کہیں بھی لیکچر کا اہتمام ہو، کسی بھی شہر میں‘ تقریب کے تمام شرکاء کے لیے کھانے کا بندوبست کیا جاتا ہے۔ ان ملاقاتیوں کے لیے بھی، میزبان کے ہاں جو ملنے آتے ہیں۔ تقریر اور تحریر کے باب میں، ان کا قول یہ ہے کہ دوسروں کو بور کرنے کا حق کسی کو نہیں۔ اسی طرح مہمان کے بارے میں شِعار یہ ہے کہ ڈھنگ کا کھانا اسے پیش کیا جائے۔ احترام اور محبت کے ساتھ۔ روزانہ جو لوگ شریکِ طعام ہوتے ہیں، ان کے لیے بھی قرینہ یہی ہے۔ دودھ میں پکی ماش کی دال، میرے خالہ زاد بھائی، میاں محمد خالد حسین کو پسند ہے۔ حیرت سے ایک بار انہوں نے کہا، جب بھی جانا ہوا، دستر خوان پہ لازماً موجود تھی۔
چار عدد جنرلوں کی موجودگی میں سید مشاہد حسین سے، جنرل اشفاق پرویز کیانی نے کہا، پروفیسر صاحب سے ملیے۔ کم از کم 92 فیصد تجزیے ان کے درست ہوتے ہیں، ہر موضوع پر۔ امریکی اکابر، سوات اور وزیرستان کی جنگوں کے علاوہ، خطے کے امور، عالمی شخصیات اور پیچیدہ مسائل پر بارہا طویل گفتگوئیں ان کی ہو چکی تھیں۔ چند ایک میں ناچیز بھی شریک رہا۔ ایک چیز جنرل کیانی اور پروفیسر صاحب میں مشترک ہے۔ دونوں ہی شب کو تین گھنٹے سویا کرتے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ جنرل صاحب کچھ دیر شام میں آرام کرتے ہیں ‘ پروفیسر صاحب نہیں ۔ جنرل ورزش کا عادی ہے اور کم خوراک۔ پروفیسر صاحب ان سے بھی کم کھاتے ہیں۔ ایک زمانے میں صبح سویرے دوڑ لگایا کرتے۔گھٹنا خراب ہوا اور انیس برس خراب رہا تو ظاہر ہے یہ سلسلہ باقی نہ رہا۔ اس کے باوجود وہ تازہ دم کیسے رہتے ہیں؟ یہ بھید کسی طرح کھلتا نہیں۔
چودھری شجاعت کو ساتھ لے کر مشاہد حسین ملنے آئے تو ناشتے پر زیادہ اہتمام کرنے سے انہوں نے منع کیا۔ ڈبل روٹی اور فرائی انڈے۔ آنکھوں ہی آنکھوں میں پروفیسر ہنسے۔ ناشتے کی میز پر اس کے سوا بھی سب کچھ موجود تھا‘ لاہوریوں کے ہاں جو ہوا کرتا ہے۔ چودھری نے دو عدد پراٹھے رغبت کے ساتھ کھائے، یاد نہیں کہ پائے یا نہاری سے۔ لمحہ بھر کو رکے تو پروفیسر کے عمّ زاد غلام جیلانی نے ہاتھ بڑھایا۔ چودھری صاحب نے اس کے ہاتھ پر ہاتھ مارا اور کہا: کھانے دے یار!
استاد نے ان سے کہا: آپ کے سامنے دوراستے ہیں۔ عمران خان سے اتحاد کرکے ولیمے میں شریک ہوں یا زرداری صاحب سے سمجھوتہ کرکے جنازے کا قصد کریں۔ چودھری شجاعت کپتان کی طرف مائل تھے، مگر جناب پرویز الٰہی مصر ہوگئے۔ مشاہد حسین مدتوں اس پر ناشاد رہے۔
پروفیسر صاحب کے پاس کون سی گدڑ سنگھی ہے کہ سیاستدان اور جنرل ، جج اور دانشور ان کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں۔ کسان زادے‘ دہقان‘ ترکھان‘ مستری اور مزدور بھی۔ اخلاص بجا مگر یہ دانش اور خیر خواہی ہے‘ اپنائیت میں گندھی ہوئی۔ سبھی ان کے اپنے ہیں اور وہ سب کے۔ ہاں مگر بے نیاز بھی۔ اقبالؔ نے کہا تھا: شمع محفل کی طرح‘ سب سے جُدا‘ سب کا رفیق۔ علم کی کوئی تھاہ نہیں۔ دروازہ سب پہ کھلا ہے۔ فیض کا انحصار طالب علم اور مسافر کے ذوق اور ظرف پہ ہے ؎
عشق کی چوٹ تو پڑتی ہے دلوں پر یکساں
ظرف کے فرق سے انداز بدل جاتے ہیں
