پی ڈبلیو ڈی رہائشی سوسائٹی دارالحکومت کی ایک پر رونق اور اہم آبادی ہے‘ اس کا بازار طویل و عریض ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ یہ جڑواں شہروں کا سب سے بڑا بازار ہے تو مبالغہ نہ ہو گا۔ پاکستان کا شاید ہی کوئی برانڈ ہے جس کی نمائندگی یہاں نہیں ہو رہی۔ کپڑے سے لے کر ریڈی میڈ ملبوسات تک‘ جوتوں سے لے کر الیکٹرانک تک اور مٹھائی سے لے کر رضائی تک‘ ہر شے یہاں موجود ہے اور فروختنی ہے۔ دارالحکومت کی تمام جدید آبادیاں اِسی بازار پر انحصار کرتی ہیں۔ بحریہ کے آٹھ فیز‘ ڈیفنس ہائوسنگ کے دو فیز‘ نیول رہائشی کالونی‘ میڈیا ٹائون‘ پولیس فائونڈیشن‘ پاکستان ٹائون‘ سوأں گارڈن‘ کورنگ ٹائون کی آبادیاں نزدیک واقع ہیں‘ یہ تو اِس بازار میں آتی ہی ہیں‘ راولپنڈی کے مشرق میں واقع مضافاتی علاقے بھی یہیں سے خریداری کرتے ہیں۔ سہالہ اور مندرہ سے لے کر گوجر خان‘ چکوال‘ دینہ اور جہلم تک کے لوگوں کو یہ بازار پنڈی اسلام آباد کے کسی بھی دوسرے بازار سے زیادہ نزدیک پڑتا ہے۔ اس بازار کی روزانہ کی سیل کسی شک و شبہ کے بغیر اربوں کی ہے۔
مگر اس عظیم الشان بازار کی حالت یہ ہے کہ ساری سڑک ٹوٹی ہے ‘ یوں کہ آٹھ آٹھ انچ اور ایک ایک فٹ گہرے کھڈ‘ گاڑیوں کے پہیوں کو اپنی گرفت میں لیتے ہیں تو چھوڑتے ہی نہیں! کسی بھی گائوں کا کچا راستہ اس سڑک سے کئی درجے بہتر ہے۔ بارش میں یہاں وہ حال ہوتا ہے کہ ناقابلِ بیان ہے ۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ لیبارٹریاں اور الٹرا سائونڈ مراکز بھی یہیں واقع ہیں۔ مریض کی حالت ہچکولوں سے پہلے کچھ اور ہوتی ہے اور ہچکولوں کے بعد کچھ اور ! صورتِ حال ماضی قریب سے نہیں‘ بلکہ طویل عرصہ سے اسی طرح ہے۔ اس بات سے قطعِ نظر کہ یہ شاہراہ کس اتھارٹی کے دائرہ کار میں آتی ہے‘ اگر آپ یہاں بیٹھے ہوئے کسی تاجر سے کہیں کہ خریدار کو آنے میں بہت تکلیف ہوتی ہے‘ اگر ہر تاجر سڑک کا وہ حصّہ ٹھیک کرا دے جو اس کے سامنے واقع ہے ‘ تو آخر اس پر کتنا مالی بوجھ پڑے گا؟ تو تاجر آپ کو اس طرح دیکھے گا جیسے آپ ابھی ابھی مریخ سے اترے ہیں اور جو زبان بول رہے ہیں‘ وہ اس کے پلّے بالکل نہیں پڑ رہی!
یہ قصّہ کیا ہے؟ یہ ایک بازار ایک آبادی ایک شاہراہ ایک شہر کا قصّہ نہیں‘ یہ پورے ملک کی حکایت ہے۔ یہ شاہراہ ایک علامت ہے جو ہمارے پورے قومی جسد پر صادق آتی ہے۔ یہ وہ بیماری ہے جو ہمیں من حیث القوم لاحق ہے۔ ہم کروڑوں اربوں روپے کما سکتے ہیں۔ ہم ہر ماہ انکم ٹیکس والوں کے اور لیبر والوں کے اور نہ جانے کس کس محکمے لیے'لفافے‘‘ تیار کر سکتے ہیں‘ ہم تجوریاں بھر سکتے ہیں۔ ایک ایک شہر میں دس دس مقامات پر چین(Chain)کھول سکتے ہیں مگر چند ہزار یا چند لاکھ روپے لگا کر اپنے ماحول کو صحت مند نہیں کر سکتے۔ بزرگ ایک زمانے میں کہا کرتے تھے کہ کتا بھی پوچھل پھیر کر بیٹھتا ہے یعنی بیٹھنے سے پہلے دُم سے جگہ صاف کر لیتا ہے افسوس ! ہم میں اتنا شعور بھی نہیں!
