میرے خیال میں اسلام آباد یونیورسٹی میں شعبہ فزکس کو ڈاکٹر عبدالسلام سے منسوب کرنا نہایت غلط فیصلہ ہے۔ ڈاکٹر عبدالسلام نے پاکستان کے بارے میں انتہائی توہین آمیز کلمات استعمال کیے جو ریکارڈ پر موجودہیں۔ آنجہانی نے پاکستان کو ملعون سرزمین قرار دیا۔ پاکستانی حکمرانوں کو فیصلے کرتے ہوئے عقل و دانش اور حُب الوطنی کو ہمیشہ ملحوظ رکھنا چاہیے۔ دستورِ پاکستان میںقادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا ہے۔ دستور کی اس دفعہ اور قانونِ تحفظ ناموس رسالتؐ کے خلاف آج سازشوں کا جال پھیلایا جا رہا ہے۔ اس کے پیچھے غیر مسلم قوتیں اور اسلام دشمن عناصر ہیں۔ دور نبوی سے لے کرتا امروز امت کے درمیان اس موضوع پر کبھی کوئی اختلاف نہیں رہا کہ محمد ؐ آخری نبی ہیں اور آپؐ کی امت آخری امت ہے۔علامہ اقبالؒ نے آنحضورؐ کے ارشاد عالیہ ہی کو اپنے فارسی کلام میں یوں منظوم کیا ہے: ؎
پس خدا برما شریعت ختم کرد
بر رسول ما رسالت ختم کرد
رونق از ما محفلِ ایام را
اُو رُسل را ختم و ما اقوام را
حضور پاکؐ کی بیسیوں احادیث اسی موضوع پر ہیں کہ آپؐ کے بعد کوئی نبی اور رسول نہیں آئے گا۔ یہ سب احادیث سورۃ الاحزاب کی آیت نمبر40کی تشریح کرتی ہیں۔ ہم چند احادیث یہاں نقل کرتے ہیں۔ نبیؐ نے فرمایا: بنی اسرائیل کی قیادت انبیا کیا کرتے تھے۔ جب کوئی نبی وفات پاجاتا تو دوسرا نبی اس کا جانشین ہوتا۔ مگر میرے بعد کوئی نبی نہ ہوگا بلکہ خلفا ہوں گے۔(بخاری)حضرت ابیّ بن
کعب کی روایت:رسول اللہ ؐنے فرمایا: مجھے چھ باتوں میں تمام انبیا پر فضیلت دی گئی ہے۔ (1)مجھے جامع اور مختصر بات کہنے کی صلاحیت دی گئی ہے، (2) مجھے رعب کے ذریعے سے نصرت بخشی گئی ہے، (3)میرے لیے اموالِ غنیمت حلال کیے گئے ہیں، (4) میرے لیے زمین کو مسجد بھی بنا دیا گیا ہے اور پاکیزگی حاصل کرنے کا ذریعہ بھی (یعنی میری شریعت میں نماز صرف مخصوص عبادت گاہوں میں ہی نہیں بلکہ روئے زمین پر ہرجگہ پڑھی جاسکتی ہے اور پانی نہ ملے تو میری شریعت میں تیمم کرکے وضو کی حاجت بھی پوری کی جاسکتی ہے اور غسل کی حاجت بھی)، (5)مجھے تمام دنیا کے لیے رسول بنایا گیا ہے اور (6) مجھ پر انبیا کا سلسلہ ختم کردیا گیا ہے۔ (مسلم، ترمذی، ابن ماجہ) رسول اللہؐ نے فرمایا: رسالت اور نبوت کا سلسلہ ختم ہوگیا۔ میرے بعد اب نہ کوئی رسول ہے اور نہ نبی۔(ترمذی، مسند احمد، انس بن مالکؓ) نبیؐ نے فرمایا: میں محمد ہوں، میں احمد ہوں، میں ماحی ہوں کہ میرے ذریعہ سے کفر محو کیا جائے گا۔ میں حاشر ہوں کہ میرے بعد لوگ حشر میں جمع کیے جائیں گے (یعنی میرے بعد اب بس قیامت ہی آنی ہے) اور میں عاقب ہوں ، اور عاقب وہ ہے جس کے بعد کوئی نبی نہ ہو۔