دُنیا سے امداد نہیں‘ تجارتی تعاون چاہتے ہیں : نوازشریف
وزیر اعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ''دنیا سے امداد نہیں‘ تجارتی تعاون چاہتے ہیں‘‘ کیونکہ بنیادی طور پر تاجر پیشہ لوگ ہیں اور تجارت میں چار پیسے ہمیں بھی مل جاتے ہیں اور یہ جو رنگ بھاگ لگے ہوئے ہیں‘ اس میں بھی زیادہ تر حصہ تجارت ہی کا ہے جو اقتدار میں آتے ہی دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کرنے لگتی ہے‘ حتیٰ کہ کوئی حساب ہی نہیں رہتا اور بل گیٹس صاحب سے بھی اسی موضوع پر بات ہوتی رہی اور حیرت ہے کہ اقتدار حاصل کیے بغیر ہی انہوں نے اتنا پیسہ بنا لیا اور ان سے یہ بھی پوچھا کہ میں آپ جتنا امیر کیسے ہو سکتا ہوں کیونکہ اب تو یہی حسرت باقی رہ گئی ہے‘ اسی لیے اگلے پانچ سال بھی لینا چاہتا ہوں تاکہ بل گیٹس کو بھی پیچھے چھوڑ جائوں‘ ہیں جی؟ انہوں نے کہا کہ ''بھارت نے مذاکرات کی دعوت کا کبھی مثبت جواب نہیں دیا‘‘ بلکہ اُلٹا ہمارا پانی بھی بند کرنا شروع کر دیا ہے جس سے چناب اور جہلم آدھے سے بھی کم رہ گئے ہیں اور جس پر میں ابھی تک صبر کیے بیٹھا ہوں اور کوئی احتجاجی بیان تک جاری نہیں کیا کیونکہ بقول شاعر ؎
خیالِ خاطرِ احباب چاہیے ہر دم
انیسؔ ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو
نہ ہی اپنے کسی وزیر مشیر کو اس طرح کا بیان دینے کی اجازت دی ہے کہ آخر مودی صاحب کیا کہیں گے۔ آپ اگلے روز لندن روانہ ہونے سے پہلے ڈیووس سے ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
گلا سڑا اور کرپشن زدہ نظام دفن کر دیا ہے : شہبازشریف
خادم اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''گلا سڑا اور کرپشن زدہ نظام دفن کر دیا ہے‘‘ لیکن یہ مُردہ آئے روز کفن پھاڑ کر باہر نکل آتا ہے اور کرپشن کہانیاں ہیں کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لیتیں؛ چنانچہ اب اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا ہے ورنہ ہم نے تو ایک بار اسے واقعی دفن کر دیا تھا لیکن ہم نے اسے نماز جنازہ پڑھے بغیر ہی دفن کر دیا تھا تاکہ دوزخ میں پڑا مزید گلتا سڑتا رہے۔ انہوں نے کہا کہ ''ڈرگ ٹیسٹنگ لیب کا عملہ تبدیل کر دیا ہے‘‘ کیونکہ ہمیں شک تھا کہ کہیں وہ کرپشن میں ملوث نہ ہو اور آپ نے دیکھا کہ ہم کوئی مشکوک کرپشن بھی برداشت نہیں کرتے‘ نیز ہمیں شُبہ ہوا ہے کہ فوڈ اتھارٹی میں بھی کوئی معمولی گڑ بڑ ہو رہی ہے جس پر گرفتاریاں کر کے ان اہلکاروں کو ناکوں چنے چبوا دیے ہیں اور اب انہیں اس وقت تک معافی نہیں ملے گی جب تک وہ آئندہ محتاط رہنے کا وعدہ نہ کریں۔ آخر ہم حکومت کر رہے ہیں‘ کوئی مذاق نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''عوام منفی سیاست اور سیاسی تماشا لگانے والوں سے لاتعلق ہو چکے ہیں اور انہیں اس
لاتعلقی کا یقین دلانے کے لیے ہی ان کے جلسوں اور ریلیوں میں بھرپور شرکت کرتے ہیں اور اس وقت تک کرتے رہیں گے جب تک کہ انہیں اس لاتعلقی کا یقین نہ ہو جائے۔ انہوں نے کہا کہ ''ہم نے ہمیشہ قومی مفاد کو ترجیح دی‘‘ لیکن یہ کم بخت اپنے آپ ہی ذاتی مفاد میں تبدیل ہو جاتی ہے اور ہمیں بے بس کر کے رکھ دیتی ہے اور جس کی وجہ سے ہم کافی پریشان بھی رہتے ہیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک اجلاس کی صدارت کر رہے تھے۔
یہ بی بی سی والے!