آپ کسی شہر کی سبزی منڈی میں چلے جائیے‘ بارش نہ ہو تب بھی آپ کو پائنچے گھٹنوں تک اٹھا کر چلنا پڑے گا۔ دکاندار چائے پی رہے ہیں‘ کھانا کھا رہے ہیں‘ نماز پڑھ رہے ہیں اور ان کے آگے پیچھے دائیں بائیں گندگی کے ڈھیر پڑے ہیں۔ یہ اللہ کے بندے پھلوں کے چھلکے اور سبزیوں کے زائد حصّے کسی ٹوکری میں نہیں‘ سامنے سڑک پر پھینکتے ہیں! سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا یہ حکومت کا قصور ہے' کیا سول یا ملٹری بیورو کریسی اس غلاظت کی ذمہ دار ہے؟ کیا یہ سیاست دانوں کا کام ہے ؟ کیا یہ لوگ اپنے گھروں کے کمرے صحن اور برآمدے بھی اس حالت میں رکھتے ہیں؟ کیا یہ ہر روز غسل بھی نہیں کرتے؟ کیا یہ اپنے کپڑے نہیں دھوتے؟ اگر یہ سارے کام حکومت یا بیورو کریسی یا سیاست دانوں کی مداخلت کے بغیر کر رہے ہیں تو کیا اپنی دکانوں کا آگا پیچھا صاف نہیں رکھ سکتے؟
مہذب دنیا میں حجام کی دکان اور گوشت کی دکان اِس زمانے میں اس قدر صاف ستھری ہوتی ہے کہ فرش آئینے کی طرح ہوتا ہے۔ حجام‘ ہر حجامت کے بعد فرش صاف کرتا ہے۔ ہمارے ہاں اس کا تصوّر ہی نہیں۔ گوشت کی دکان میں داخل ہونے سے پہلے ناک پر کپڑا رکھنے کو دل کرتا ہے۔ لکڑی کا گول ٹکڑا(مُڈھی) جس پر گوشت رکھ کر کاٹا جاتا ہے‘ مکھیوں سے اٹا ہوا ہوتا ہے۔ قصاب کے ایک ہاتھ میں سگریٹ بھی ہوتا ہے۔ کپڑے اس نے وہ پہنے ہوئے ہوتے ہیں کہ دیکھ کر ابکائی آتی ہے۔ آپ انگور کے موسم میں خریداری کرتے وقت توجہ دیجیے‘ نوے فیصد دکانوں اور ٹھیلوں پر انگور کے اوپر مکھیوں کا سیاہ غلاف پڑا ہوتا ہے۔ دکاندار سے بات کریں تو کہے گا جناب بس آج ہی کپڑا نہیں رکھا‘ یا یہ کہ ڈھانک دیں تو گاہک کو نظر کیسے آئے گا؟
یہ جو آپ کو سڑک پر فراٹے بھرتی مرسڈیز یا کرولا یا لینڈ کروزر سے کاغذ کے ٹکڑے‘ سگریٹ کے بَٹ ‘ پھلوں کے چھلکے باہر گرتے نظر آتے ہیں تو اس کا کیا سبب ہے؟ اس کا سبب یہ ہے کہ ہمارے گھروں میں ڈسٹ بِن(کوڑے کی ٹوکری) کا رواج ہی نہیں پڑ سکا۔ بچے مالٹے یا مونگ پھلی کھا کر چھلکے وہیں پڑے رہنے دیتے ہیں۔ کاغذ ٹکڑے ٹکڑے کر کے اِدھر اُدھر بکھیرتے ہیں‘ آ کر نو کر صفائی کرے یا ماں یا بہن سمیٹے۔ بیرونِ ملک سے آنے والے بچوں کو غور سے دیکھیے‘ زمین و آسمان کا فرق ہے! یہ بچے کھانا کھا کر اپنی پلیٹیں اہتمام سے اُس جگہ رکھیں گے جہاں رکھنی چاہئیں۔ چھلکے‘ ردی کاغذ یا کوڑا ڈسٹ بِن میں ڈالیں گے‘ آپ کو سلام کریں گے‘ آپ انہیں کھانا پیش کریں گے تو باقاعدہ تھینک یو کہیں گے۔ ہمارے مقامی بچے بات تک نہیں کرتے‘ساٹھ فیصد بچے‘ کچھ پوچھا جائے تو جواب دینے سے شرماتے ہیں‘ انہیں بتایا ہی نہیں گیا کہ آدابِ محفل کیا ہیں!