(بخاری ومسلم و ترمذی) رسول اللہ ؐ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے کوئی نبی نہیں بھیجا جس نے اپنی امت کو دجال کے خروج سے نہ ڈرایا ہو (مگر ان کے زمانے میں وہ نہ آیا) اب میں آخری نبی ہوں اور تم آخری امت ہو۔ لامحالہ اب اس کو تمھارے اندر ہی نکلنا ہے۔ (ابن ماجہ)نبی محترمؐ نے فرمایا: میرے بعد اگر کوئی نبی ہوتا تو عمر بن خطابؓ ہوتے۔(ترمذی)آنحضور ؐ نے حضرت علیؓ سے فرمایا: میرے ساتھ تمھاری نسبت وہی ہے جو موسیٰؑ کے ساتھ ہارونؑ کی تھی، مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔ (بخاری ومسلم)ان احادیث میں اللہ کے فضل ورحمت سے ہر دور میں آئمہ کرام اور مجتہدین امت نے یکساں موقف اپنایا ہے۔ نبی پاکؐ کی ختم نبوت پر نقب لگانے والے تمام مجرمین بالاتفاق کفار ہیں۔ وہ دنیا میں بھی عبرت کا نشان بنے اور آخرت میں بھی ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔ اس موضوع پر اختصار کے ساتھ اہلِ علم کی آرا ذیل میں پیش کی جارہی ہیں:
امام ابوحنیفہؒ (80-150ھ) کے زمانے میں ایک آدمی نے نبوت کا دعوی ٰ کیا اور کہا: ''مجھے موقع دو کہ میں اپنی نبوت کی علامات پیش کروں‘‘۔ اس پر امام اعظمؒ نے فرمایا کہ ''جوشخص اس سے نبوت کی علامت طلب کرے گا وہ بھی کافر ہوجائے گا کیوںکہ رسول اللہ ؐ فرما چکے ہیں کہ لَانَبِیَّ بَعْدِیْ۔‘‘ (مناقب امام اعظم ابو حنیفہ ، ابن حنبل مکی )۔ علامہ ابن جریر لکھتے ہیں نبی اکرمؐ پر نبوت ختم ہوگئی اورا س پر مہر لگا دی گئی۔ اب قیامت تک کے لیے یہ دروازہ بند ہے۔ (تفسیرابن جریر، ج22، ص21) امام طحاوی اپنی کتاب عقیدہ سلفیہ میں اور علامہ ابن حزم اپنی تفسیر المعلّٰی میں فرماتے ہیں کہ آنحضور ؐخاتم الانبیا ہیں آپؐ کے بعد کوئی نبی اور رسول نہیں۔ علامہ زمخشریؒ (764-835ھ) لکھتے ہیں: ''جو لوگ حضرت عیسیٰؑ کی دوبارہ آمد کو دلیل بناتے ہیں انھیں جان لینا چاہیے کہ عیسیٰؑ آپؐ سے پہلے نبی بنائے جاچکے تھے، جب وہ نازل ہوں گے تو شریعت محمدیہ کے پیرو اور آنحضورؐ کی امت کے ایک فرد کے طور پر آئیں گے۔ (تفسیرکشاف ج2،ص512)۔ یہی بات امام بیضاویؒ متوفی586ھ نے لکھی ہے۔ (بحوالہ انوارالتنزیل، ج4، ص461)علامہ سیوطیؒ متوفی 119ھ لکھتے ہیں: آنحضرت محمدؐ کے بعد کوئی نبی نہیں اور عیسیٰؑ جب نازل ہوں گے تو آپؐ کی شریعت کے مطابق ہی عمل کریں گے۔ (جلالین، ص867) علامہ آلوسیؒ متوفی721ھ نے اس موضوع پر تفصیلاً لکھا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ آنحضورؐکے بعد نبوت کا مدعی بالاتفاق کافر اور واجب القتل ہے۔(روح المعانی‘ ج22‘ ص23‘ 83‘ 93) نبی پاکؐکا خاتم النبیین ہونا خود اس امت کے لیے ایک بڑا اعزاز ہے۔ جس طرح آپ انبیاء کے خاتم ہیں، اسی طرح یہ امت جملہ اممِ عالم کی خاتم ہے۔