چند ہی آدمیوں سے گریزاں دیکھا۔ قرآن میں عُمُق کا دعویٰ کرنے والے ایک دانشور اور ایک تہجد گزار سیاستدان سے۔ کہا: بڈھے طوطوں پہ صرف ہونے والا وقت ضائع ہو جاتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ان کا ہاتھ تھام کر، اگر میں لے جاتا تو انکار نہ کرتے۔ ایک بار یہ تجربہ میں کر بھی چکا تھا۔ بندگانِ خدا سے فقیر کی الفت کا کنارہ کوئی نہیں ہوتا۔ اس کا دل بادشاہ کے دستر خوان سے زیادہ وسیع ہوتا ہے۔ اپنے دکھوں کی گٹھڑیاں اٹھائے لوگ آتے ہیں اور قرار کا وعدہ لے کر لوٹتے ہیں۔ پورا ہونے والا وعدہ! ہماری جاسمین منظورکی جان جب خطرے میں تھی تو اسے تسلی دی‘ دعا تعلیم کی۔ چند ماہ میں معمول کی زندگی پر وہ لوٹ آئی۔ ایک آدھ نہیں، ہزاروںایسے ہیں۔ جنرل حمیدگل اور عمران خان سے لے کر جنرل کیانی تک۔ ان میں سے عمران کم نصیب نکلا۔ شاید اس لیے کہ خود کو وہ برگزیدہ سمجھتا ہے۔ نصیبا ان کا جاگا جن کا انداز طالب علمانہ تھا۔ اختلاف خواہ ڈٹ کے کریں۔ ان کی بلکہ زیادہ پذیرائی ہوتی ہے۔ اس دیار کی روش یہی ہے۔ سینکڑوں تو میرے توسط سے ملے ہوں گے۔ ایک بار کہا: ہر وہ تیسرا آدمی‘ اس گھر کی جو سیڑھیاں چڑھتا ہے‘ تمہاری وجہ سے۔
دو بار محترمہ فریال تالپور کو بھی دیکھا۔ دو مشورے انہیں دیے۔ کچھ صاف ستھرے لوگوں کو آگے بڑھائیے۔ ان کی خواہش پر ایک صاحب کا نام بھی تجویز کیا۔ دوسرا یہ کہ بلاول بھٹو کو چیخ کر بات نہ کرنی چاہیے۔ کچھ دن جواں سال سیاستدان نے مشق بھی کی۔ ''صحبتِ سعید‘‘ کا مگر کیا علاج ؟
صوفیوں کے ہاں، سیاستدانوں کا مقدر شاذ ہی یاور ہوتا ہے۔ ہو جائے تو معجزہ برپا ہونے لگتا ہے۔ پیپلزپارٹی کے زمرّد خان ان کے پاس آیا کرتے تھے۔ رفتہ رفتہ یکسر بدل گئے۔ زندگی اب یتیم اور بے نوا بچوں کے لیے وقف کردی ہے۔ تشہیر سے گریزاں، اب وہ ایک اور ہی راستے کے مسافر ہیں۔کبھی ان کے لہجے میں ایک روشنی سی لپک اٹھتی ہے ۔
نون لیگ کے ایک لیڈر آیا کرتے۔ خود کہا کہ ان کی دعائوں کے طفیل راستے کشادہ ہوگئے۔ پھر بگڑے اور اس ناچیز کے ذکر سے۔ اپنے شہر کے لوگوں سے اب یہ کہتے ہیں کہ انہیں مدعو نہ کرو۔ پروفیسر وہاں جاتے رہتے ہیں۔ ان سے محبت کرنے والے بہت ہیں۔ شکایت نہیںپالتے۔ بدقسمت لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیتے ہیں۔
میاں محمد نواز شریف برسوں ملاقات کی استدعا کرتے رہے، مگر اپنے ہاں۔ یہ صوفیوں کا شِعار نہیں ہوتا۔ خلیل ملک مرحوم شدت سے استدعا کرتے رہے۔ ان کا موقف یہ ہوتا ہے کہ جو تھوڑا سا علم اللہ نے مجھے بخشا ہے، اسے میں رسوا نہیں کرسکتا۔ خود ان کے ایک قریبی ساتھی نے مجھ سے کہا تھا: بار بار میاں صاحب نے فون کیا‘ وہ سنتے ہی نہیں۔ خود ایک بار میں نے ان کی بات اپنے فون پر کرائی تھی‘ جب وہ لندن میں تھے اور وہ مردِ پاکباز احسن رشید مرحوم ان کے سفارشی تھے۔ پروفیسر صاحب سے ذکر کیا تو کہا: فون پر پہلے پیغام دیا ہوتا۔ آپ جانتے ہیں‘ دن بھر میں پانچ سات سو کالیں آتی ہیں۔ کیسے میں سن سکتا ہوں۔
معاف کر دیے گئے۔ الیکشن 2013ء سے قبل کہہ دیا کہ تجربہ کار لوگ آئیں گے۔کبھی ان کا ذکر تلخی سے نہیں کیا۔ مباحثہ آنجناب کے بارے میںجاری رہتا ہے۔ مجھ سے لوگ اپنے دلائل دیتے ہیں۔ پروفیسر صاحب کا کہنا ہے کہ ابھی کچھ مہلت باقی ہے۔ ایک دن وہ چلے جائیں گے اور ان کے ہم نفس اور ہم عصر بھی۔ پاکستان کے لیے نئی سویر‘ کچھ اور لوگوں کے جلو میں نمودار ہو گی۔
یادیں ہیں کہ امڈی چلی آتی ہیں۔ ایک کے بعد دوسرا خیال پھوٹتا ہے‘ بہار میں جیسے کونپلیں۔ لکھتا چلا جائوں مگر کتنا لکھوں۔ اقبالؔ نے کہا تھا: تعجب اس پر نہیں کہ ایک محل میں دو بادشاہ نہیں سما سکتے ۔ حیرت اس پر ہے کہ ایک فقیر دو عالم میں کیسے سما جاتا ہے۔
حیرت کا ایک جہان ہے‘ بے حد و بے کنار۔ زر و جواہر کی ایک کان‘ جگمگاتی اور ششدر کرتی ہوئی۔ اپنی نہیں‘ درویش اللہ کی طرف بلاتا ہے۔۔۔ اور اللہ کے جہان کی کوئی آخری حد کیسے ہو سکتی ہے؟
(پروفیسر صاحب کی زیر طبع کتاب ''رموزِ الٰہیت‘‘ کے دیباچے کے طور پر لکھا گیا)
ہارون الرشید
۱۶ جنوری ۲۰۱۷ء