بی بی سی سے اعلان ہوا ہے کہ اس اطلاع میں کوئی صداقت نہیں کہ ہم نے پاناما رپورٹ کرنے والے صحافی کے خلاف کوئی انکوائری شروع کر دی ہے، بلکہ ہم اس رپورٹ کے ایک ایک لفظ پر قائم ہیں۔ نیز یہ کہ پاکستان کی طرف سے ہمارے ساتھ اب تک کسی نے کوئی رابطہ نہیں کیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب انہوں نے صاف کہہ دیا تھا کہ وزیراعظم پاکستان نے قومی اسمبلی میں جھوٹ بولا ہے اور اگر یہ غلط ہے تو حکومت نے اُن کے خلاف ہتک عزت کا دعویٰ کیوں نہیں کیا اور اگر نہیں کیا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت نے اس الزام کو تسلیم کر لیا ہے بلکہ موصوف کے اثاثوں کے بارے میں جو تفصیل بتائی ہے‘ حکومت اُس سے بھی متفق ہے‘ نیز بڑھ چڑھ کر وزیراعظم کا دفاع کرنے والے وزیروں مشیروں نے بھی مُنہ میں گھنگھنیاں ڈال رکھی ہیں۔ اس سے زیادہ بدقسمتی کی بات اور کیا ہو سکتی ہے کہ کسی ملک کے وزیر اعظم پر پارلیمنٹ میں جھوٹ بولنے کا الزام لگے اور وہ ٹس سے مس نہ ہو ع
اے کمال افسوس ہے تجھ پر‘ کمال افسوس ہے
بلکہ وزیر اعظم کو کرپشن کنگ کہنے والوں کے خلاف بھی آج تک کسی نے کوئی کارروائی نہیں کی۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ آپ کرپٹ بھی ہیں اور جھوٹے بھی ع
عبرت سرائے دہر ہے اور ہم ہیں دوستو
اور اب خانہ پُری کے لیے یہ تازہ غزل :
کوئی تبدیلیٔ آب و ہوا ہونے سے پہلے ہی
پرانا ہو چکا تھا میں نیا ہونے سے پہلے ہی
بہت حیران ہوں‘ اُس کو سُنائی دے گیا کیونکر
محبت لفظ تھا جس کے ادا ہونے سے پہلے ہی
اضافہ حُسن میں ہونا ہی تھا آہستہ آہستہ
مجھے شک تھا تمہارے کیا سے کیا ہونے سے پہلے ہی
تمہاری مہربانی جو مرے حصے کی تھی‘ وہ بھی
اُچک کر لے گیا کوئی عطا ہونے سے پہلے ہی
کوئی دیوار میرے سامنے تھی سر سے بھی اُونچی
مگر میں چل پڑا تھا راستا ہونے سے پہلے ہی
ابھی تو گوش برآواز تھے سارے‘ مگر یکدم
کہانی رُک گئی تھی ماجرا ہونے سے پہلے ہی
خبر لیتا کوئی تو پاسبانوں میں سے اُن کی بھی
یہاں جو لُٹ گئے تھے بے نوا ہونے سے پہلے ہی
کوئی جھگڑا نہیں ہے اُس کے آگے اور پیچھے کا
حقیقت میں وہی وہ تھا خُدا ہونے سے پہلے ہی
ظفرؔ بیماریٔ دل کو یونہی رہنے دیا میں نے
میں واقف تھا مرض کے لادوا ہونے سے پہلے ہی
آج کا مقطع
ہم ہی مجرم تھے‘ ظفر
ہم ہی بے تقصیر ہیں