ہمارے ہاں پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے 2013ء کے عام انتخابات میں دھاندلی کا شور انتخابات کے بعد مچایا۔ احتجاج کیا، دھرنے دیے، الزامات لگے، کچھ جھوٹے کچھ سچے مگر ہاتھ کچھ نہ آیا۔ انتخابات میں دھاندلی کا شور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی انتخابی مہم کے دوران بہت مچایا۔ ٹرمپ کہتے رہے کہ اُن کے خلاف ہیلری کلنٹن کے حامی دھاندلی کروانے جا رہے ہیں۔ بہت شور مچایا، یہ تک کہہ دیا کہ اگر وہ ہار گئے تو انتخابات کے نتائج قبول نہیں کریں گے۔ ٹرمپ یہ سب کچھ الیکشن سے پہلے کر رہے تھے۔ اصل میں کیا ہو رہا تھا؟ ایسا لگتا ہے کہ اصل میں دھاندلی ٹرمپ کے حق میں ہو رہی تھی۔
یہ ایک کالم نگار کا محض اندازہ نہیں بلکہ یہ نتیجہ ہے جو امریکہ میں سی آئی اے، ایف بی آئی اور نیشنل سکیورٹی ایجنسی (این ایس اے)کی انتخابات کے حوالے سے روس کے کردار پر ایک مشترکہ تفتیش سے سامنے آیا ہے۔ امریکہ میں قومی سطح کے انٹیلی جنس کے یہ سب سے بڑے ادارے ہیں، جو یکجا ہوئے اور انہوں نے چھ جنوری کو یعنی ٹرمپ کے صدارتی حلف اُٹھانے سے محض دو مہینے پہلے یہ رپورٹ جاری کی جس میں تحریر ہے کہ روس نے امریکی انتخابات میں جو رخنہ ڈالا، اس کا مقصد امریکہ کے جمہوری عمل میں عوام کے یقین کو متزلزل کرنا تھا۔ ڈیموکریٹک پارٹی کی اُمیدوار ہیلری کلنٹن کی انتخابی مہم کو نقصان پہنچانا بھی تھا۔ اس مشترکہ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ اِن ایجنسیوں کا یہ بھی اندازہ ہے کہ روسی صدر پوٹن اور روسی حکومت نے بڑی وضاحت سے ٹرمپ کی صدارت کو اپنی ترجیح بنا رکھا تھا۔ یہ وہ رپورٹ ہے جس پر ڈونلڈ ٹرمپ نے بہت شور مچایا تھا اور انٹیلی جنس ایجنسیوں خاص طور پر سی آئی اے سے اُن کے اختلافات اس حد تک کھل کر سامنے آ گئے کہ ٹیلی ویژن پروگرام میں سی آئی اے کے ڈائریکٹر نے ڈونلڈ ٹرمپ کو مشورہ دے ڈالا کہ وہ امریکی سکیورٹی کے بارے میں اظہارِ خیال سے گریز ہی کریں تو بہتر ہے۔
روس کی طرف سے جو واردات ہوئی اس کی تفصیل کچھ یوں بیان کی جاتی ہے۔۔۔۔ اصلی کہانی تو معلوم نہیں کبھی سامنے آسکے گی یا نہیں لیکن کہا یہ جا رہا ہے کہ Phishing کے ذریعے یہ کام ہوا۔ انٹرنیٹ کی دنیا میں Phishing سے مراد ہے کہ دھوکے بازی سے کسی کے ای میل اکاؤنٹ کا 'پاس ورڈ‘ چوری کر لینا اور پھر کمپیوٹروں میں گھس جانا۔ بڑے بڑے وارداتی لوگ موجود ہیں۔ انہی میں سے کسی نے ہیلری کلنٹن کی انتخابی مہم کے چیئر مین John Podesta کا 'پاس ورڈ‘ چوری کر لیا۔ اس چوری کے ذریعے ڈیموکریٹک نیشنل کمیٹی (DNC) کے کمپیوٹروں میں اِن Hackers کا داخلہ ہوا۔ پھر پیچھے کیا رہ گیا۔ سب کچھ Hackers کے پاس پہنچ گیا۔ انٹیلی جنس ایجنسیوں کی تفتیش یہ کہتی ہے کہ یہ کام روسیوں نے کیا۔
وکی لیکس (WikiLeaks) کے ذریعے ڈیموکریٹک پارٹی کے کمپیوٹروں سے حاصل شدہ لذیذ معلومات آہستہ آہستہ چھوڑی جاتی رہیں اور ہیلری کلنٹن چیختی رہیں۔ ادھر ٹرمپ نے شور مچایا ہوا تھا کہ اس کے خلاف دھاندلی کا منصوبہ ہے۔ کیسا زبردست پلان تھا۔ اگر یہ واقعی پلان تھا۔ وگرنہ ہو سکتا ہے کہ ہیلری کلنٹن سے ماضی میں کوئی بہت بڑا گناہ سرزد ہوا، جس کی قدرت کی طرف سے یہ سزا ملی ہو۔