نبی اکرمؐ کے دور میں بھی کئی جھوٹے مدعیان نے نبوت کے دعوے کیے۔ ان میں سے مسیلمہ کذاب سب سے زیادہ چالاک اور دھوکے باز تھا۔ وہ آنحضورؐ کو نبی تسلیم کرنے کے ساتھ ہی یہ دعویٰ کرتا تھا کہ وہ بھی نبی ہے۔ اس نے جو کلمہ ایجاد کیا اور جو اذان اس کے علاقے میں پڑھی جاتی تھی ان دونوں میں اس بات کا اظہار ہوتا تھا۔ آنحضورؐ نے اس پر لعنت بھیجی اور اس کو کذّاب قرار دیا۔ حضرت ابوبکرصدیقؓکے حکم سے صحابہؓ نے اس کے خلاف جنگ لڑی اور یمامہ کی جنگ میں یہ بدبخت قتل ہو کر جہنم واصل ہوا۔ اسی طرح دیگر مدعیانِ نبوت میں اسود عنسی بھی شامل تھا۔ یہ یمن کے علاقے میں تھا اور ایک مسلمان کے ہاتھوں قتل ہوگیا تھا۔ اس کے قتل کی خوش خبری آنحضور ؐنے دی تھی۔ بنوتمیم کی ایک خاتون سجاح بنت حارث نے بھی نبوت کا دعویٰ کیا تھا۔ اس کے بھی عروج وزوال کی عجیب داستان ہے۔ اس کے بارے میں مختلف آرا ہیں۔ ایک رائے یہ ہے کہ آخر میں یہ مسلمان ہوگئی تھی اور دوسری رائے یہ ہے کہ حالت کفر ہی میں مر گئی تھی۔ ابن اثیر کی رائے اس کے مسلمان ہونے کے حق میں ہے۔ وہ یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ بصرہ کے گورنر حضرت سمرہ بن جندبؓ نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی تھی۔ علامہ ابن کثیر نے البدایۃ والنہایۃ میں اس کے حالات لکھے ہیں اور یہ بھی بیان کیا ہے کہ اس کی وفات حضرت معاویہؓ کے دور میں ہوئی۔
صحابہ کرامؓ نے اس دور کے تمام مدعیان نبوت کے خلاف جنگ لڑی تھی اور ان میں سے سبھی اپنے برے انجام کو پہنچے تھے۔ ان میں سے ایک طلیحہ بن خویلد اسدی خوش نصیب ثابت ہوا جسے توبہ کی توفیق ملی، اپنے جھوٹے دعوے سے برأت کا اظہارکیا اور پھر سے نبی اکرم ؐ کی امت میں شامل ہوگیا۔ توبہ تائب ہونے کے بعد اس نے اسلام کی حمایت میں کافی جنگیں بھی لڑیں۔ دورِ جدید میں انگریزوں نے جھوٹے مدعی نبوت مرزا غلام احمد قادیانی کو امت کا شیرازہ منتشر کرنے کے لیے میدان میں اتارا اور اس کے ذریعے امت مسلمہ کو خاصا نقصان پہنچایا۔ یہ فتنہ آج بھی موجود ہے۔ البتہ یہ اللہ کا بڑا احسان ہوا کہ دستور پاکستان میں دوسری ترمیم 17؍ستمبر 1974ء میں قادیانیوں کو غیرمسلم اقلیت قرار دے دیا گیا۔ امت تو پہلے ہی اس بات پر متحد تھی کہ یہ غیرمسلم ہیں، اب دستوری لحاظ سے بھی حکومت اس بات کی پابند ہے کہ ان سے غیرمسلم اقلیت والا معاملہ کرے۔