ہسپانیہ کا ایک احمق بادشاہ ہیٹر کے قریب بیٹھا تھا‘ سخت سردی تھی‘ ملازم موجود نہیں تھا یا جو بھی وجہ تھی بہر طور اسے کوئی اور شخص ہیٹر جلانے کے لیے نہ ملا وہ سردی سے ٹھٹھر کر مر گیا مگر اُس نے خود اُٹھ کر ہیٹر نہ جلایا۔ ہم اس سے بھی زیادہ احمق ہیں۔ ہم پیاس کے باوجود پانی اٹھ کر نہیں پیتے یہاں تک کہ کوئی بچّہ یا ملازم اندر آئے اور اسے ہم پانی لانے کا کہیں۔ ملازم تو ملازم ہیں ہم نے اپنے بیٹوں بیٹیوں کی زندگی اجیرن بنا رکھی ہے۔ چائے بنا دو‘ دوا پکڑائو‘ اخبار اٹھا لائو‘ یہ کر دو‘ وہ کر دو۔ اس کالم نگار نے ایک دوسرے ملک میں ایک نوّے سالہ خاتون کو دیکھا جو بیٹی ‘نواسی اور داماد کی موجودگی میں کمرے کا دروازہ اُٹھ کر خود پھیرتی تھی اور کھانا کھا کر اپنی پلیٹ خود دھوئے جانے والے برتنوں میں رکھ کر آتی تھی۔ ایک دوست نے بتایا کہ واشنگٹن کے ایک سپر سٹور میں اس نے ایک بہت بوڑھی عورت کو دیکھا جو سودا سلف خرید کر ٹرالی خود دھکیلے جا رہی تھی۔ اِس نے پیش کش کی بڑی بی‘ میں ٹرالی لے چلتا ہوں‘ بڑھیا نے پوچھا ‘ ''کیوں‘‘؟ ‘ اس کیوں کا ہمارے دوست کے پاس کوئی جواب نہ تھا!
آپ دکانوں کا سروے کر کے دیکھ لیجیے۔ ایک ایک دکان پر تین تین چار چار آدمی کام کر رہے ہیں۔ تین بھائی ہیں تو تینوں ایک ہی دکان سے چمٹے ہوئے ہیں۔حالانکہ کام کی مقدار صرف ایک کا تقاضا کرتی ہے۔ معاشیات میں اِسے چُھپی ہوئی بے روزگاری (Disguised-unemployment)کہتے ہیں۔ امریکیوں نے پاکستانیوں کے حوالے سے ایک فارمولا وضع کیا ہے کہ بلب تبدیل کرنا ہو تو پانچ افراد کی ضرورت پڑتی ہے۔ ایک شخص نے میز پکڑ رکھا ہے‘ دوسرا اُس میز پر کھڑا ہو کر بلب تبدیل کر رہا ہے۔ تیسرا بلب پکڑ اور پکڑا رہا ہے اور دو افراد پاس کھڑے یہ سارا ''تماشا‘‘ دیکھ کر محظوظ ہو رہے ہیں۔ کیا آپ نہیں دیکھتے کہ دو افراد میں ہاتھا پائی ہو رہی ہو تو تماشا دیکھنے والے بیسیوں کی تعداد میں ہوتے ہیں۔ سڑک پر حادثہ ہو جائے تو ہم پاکستانی اُس کام کوبھول جاتے ہیں جس کے لیے جارہے ہوتے ہیں۔ تیس چالیس گاڑیاں سوزوکیاں ‘موٹر سائیکل سڑک کے کنارے کھڑے ملتے ہیں‘ یہ سب لوگ حادثے کا ''تماشا‘‘ دیکھ رہے ہوتے ہیں۔