ڈیموکریٹک نیشنل کمیٹی کی چیئرپرسن Debbie Wasserman Shultz ڈیموکریٹک پارٹی کی طرف سے صدارتی اُمیدوار کے لیے Bernie Sand پر ہیلری کلنٹن کو ترجیح دیتی ہیں۔ اس کے بعد Debbie نے استعفیٰ دے دیا تھا مگر ڈیموکریٹک پارٹی کو اس سے سخت نقصان پہنچا۔ عوام یقیناً سوچتے ہوں گے کہ یہ جماعت قابلِ اعتماد نہیں ہے۔
روسیوں نے محض کمپیوٹروں سے چرائی گئی معلومات پر انحصار نہ کیا بلکہ جھوٹی سہی، ایسی خبریں بھی سوشل میڈیا پر جی بھر کے پھیلائیں جن سے صرف ہیلری کلنٹن کو نقصان پہنچا۔ مثال کے طور پر ایسی تحریریں دکھائی دیتی رہیں۔۔۔۔ Hillary is a crook۔۔۔ Immigrants are criminals۔۔۔۔ Muslims are terrorists اس طرح ٹرمپ کے حق میں بیانیے کو مدد ملی۔ امریکی انتخابات کے حوالے سے آپ ایک اصطلاح اکثر سنتے ہوں گے۔۔۔ Swing state۔ یہ ایسی ریاست کو کہتے ہیں جو تھوڑی سی تبدیلی سے کسی طرف بھی جھک سکتی ہے، یعنی اِن ریاستوں میں عموماً ری پبلیکن اور ڈیموکریٹس تقریباً برابر تعداد میں ہوتے ہیں، لہٰذا تھوڑے سے فرق سے وہاں جیتا جا سکتا ہے۔ اسی طرح کی تین ریاستیں Wiscosin، Michigan، Pensylvania تھیں۔ اِن تینوں ریاستوں میں ٹرمپ مجموعی طور پر ایک لاکھ سے بھی کم ووٹوں کی اکثریت سے جیتے۔ اگر ان تین ریاستوں میں ہیلری جیت جاتی تو وہ صدر ہوتی؛ حالانکہ ہیلری کلنٹن کے پاپولر ووٹ پورے امریکہ میں ٹرمپ سے کہیں زیادہ تھے۔ لیکن اِن ریاستوں میں سے ہر ایک میں وہ جس تعداد میں ووٹوں سے ہاری وہ ہزاروں میں ہیں اور ہیلری کی برتری پاپولر ووٹوں میں لاکھوں میں ہے۔
اس مرتبہ امریکہ میں لگ بھگ تیرہ کروڑ رائے دہندگان نے حصہ لیا تھا۔ ہیلری کلنٹن رائے عامہ کے جائزوں میں ٹرمپ سے کہیں بھی پیچھے نہیں تھیں۔ اور اگر الیکشن کے آخری حصے میں یکدم ہیلری کی مقبولیت انتخاب میں کامیابی کے حوالے سے دو تین فیصد کم نہ ہو جاتی تو ٹرمپ کے جیتنے کا پھر بھی کوئی امکان نہیں تھا۔ لیکن کیا ہوا کہ گزشتہ برس 28 اکتوبر کو انتخاب کے دن سے محض گیارہ دن پہلے ایف بی آئی کے ڈائریکٹر Comey نے کانگریس کے لیڈروں کو وہ بدنام زمانہ خط لکھا جس کا بہت تذکرہ ہو چکا ہے۔ اس خط میں ہیلری کی ای میلز کی مزید تفتیش کا ذکر تھا اور ڈونلڈ ٹرمپ نے سنتے ہی کہا تھا کہ یہ تو واٹرگیٹ سے بھی بڑا معاملہ ہے؛ حالانکہ 5 نومبرکو یعنی انتخاب سے تین دِن پہلے ایف بی آئی کے ڈائریکٹر کی طرف سے کہا گیا کہ مزید تفتیش میں کچھ نہیں ملا۔ مگر ہیلری کی مقبولیت کم ہو چکی تھی۔
کہتے ہیں کہ امریکی انتخابات میں ایک فیصد مقبولیت کم ہو جائے تو لاکھوں ووٹ کم ہو جاتے ہیں۔ اِن انتخابات کے حوالے سے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ری پبلیکن پارٹی کے ہمنواؤں نے اقلیتی ووٹروںکو اُن کے ناموں سے پہچان کر ان تک ووٹ ہی پہنچنے نہ دیے۔ مگر اب یہ سب باتیں ہی رہ گئی ہیں۔ ٹرمپ صدر بن چکے ہیں۔
شروع میں مَیں نے عمران خان کی طرف سے دھاندلی کے شور کی بات کی تھی۔ آئندہ انتخابات میں عمران خان کو ٹرمپ کے طریقے پر عمل کرنا چاہیے۔ انتخابات سے پہلے دھاندلی کا شور مچانا چاہیے اور اپنے سوشل میڈیا کے کارندوں سے وہی کام لینا چاہیے جو روسی ہیکروں نے ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے کیا ہے۔ لیکن اگر موصوف خیبرپختونخوا میں پولیس ریفارمز کے زور پر اگلے انتخابات میں میدان میں آئے تو پھر ممکن ہے توقعات پوری نہ ہو سکیں۔