبح اخبارات میں جب میں پی ٹی آئی کے وکیلوں کی کارکردگی دیکھتا ہوں تو مجھے چچا سالک خاں مرحوم بڑی شدت سے یاد آتے ہیں۔ کاش عمران خان نے چچا مرحوم کا یہ قول سنا ہوتا؛ تاہم ایک اور مسئلہ یہ بھی ہے کہ اگر عمران خان نے یہ قول سنا بھی ہوتا تو کیا گارنٹی ہے کہ وہ اس پر عمل بھی کرتا۔
ایمانداری کی بات ہے کہ پاناما کیس نواز شریف کے گلے میں ہڈی بن کر پھنس چکا ہے مگر جیسا کہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں، مسلم لیگ ن جس سے مراد میاں صاحبان ہی ہیں، عدالتی لڑائی کے ماہر ہیں اور وکیل سے لے کر کہیں آگے تک کے زور پر لڑنے میں ایسے طاق کہ فریق ثانی محض حیران اور ہکّا بکّا ہی ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ اس کے بس میں اور کچھ نہیں۔
لوگ پوچھتے ہیں کہ عمران خان کے اس کیس میں جیت کے امکانات کیا ہیں؟ میں کہتا ہوں جیت کے امکانات کی بات بڑی چھوٹی ہے، جب سے یہ کیس چلا ہے عمران خان بنیادی طور پر اپنے مقصد میں کامیاب ہو چکا ہے۔ لوگوں کی اکثریت آنے والے کسی بھی فیصلے سے قطع نظر، خواہ وہ میاں صاحبان کے حق میں ہی کیوں نہ ہو، عوام کی اکثریت یہ جان گئی ہے کہ لندن کے فلیٹس کا پیسہ نہ تو قطر سے گیا ہے اور نہ ہی جدے کی سٹیل مل بیچ کر لیا گیا ہے۔ اس دوران مریم نواز شریف جو کہتی تھیں کہ ان کی لندن چھوڑ پاکستان میں بھی کوئی جائیداد نہیں، اب نہ صرف مالک مکان بلکہ باقاعدہ زمیندارنی نکل آئی ہیں۔ پہلے سوال یہ تھا کہ حسین نواز شریف نے اتنی چھوٹی عمر میں اتنی بڑی ''پراپرٹی ایمپائر‘‘ کیسے کھڑی کر لی۔ ابھی اس سوال کا جواب مطلوب تھا کہ پتا چلا برخوردار نے اباجی کو باون کروڑ روپے کا تحفہ بھی عطا کیا ہے۔ اسی مقدمے کے دوران قطر سے آنے والے خط نے عام آدمی کے ذہن میں یہ سوال ضرور ڈالا کہ بیٹے کہتے تھے کہ ہم نے جدے کی مل بیچ کر فلیٹ خریدے ہیں، بیٹی کہتی تھی کہ وہ آف شور کمپنیوں میں ''بینی فشری‘‘ نہیں بلکہ ''ٹرسٹی‘‘ ہے، اب چیزیں الٹ نکل رہی ہیں۔ وزیر اعظم کی اسمبلی میں کی گئی تقریر میں کسی قطری کاروبار کا ذکر نہیں تھا اور اچانک ہی ایک قطری شہزادے کا خط نکل آیا۔
سچائی کے دعویدار اور اپنی زندگی کو کھلی کتاب قرار دینے والے میاں نواز شریف صاحب کے وکلاء اب عدالت میں ان کی اسمبلی میں کی گئی تقریر سے متعلق استثنیٰ مانگ رہے ہیں۔ فیصلہ کیا ہوتا ہے، یہ کسی کو بھی معلوم نہیں مگر اندازہ سب کو ہے کہ کیا ہونے جا رہا ہے مگر کسی میں کھل کر بتانے کا یارا نہیں کہ بہت سی مجبوریاں لاحق ہیں لیکن سچ یہ ہے کہ عوامی عدالت میں فیصلہ ہو چکا ہے اور وہ یہ کہ ''دال میں کچھ کالا ہے‘‘ والا معاملہ نہیں، یہاں ساری کی ساری دال ہی کالی ہے۔ اب کوئی شرم محسوس ہی نہ کرے تو اس کا کیا کیا جا سکتا ہے۔ ویسے بھی جہاں وزیروں اور وزارت کے امیدواروں کی کارکردگی کا تعلق محض زور بیان بلکہ زور بدزبانی پر ہو وہاں عدالتی فیصلوں کی اہمیت ہی کیا رہ جاتی ہے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved